جھنڈے کا سفید رنگ

پاکستان اسلام کے نام پہ بنا اور بقول بانی پاکستان ہم نے کوئی زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں جہاں اسلامی اصول آزمائیں۔ اس بات کو ہم نے پلے باندھا اور ملک کو تجربہ گاہ سمجھ کر آج بھی نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ دستور اور آئین پہ تجربات کرکے ترامیم کیں، تعلیمی نظام پر اتنے تجربات کیے لیکن آج تک متفق نہ ہو سکے، آج تک تجربات کر رہے ہیں طرز حکومت کیا ہونا چاہیے ملک کا، اور تو اور اسلام پہ بھی کئ تجربات کرتے ہیں کئ مسلکوں میں تقسیم کیا اتنی تفریق کی، کتنوں کو نکالا، یہ اور بات کہ حاصل کچھ نہیں ہوا۔

ان تجربات میں بھی اپنا اصل مقصد پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا نہیں بھولے۔ سندھ باب الاسلام ہے برصغیر میں اسلام یہیں سے داخل ہوا لیکن عجیب بات ہے کہ وہیں سب سے زیادہ ہندو آبادی موجود ہے۔پھر وہاں کی ایک بزرگ ہستی جو سیاسی اثرورسوخ بھی رکھتی ہے نے بیڑا اٹھایا کہ راجہ داہر کی مذموم حرکت کا بدلہ لیتے رہنا چاہیے۔

وہاں کی ہندو آبادی جوق در جوق ان کی معیت میں حلقہ بگوش اسلام ہو رہی ہے۔ اس عظیم فریضہ کی انجام دہی میں کچھ مشقت کرنی بھی پڑے تو اسے اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں،نجانے لوگ اسے اغوا اور جبری نکاح کا نام کیوں دیتے ہیں۔ اب ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش عجیب و غریب سوال اٹھا کر قوم کو کنفیوژ کرتے ہیں کہ صرف کم سن ہندو لڑکیاں ہی اپنا مذہب چھوڑ کر صرف مسلمان لڑکوں سے ہی کیوں شادی کرنا چاہتی ہیں پختہ عمر افراد یا مرد حضرات کیوں نہیں۔بھئ ہمیں کیا پتہ اب وہ ہدایت پانا نہیں چاہتے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ کوئی صاحب حیثیت غیرمسلم لڑکی کیوں اپنا مذہب نہیں چھوڑتی (خیر سانوں کی)

اب گھوٹکی کی بہنوں کی ہنسی خوشی شوہروں کی مٹھائی کھلاتی اور ہنی مون کی تصاویر اس بات کی غماز ہیں اسلام کے نور سے کیسے نکھر گئ انکی زندگیاں، اب میڈیا کو انکے والد کی روتی بلکتی تھانے سے سامنے احتجاج کرتی ویڈیو دکھا کر ہمارا دل نہیں دہلانا چاہیے۔ نہ ہی دیگر جبری تبدیلی مذہب کے رپورٹ کیسوں کا ذکر بار بار کرنا چاہیے۔

کچھ بھٹکے ہوئے لوگ تو کہتے ہیں جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے اور قائداعظم نے کہا تھا ’آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ پر ریاستِ پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ میں جانے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ آپ کے مذہب یا قومیت سے ریاست کا کوئی تعلق نہیں۔“ بلکہ “لا اکراہ فی الدین” کہہ کر بھی شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اقلیتوں کو بھی تو چاہیے نا کہ ہم سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر بھی لیں ہمیں زبردستی نہ کرنی پڑے۔انھیں نہیں پتہ ہم تو اس نبی صلی اللہ ھو و علیہ وسلم کے امتی ہیں جو خود پہ کچرا پھنکنے والی مائی کی عیادت کرنے پہنچ گئے تھے۔ اب ضروری تو نہیں کہ ہم بھی نبی جیسے ہی اسوہ حسنہ کا مظاہرہ کریں۔

اپنے ملک میں بلاول ہندو برادری کے تہوار پہ انکی پوجا پاٹ میں اظہار یکجہتی کو پہنچے، نوازشریف ہولی مبارک کہہ دے، یا عمران خان ایک احمدی کو اپنا مشیر بنانے کا سوچے ہم سیخ پا ہو جاتے ہیں۔میری کرسمس کہنے سے تو ایمان ہی جاتا رہتا ہے لیکن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی نے ہمارا دل موہ لیا پتہ نہیں ہمیں ایسا درد دل رکھنے والے حکمران کب ملیں گے۔کب بنے گا نیا پاکستان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے