آخری بیپ

اس سے سانس مشکل سے لی جا رہی تھی، پیٹ سے اٹھتا درد اس کو بتا رہا تھا یہ آخری اذیت ہے، آخری ٹیس ہے، اس کی سانس کا وقفہ طویل ہوا اور اس کی ماں کے لبوں سے آہ نکلی۔۔۔۔۔۔ "میرے لعل”۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں موندھتے آخری بار اپنی ماں کو دیکھا اور انگلی سے "نہیں” کا اشارہ کیا، اور پھر ایک طویل بیپ بجتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔
باڈی شیمنگ۔۔۔
کسی کی جسمانی ساخت پر اس کا مذاق اڑانا۔۔۔

لوگوں کو ان کے نام یا شناخت کی بجائے ان کے جسمانی خطوط سے پکار کر شرمندہ کرنا۔۔۔
جب کسی صحت مند بچے کو موٹو کہہ کر چھیڑا جاتا ہے، اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چھو کر اپنے زعم میں لاڈ کیا جاتا ہے تو یہ باڈی شیمنگ ہوتی ہے، مذاق اڑانا ہوتا ہے۔

جب کسی دس بارہ سال کے بچے کے زیادہ وزن کی وجہ سے اس کے اٹھنے بیٹھنے کے نسبتا مختلف انداز پر مسکرایا جاتا ہے، جب اس کے گرنے پر قہقہے لگائے جاتے ہیں تو جہاں ایک طرف گرنے سے چوٹ لگنے پر اس کا جسم زخمی ہوتا ہے وہیں آپ کے قہقہے اس کی روح کو زخمی کرتے ہیں، دل پر چوٹ لگاتے ہیں، اور ہاں۔۔۔ باڈی شیمنگ کرتے ہیں۔

جب ایک ٹین ایج لڑکی کو اس کی سہیلیاں اس لئے بھاگنے دوڑنے کے کھیل میں شامل نہیں کرتیں کہ وہ اپنے وزن کی وجہ سے زیادہ بھاگ نہیں پائے گی اور ان کی ٹیم ہار جائے گی تو وہاں شائد ایک میچ تو جیت لیا جاتا ہے لیکن وہیں انسانیت ہار جاتی ہے۔

ایک اٹھارہ سال کے لڑکے کو اس کے دوست کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی کی طرف سے آنے والے پیغام کے بارے میں بتاتے ہیں اور اس لڑکے کے سنجیدہ ہونے پر ایک دم ٹھٹھہ اڑا کر بتایا جاتا ہے کہ "ابے موٹو۔۔۔۔۔ تجھے کیا لگتا ہے اس نے تیرے نیچے دب کے مرنا ہے” تب ایک اٹھارہ سالہ دل اس تضحیک بھرے جملے کے نیچے دب کے مر جاتا ہے۔

بیس برس کی لڑکی کو اس کی ماں جب کہتی ہے کہ "تو تو ساری زندگی میری جان کا عذاب بنی رہے گی، تجھ جیسے گوشت کے پہاڑ کو کس نے بیاہنے آنا ہے” تو ایک پہاڑ اس نازک لیکن بھاری وجود کی انا، عزت، بھرم، خودی اور شخصیت پر بھی آن ٹھہرتا ہے، جس کے نیچے سے وہ نرم سے جذبات والی لڑکی پھر کبھی نکل ہی نہیں پاتی۔
کپڑوں کی کسی دکان پر اپنے سائز کا جوڑا مانگنے پر جب تمسخر آمیز انداز میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کا سائز اس دکان تو کیا پورے ملک میں کہیں سے نہیں ملے گا تو کسی کا اپنی یونیورسٹی میں سب سے خوبصورت اور شاندار نظر آنے کا خواب پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔

یہ سب کچھ اور ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے روزمرہ معاملات میں شامل ہے جس کا ہمیں احساس تک نہیں کہ ہم اپنے ان رویوں سے کسی کے لئے زندگی مشکل تر نہیں بلکہ نا ممکن بنا رہے ہیں، اور افسوس یہ کہ بغیر احساس کئے بناتے چلے جا رہے ہیں، رکنے کا خیال کہیں ہے ہی نہیں۔

دنیا بھر میں 14 فیصد لوگ اییسے ہیں جو کسی مذاق یا بلنگ کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں، اور ان چودہ فیصد میں نو فیصد صرف باڈی شیمنگ کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو جاتے ہیں، کسی کو اس کے موٹاپے پر مذاق کا نشانہ بنانے سے اس فرد میں خودکشی کا رجحان بارہ گنا بڑھ جاتا ہے اور ان کو خودکشی پر مجبور کرنے والا ہمارا کوئی عام سا جملہ بھی ہو سکتا ہے، بہت عام سا جملہ۔۔۔۔ جیسے کوئی چودہ سال کی لڑکی اپنے موٹاپے سے پریشان تین دن سے بھوکی ہو، اور اسے کوئی کہہ دے کہ آج کتنی بار کھانا کھایا؟ صحت سے تو لگتا ہے کہ اب تک دس بار کھا چکی ہو۔۔۔۔ ممکن ہے وہ چودہ سال کی لڑکی اگلی صبح اٹھ نا پائے، ممکن ہے وہ اپنے دادا کے کمرے میں موجود نیند کی دوائی کا پورا پتا کھا جائے، اور آپ کو ساری زندگی علم نا ہو سکے کہ آپ کے بے ضرر جملے نے ایک انسان کی جان لے لی۔۔۔۔۔

یاد رکھیں آپ نے شائد اس لڑکی سے یہ مذاق اس سال میں پہلی بار کیا ہو لیکن اس لڑکی کے ساتھ مذاق کرنے والے آپ واحد نہیں ہوں گے، وہ ممکنہ طور پر اس دن دس الگ الگ افراد سے دس بار اسی طرز کے مذاق کا نشانہ بنی ہو۔۔۔۔
یاد رکھیں۔۔۔۔ باڈی شیمنگ سے کوئی سمارٹ نہیں ہوگا، آپ کسی کے جسمانی خطوط کا مذاق اڑا کر اسے صحت مندانہ عادات کی طرف مبذول نہیں کر سکتے، بلکہ ان رویوں سے موٹے افراد کے کھانے پینے کے معمولات غیر معمولی طور پر بگڑ جاتے ہیں، وہ یا بالکل کھانا پینا چھوڑ کر بیمار ہو جاتے ہیں یا ڈپریشن میں پہلے سے دگنا یا تین گنا کھانے لگتے ہیں، اور نتیجے میں مزید وزن بڑھا لیتے ہیں۔

یقین رکھیں کہ ہر انسان اپنی صحت کے لئے آپ سے زیادہ پریشان ہوتا ہے، وزن بڑھنا قطعا صحت مندانہ نہیں لیکن جن افراد کا وزن بڑھ چکا ان کو یہ احساس دلانا کہ وہ شائد دنیا کے بد صورت ترین فرد ہیں، جن کا ساتھ بھی کسی کے لئے مذاق کا باعث ہے تو مان جائیں کہ آپ میں لوگوں کو ان کی شکل و صورت اور ظاہر کو دیکھ کر جج کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے، جو خود آپ کے لئے ایک عیب ہے، ایک بیماری ہے، جس کے علاج کے لئے آپ کو بھی کسی نفسیات دان کی ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں 94 فیصد کم عمر لڑکیوں کو باڈی شیمنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خصوصا جب ان کو ان کے ہم عمر افراد حتی کہ خود سے بڑے افراد ان کا بے بی فیس دیکھ کر بھی صرف اور صرف زیادہ وزن کی وجہ سے "آنٹی” کہتے ہیں، حالانکہ آنٹی کہنے والے کو خود پتا ہوتا ہے کہ یہ بچی اس سے چھوٹی یا اس کے برابر ہے، اسی طرح 65 فیصد کم عمر لڑکوں کو بڑھے ہوئے وزن کی وجہ سے بیٹا یا اس کے نام سے پکارنے کی بجائے "بھائی صاحب” یا "موٹو” جیسے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے، جو آپ کے لیے لمحاتی ہنسی کا سامان ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ اس بچی یا بچے کی زندگی خطرے میں ڈال چکے ہوتے ہیں۔

دکھ، تکلیف، اذیت اور نا قابل برداشت حقیقت جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر فطری رویے میں سب سے زیادہ کردار "ماں” کا رہا ہے، باسٹھ فیصد مائیں اپنے بچوں کی جسمانی تذلیل کرنے کا باعث ہیں جب کہ اس معاملے میں باپ کا کردار تیس فیصد رہا ہے، یقینا ایک ماں سے زیادہ اپنے بچے کی صحت کا کسی کو احساس نہیں ہو سکتا لیکن یہ ماں ہی ہے جو اس احساس کو نا مناسب انداز میں پیش کر کے اپنے بچے کے لئے نفسیاتی مسئلہ بنا دیتی ہے، جس سے پھر وہ تمام عمر نکل نہیں پاتا۔

یاد رکھیں اس دنیا میں صرف ماڈل، فنکار اور اداکار نہیں پائے جاتے، اس دنیا میں کالے گورے، لمبے چھوٹے، خوش شکل بد شکل، سست بھی چست بھی، آوارہ بھی کھلاڑی بھی، ہر ہر طرح کے افراد موجود ہیں، دنیا کو ہالی ووڈ کی مووی سمجھنا چھوڑ دیں، جہاں آپ کے خیال میں سب لوگ ایک خاص باڈی شیپ کے حامل ہی ہونے چاہئیے، کیونکہ اگر آپ ایسا سوچیں گے تو آپ کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ اس ہالی ووڈ قسم کی دنیا میں آپ کا کردار ایک قابل نفرت ولن کا ہے۔

تو کیوں نا آج سے، ابھی سے اپنے بچوں کو اور اگلی نسل کو اپنی صورت میں ایک ولن دینے سے انکار کر دیں، کیوں نا اپنے بچے کو اور دوسروں کو صحت مندانہ زندگی کی طرف راغب ضرور کریں لیکن کسی خاص باڈی شیپ کا مذاق ارانے کی بجائے ہر قسم کی باڈی شیپ کو قبول کر لیں۔
اپنے آپ کو اپنے بچوں کو خالص وہی بننا سکھائیں جیسا تخلیق کیا گیا، مصنوعی طریقوں سے کسی قدرتی تخلیق کو بگاڑنے کے ساتھ کسی کے لئے تضحیک کرنے والا ولن نہ بنیں۔

دنیا ماڈلز ہی کے لئے نہیں بلکہ ہر جسمانی شکل کے حامل افراد کے لئے ہے، اس کو جتنا جلد قبول کر لیں یہ خود ہماری آنے والی نسل کے لئے بہتر ہوگا، کسی بیپ کو ہماری اگلی نسل کے لئے آخری بیپ بننے سے بچانا ہوگا۔۔۔۔۔۔
ثمینہ ریاض احمد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے