مدارس اور ریاست

کیا سماج کو مدارس کی ضرورت ہے؟ریاست اور مدارس میں اصل جھگڑا کیا ہے؟کیا مدارس کے باب میں ریاست کا مؤقف قابلِ عمل اور منطقی ہے؟مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟

برصغیرپاک و ہند کے مسلم سماج کی مذہبی اور نفسیاتی ضروریات نے مدرسہ کو جنم دیا۔انگریز قابض ہوئے تو انہوں نے مقبوضہ آبادی کے لیے ایک نئے نظام ِتعلیم کی بنیاد رکھی جس کی اساس انگریزی زبان تھی۔مطلوب یہ تھا کہ قابض قوت کو ایسے دست و بازوفراہم کیے جائیں جو مقامی ہوں اور نظام ِ مملکت چلانے کیلئے کارآمد ہوں۔باایں ہمہ ایک گنوار خطے کو تہذیب آشنا کیا جائے۔انگریزی زبان سے بڑھ کر کوئی یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا تھاکہ زبان تہذیب کا دروازہ ہے۔

لارڈ میکالے نے اس نئے نظامِ تعلیم کانقشہ بنایا اور اس کا استدلال (rationale) مرتب کیا۔اس کا خیال تھا کہ سنسکرت‘عربی اور فارسی زبان میں میسر علم و ادب اتنا پست ہے کہ برطانیہ کی ابتدائی تعلیم بھی اس سے بہتر ہے۔ ”یورپ کے کسی اچھے کتب خانے کی ایک الماری‘ ہندوستان اورعرب کے سارے علمی ذخیرے پر بھاری ہے‘‘۔ بعض حساس مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اگرہم نے اپنی زبانوں اور علمی ورثے کی حفاظت نہ کی توسیاسی اقتدار کے ساتھ‘ہمارا تہذیبی وجود بھی مٹ جائے گا۔ اس کے ساتھ روز مرہ کی مذہبی ضروریات بھی تھیں۔نماز‘روزہ کی تعلیم‘نکاح و طلاق کے مسائل‘جنازہ‘تدفین وغیرہ۔گویا مسلم سماج کو ہمہ وقت ایسے لوگ چاہیں جو ان مذہبی ضروریات کو پورا کریں۔یوں ایک تاریخی عمل اور سماجی ضرورت نے دینی مدرسے کو جنم دیا۔

یہ ضرورت تو پوری ہوگئی‘ مگر مسلمان مو جود نظام سے کٹنے لگے۔مدرسے کی تعلیم نے ان کے تہذیبی وجود کو زندہ رکھا‘ مگر ان کے مادی وجود کی بقا کا سامان نہ کر سکی۔اس ضرورت کوسرسید کی تعلیمی سعی و جہد نے پورا کیا۔ان دونوں ضروریات کی تکمیل ہوئی مگر اس طرح کہ جو مادی طور پر زندہ تھا‘وہ تہذیبی طور پرمر رہا تھا۔جو تہذیبی سطح پر زندہ تھا‘اس کی مادی بقا خطرات میں گھر چکی تھی۔مسلم سماج ادھورے انسانوں کا اجتماع بن گیا۔

پاکستان کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ مکمل انسان پیدا کیے جائیں۔مسلمان تہذیبی طور پر زندہ رہیں اور مادی طور پر بھی۔اس کی ایک ہی صورت ممکن تھی:وحدتِ تعلیم۔تعلیم کا ایسا نظام جو ایک فرد کی نفسیاتی و روحانی اور مادی بقا کا ضامن ہو۔ایسی تعلیم جو ‘ایک طرف مسلمانوں کے لیے دنیاوی ترقی کے دروازے کھولے اور دوسری طرف انہیں اس قابل بنائے کہ وہ ایک مسلمان کی زندگی گزار سکیں۔انہیںنماز روزے کے مسائل معلوم ہوں۔ اسلامی اخلاقیات کا علم ہو۔خدا کے حضور میں جواب دہی کا احساس‘ شخصیت کی بنیادی اینٹ بن جائے۔

پاکستان بننے کے بعد‘مادی وجود کی بقا ریاست کی واحدترجیح بنی اوراس نے مذہبی ضروریات سے آنکھیں بندکرلیں۔ ریاست کا تعلیمی نظام انہی خطوط پر قائم رہاجو انگریزوں نے بنایا تھا۔ریاست نے اگر بہت تیر مارا تو دینیات کی ایک کتاب داخلِ نصاب کرد ی اور ایک مذہبی استاد دے دیا۔اس کاکرداراتناہی تھا کہ مولانا مناظر احسن گیلانی کے الفاظ میں‘ ان اساتذہ کو بطور مفرحات استعمال کیا جاتا تھا۔

ریاست نے مذہبی تعلیم کو نظر انداز کیا تو مسلم سماج نے اسے زندہ رکھا۔یوں تقسیم ِ ہند کے بعد بھی سماج منقسم رہا۔ہم ماضی کی طرح ادھورے انسان پیدا کرتے رہے۔اس کے ساتھ ایک سماجی عمل اپنے طور پر جاری تھا۔جب کوئی’ شے‘ ایک سماجی ضرورت بن جائے تو پھر وہ طلب و رسد کے اصول پر ایک معاشی سرگرمی میں تبدیل ہو جا تی ہے۔یہی مذہبی تعلیم کے ساتھ ہوا۔ سماج کی مذہبی ضروریات نے ایک مذہبی طبقے کو جنم دیا۔تمام سماجی طبقات اسی طرح وجود میں آتے ہیں۔تدریجاً ان طبقات کے اداراتی مفادات پیدا ہوجاتے ہیں‘ جن کا تحفظ‘ ان طبقات کی اجتماعی ضرورت بن جا تا ہے کیونکہ اسے بقا کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔یہی معاملہ مدرسہ اور خانقاہ کے ساتھ ہوا۔ تعلیمی اورنفسیاتی و روحانی ضرورت نے انہیںجنم دیاا ورپھر تدریجاً جس طرح ان کی قلبِ ماہیت ہوئی‘علامہ اقبالؔ نے بار ہااس کا نوحہ لکھا:
نذرانہ نہیں‘ سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن

اس دوران میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا‘جب1979 ء میںمذہب کوملک کے سکیورٹی پیراڈائم کاباقاعدہ حصہ بنادیا گیا۔۔اس مرحلے پر ریاست نے ان مدارس اور ان سے جنم لینے والی مذہبی جماعتوں کو ایک اثاثہ جانا اور انہیں اقتدار کی سیاست میں اپنا حریف بنا لیا۔ہماری ریاست نے جب عالمی جنگ میں ہراول دستے کا کردار قبول کیا اور اس میں اہلِ مذہب کو بھی شریک کیا تو جنگ کے لیے وسائل کی فراہمی سے لے کرمالِ غنیمت کی تقسیم تک‘اہلِ مذہب کو شریک کیا گیا۔اہلِ مذہب کو سماجی ضرورت نے‘پہلے ہی انہیںجو حیثیت دے رکھی تھی‘اس میں اب کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

آج حالات کے جبر نے ریاست کو وہاں لا کھڑاکیاہے ‘جہاں اسے احساس ہوا کہ مدارس میں دی جانے والی اس تعلیم وتربیت کومزید سکیورٹی پیراڈائم کا حصہ نہیں بنا یا جا سکتا ۔یہ ریاست کے مفادات سے متصادم ہے۔اس کے لیے مدارس میں اصلاحات کا ایک پروگرام ترتیب دیا گیا۔”پیغام ِ پاکستان‘‘ اس کی ایک کڑی ہے اور حالیہ پیش رفت بھی جس کا ذکر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کا نفرنس میں ہوا۔

فوج کی طرف سے اصلاحات کے اس پروجیکٹ کا اعلان‘اس کا اظہار ہے کہ یہ کام اب سول حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ کوئی حکومت‘باوجوہ‘ ان کی ناراضی یا مزاحمت کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ یوں بھی سکیورٹی پیراڈائم کا حصہ ہونے کے باعث‘حکومت سے زیادہ ان کا تعلق سلامتی کے اداروں سے رہا ہے۔اسی وجہ سے ”پیٖغام ِپاکستان‘‘ کا پروجیکٹ بھی ان اداروں کو اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔وہی اس پر قادر تھے کہ اہلِ مذہب کو کسی ایک فتوے پر متفق کر سکیں۔

اب اصلاحات کاجو منصوبہ بنایا گیا ہے‘اس کا کوئی تعلق اُس اصل مسئلے سے نہیں ہے جس نے مدارس کو جنم دیا اور جس کے نتیجے میں قوم میں کوئی وحدتِ فکر و عمل پیدا نہیں ہو سکی۔مدارس میں فزکس‘ کیمسٹری پڑھانے سے انہیںقومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے اور نہ اس اقدام کی کوئی دنیاوی افادیت ہے۔یہ خواہش ہی مضحکہ خیز اور غیر فطری ہے کہ جو ادارے دینی علوم کے ماہرین بنانے کے لیے قائم ہوئے ہیں‘ان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر اور انجینئرپیدا کریں۔

اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے:وحدتِ تعلیم۔تعلیم کا ایک نظام ‘جس میں سب بچوں کوبارہ سال کی یکساں تعلیم دی جائے۔ مسلمان طالب علموں کے لیے ایک اچھا مسلمان بنانے کی تعلیم‘ اس کے نصابِ کا حصہ ہو۔اس کے بعد دینی علوم میںتخصص کے لیے اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے ہوں جیسے طب اور دیگر شعبوں کی تعلیم کے لیے ہیں۔تدریجاً عام مدارس کو عمومی تعلیم کے اداروں میں بدل دیا جائے اور دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن جیسے مدارس کو اعلیٰ دینی تعلیم کے ادارے بنادیاجائے ‘جن کی حیثیت یونیورسٹی کی ہو۔

عام مدارس کو محکمہ تعلیم کے تابع کر دیا جائے اور جامعات کو ایچ ای سی کے۔ان مدارس کے تمام تدریسی عملے اور دیگر ملازمین کو‘سرکاری ملازم شمار کرتے ہوئے‘روزگار کاتحفظ دیا جائے۔ان اساتذہ کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرتے ہوئے‘دیگر اساتذہ کے مساوی ہو جائیں۔اسی سے مسلکی تعصب کا بھی خاتمہ ہوگا کیونکہ موجودہ مدارس کی تعلیم مسلکی خطوط پراستوار ہے۔

اگر ایسا نہیں ہو تا تو مدارس میں اصلاحات کا منصوبہ ‘باہمی مفادات کے تحفظ کے کسی لائحہ عمل پر ختم ہو جائے گا۔اس سے ریاست کودرپیش فوری چیلنج‘ممکن ہے ختم ہو جائے ‘مگر معاشرے کا مسئلہ اپنی جگہ باقی رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے