چیئرمین نیب سے ملاقات

میری چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے پہلی ملاقات 2006ء میں ہوئی تھی‘ یہ اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج تھے‘ میں جسٹس رانا بھگوان داس کے گھر جاتا رہتا تھا‘ یہ بھی وہاں آتے تھے اور یوں ان سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ بن گئے۔

مجھے ان دنوں اطلاع ملی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جسٹس جاوید اقبال کو 67 لاکھ روپے کا چیک بھجوایا لیکن جسٹس صاحب نے یہ لکھ کر یہ چیک واپس بھجوا دیا ’’ایبٹ آباد سانحے کی وجہ سے پورے ملک کا وقار خاک میں مل گیا‘ یہ میرے لیے قابل شرم ہے میں اس سانحے کی انکوائری کا معاوضہ لوں‘‘ میرے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا‘ یہ بعد ازاں 8 اکتوبر2017ء کو چیئرمین نیب بن گئے‘ میری ان 19ماہ میں ان سے کئی مرتبہ ملاقات طے ہوئی لیکن کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا تھا اور یوں میٹنگ نہیں ہو پاتی تھی مگر بالآخر منگل 14 مئی 2019ء کو میری ان سے ملاقات ہو گئی۔

میں نیب ہیڈ کوارٹر میں ان کے آفس پہنچا تو یہ حسب معمول مطمئن بھی تھے اور ہائی اسپرٹ میں بھی‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کی پرانی ذمے داریاں مشکل تھیں یا یہ جاب‘‘ جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا ’’یہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر طرف سے دباؤ آتا ہے لیکن الحمد للہ میں سب کچھ برداشت کر جاتا ہوں‘ میری تین بیٹیاں ہیں‘ یہ اللہ کے کرم سے اپنے گھروں میں آباد ہیں‘ بیگم صاحبہ کے گھٹنوں کا آپریشن ہو چکا ہے‘ یہ سارا دن لیٹ کر ٹی وی دیکھتی ہیں اور مجھے سپریم کورٹ سے اتنی رقم اور پنشن مل جاتی ہے۔

جس سے میرا شاندار گزارہ ہو جاتا ہے‘ میری عمر 73 سال ہو چکی ہے‘ میں نے مزید کتنا عرصہ زندہ رہنا ہے چنانچہ کوئی ایشو نہیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو کوئی تھریٹ ہے؟‘‘ فوراً جواب دیا ’’بے شمار ہیں‘ہماری ایجنسیوں نے چند ماہ قبل دو لوگوں کی کال ٹریس کی‘ ایک بااثر شخص دوسرے بااثر شخص سے کہہ رہا تھا جسٹس کو پانچ ارب روپے کی پیشکش کر دو‘ دوسرے نے جواب دیا یہ پیسے لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پہلے نے کہا پھر اسے ڈرا دو‘ دوسرے نے جواب دیا‘ ہم نے اسے کئی بار ڈرایا‘ ہم نے اس کی گاڑی کا پیچھا بھی کیا‘ بم مارنے کی دھمکی بھی دی لیکن یہ نہیں ڈر رہا‘ پہلے نے کہا‘ اوکے پھر اسے اڑا دو‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ کون لوگ تھے‘‘ جسٹس صاحب نے جواب دیا ’’یہ میں آپ کو چند ماہ بعد بتاؤں گا‘‘ میں نے اصرار کیا تو انھوں نے صرف اتنا بتایا ’’یہ لینڈ گریبرز اور سیاستدانوں کا مشترکہ منصوبہ تھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ کو پھر احتیاط کرنی چاہیے‘‘ جسٹس صاحب نے جواب دیا ’’میں نے احتیاط شروع کر دی لیکن احتیاط بے احتیاطی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی‘ حکومت نے مجھے منسٹر کالونی میں گھر دے دیا لیکن یہ گھر بحریہ ٹاؤن میں میری ذاتی رہائش گاہ سے زیادہ خطرناک بن گیا۔

میں نے ابھی وہاں صرف دو کمرے ٹھیک کیے تھے اور اپنی چند فائلیں وہاں رکھی تھیں‘ میں لاہور گیا ہوا تھا‘ میری غیر موجودگی میں کسی نے گھر کی پچھلی کھڑکی کا جنگلہ اتارا‘ اندر داخل ہوا‘ تلاشی لی اور فائلیں چوری کر کے غائب ہو گیا‘‘ وہ رکے‘ میں نے پوچھا ’’اور یہ واقعہ منسٹر کالونی میں پیش آیا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں منسٹر کالونی کے بنگلہ نمبر 29 میں اور یہ پاکستان کی محفوظ ترین جگہ ہے اور پولیس فنگر پرنٹس کے باوجود مجرم تک نہیں پہنچ سکی‘‘ یہ میرے لیے وارننگ تھی چنانچہ میں اب اس گھر میں نہیں رہ رہا‘ میں سیکیورٹی کی وجہ سے کبھی اپنی بہن کے گھر رہتا ہوں‘ کبھی بیٹی کے گھر چلا جاتا ہوں اور کبھی اپنے کسی عزیز کی رہائش گاہ پر‘ میں نے کون سی رات کس گھر میں گزارنی ہے میں کسی کو نہیں بتاتا‘ میں احتیاطاً اپنا اسٹاف بھی ساتھ لے جاتا ہوں تا کہ ہم لوگ زیادہ ہوں اور اکٹھے ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کو کس سے خطرہ ہے‘‘ وہ بولے ’’میں نہیں جانتا لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں اب سب کا ٹارگٹ ہوں۔

یہ تمام لوگ مجھے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا موجودہ حکومت بھی آپ کے ساتھ خوش نہیں‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ بھی مجھ سے خوش نہیں ہیں‘ یہ بھی چاہتے ہیں عمران خان کا ہیلی کاپٹر کیس بند ہو جائے‘ بابراعوان کا ریفرنس‘ علیم خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف تفتیش اور سب سے بڑھ کر پرویز خٹک کے خلاف مالم جبہ کی غیرقانونی لیز کی انکوائری رک جائے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت مجھے ویسے ہی اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہے‘ لینڈ گریبرز بھی میرے خلاف ہیں اور ریاستی ادارے بھی خوش نہیں ہیں‘ یہ سب مل کر اب دباؤ بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں چھوڑ رہے‘‘ میں نے پوچھا ’’مالم جبہ کا ریفرنس کب دائر ہو گا اور کیا پرویز خٹک بھی گرفتار ہوں گے‘‘۔

جسٹس جاوید اقبال نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا ’’یہ اب چند دن کی بات ہے‘ ریفرنس مکمل ہو چکا ہے‘ آپ بہت جلد پرویز خٹک کو بھی لاک اپ میں دیکھیں گے بس مجھے صرف ایک خطرہ ہے‘‘ وہ رکے اور ہنس کر بولے ’’میں صرف پرویز خٹک کی صحت سے ڈرتا ہوں‘ یہ اگر گرفتار ہو گئے اور انھیں اگر کچھ ہو گیا تو نیب مزید بدنام ہو جائے گا لیکن اس کے باوجود یہ ہو کر رہے گا‘ مالم جبہ کا ریفرنس تگڑا ہے‘ پرویز خٹک کو بھی اپنی کرپشن کا حساب دینا ہو گا‘‘۔

میں نے ان سے پوچھا ’’نیب نے صرف پنجاب کو فوکس کیوں کر رکھا ہے‘‘ وہ بولے ’’پنجاب بڑا صوبہ ہے‘ میاں برادران کسی نہ کسی شکل میں 30 سال پنجاب میں حکمران بھی رہے لہٰذا زیادہ تر میگا کیسز پنجاب میں ہوئے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہم نے دوسرے صوبوں کو چھوڑ دیا‘ بلوچستان کے تین سابق چیف منسٹرز (ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری) انکوائریاں اور ریفرنس بھگت رہے ہیں۔

نواب اسلم رئیسانی کو نیب نے بلایا تو انھوں نے کہا آپ جانتے نہیں ہیں میں اپنے قبیلے کا سردار ہوں‘ میں نے اپنے افسر کے ذریعے پیغام پہنچایا وفاقی حکومت نے آپ کو 99 کروڑ روپے دیئے تھے‘ آپ نے یہ رقم چند لوگوں میں تقسیم کر دی‘ آپ کا پہلا چیک آپ کے بھائی کے اکاؤنٹ میں گیا تھا‘ آپ گرفتاری سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ یہ رقم واپس کر دیں‘ نواب اسلم رئیسانی نے ہم سے تین ماہ کی مہلت مانگ لی‘ ہم نے دے دی‘ یہ اگر تین ماہ میں رقم واپس نہیں کرتے تو یہ بھی گرفتار ہوں گے‘ ہم نے سندھ میں بھی کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑا‘ سندھ میں حکومت اور بیورو کریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی‘ سپریم کورٹ نے حکم دیا اور آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے مقدمے راولپنڈی اور اسلام آباد شفٹ ہو گئے۔

یہ ضمانت پر ہیں‘ جس دن ضمانت منسوخ ہو گی یہ دونوں بھی گرفتار ہو جائیں گے‘ ریفرنس بہت پکے اور ٹھوس ہیں بس چند دن کی بات ہے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’آصف علی زرداری جس دن انکوائری کے لیے پیش ہوئے تھے ان کی ٹانگیں اور ہاتھ لرز رہے تھے‘ انھوں نے گرین ٹی کا کپ مانگا‘ ہمارے افسر نے پیش کر دیا‘ آصف علی زرداری نے کپ اٹھایا لیکن کپ ان کے ہاتھ میں لرز رہا تھا‘ وہ اپنا دوسرا ہاتھ کپ کے نیچے رکھنے پر مجبور ہو گئے‘ وہ بڑی مشکل سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ گرین ٹی کا کپ ختم کر پائے‘ شاید فریال تالپور کو خاتون ہونے کی وجہ سے رعایت مل جائے لیکن آصف علی زرداری نہیں بچ سکیں گے‘‘ وہ رکے اور بولے ’’میاں برادران کا ایشو بھی سیدھا اور سادا ہے۔

ہم نے میاں شہباز شریف کے داماد علی عمران کو بلا کر پوچھا صاف پانی کمپنی نے آپ کو 48 کروڑ روپے کی پے منٹ کیوں کی اور یہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کیوں ہوئی؟ ہم نے کاغذات بھی اس کے سامنے رکھ دیئے‘ وہ بولا میں نے صاف پانی کمپنی کو اپنا پلازہ کرائے پر دیا تھا‘ یہ کرائے کی رقم تھی‘ ہم نے ان کو گھر جانے دیا‘ میں رات کو ٹیکسی لے کر علی عمران کے پلازے پر چلا گیا‘ وہ پلازہ ابھی زیر تعمیر تھا‘ پانچ منزلوں کی چھتوں کے کنکریٹ کو پانی دیا جا رہا تھا‘ ہم نے اگلے دن علی عمران کو دوبارہ بلا لیا‘ ہم نے اس سے پوچھا‘ آپ کا پلازہ ابھی زیر تعمیر ہے‘ یہ تین سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکے گا لیکن آپ نے اس کا کرایہ وصول کر لیا‘ کیوں اور کیسے؟ علی عمران کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ وہ گھر گیا اور اگلے دن دبئی بھاگ گیا۔

ہم نے سلمان شہباز کو بلا کر پوچھا‘ آپ کو اربوں روپے باہر سے کیوں آتے رہے‘ وہ بولے مجھے چند دن دے دیں میں اپنی فیملی اور اسٹاف سے پوچھ کر جواب جمع کرا دوں گا‘ ہم نے وقت دے دیا اور وہ بھی لندن بھاگ گئے‘ ہمارے پاس حمزہ شہباز شریف کے خلاف بھی تمام ثبوت موجود ہیں‘ حمزہ شہبازکا سوال نامہ میں نے خود اپنے ہاتھ سے ڈرافٹ کیا تھا‘ میں سیشن جج سے سپریم کورٹ کا سینئر جج رہا ہوں‘ میں نے عدالتی بیک گراؤنڈ کو سامنے رکھ کر سوال نامہ تیار کیا‘ یہ عدالتی آڑ کے پیچھے چھپ رہے تھے لیکن بینچ تبدیل ہو چکا ہے بس ان کی ضمانت منسوخ ہونے کی دیر ہے اور یہ بھی اندر ہوں گے‘ یہ بھی اگر ملک سے بھاگ نہ گئے تو!‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کے بارے میں تاثر ہے آپ کی کلہاڑی صرف سویلین پر گرتی ہے‘‘ وہ تڑپ کر بولے ’’میں نے اپریل 2018ء میں جنرل جاوید اشرف کے خلاف رائل پام گالف کلب کا ریفرنس بنایا‘ کیا یہ سویلین ہیں‘ یہ آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی ہیں۔

میرے ساتھیوں نے مجھے روکا لیکن میں نے ان سے کہا‘ ہم اگر انھیں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا کیا قصور ہے! ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی ریٹائرڈ فوجی افسروں کے نام آئے‘ ہم نے ان کے خلاف بھی انکوائری شروع کرا دی‘ یہ بھی حوالات میں جائیں گے‘ ڈی ایچ اے سٹی میں میرے اپنے 43 لاکھ روپے پھنس گئے تھے‘ یہ لوگ چیک لے کر میرے پاس آ گئے‘ میں نے ان سے کہا‘ آپ یہ چیک مجھے نہیں چیئرمین نیب کو دے رہے ہیں‘ میں نے چیک واپس کر دیا اور ان سے کہا‘ آپ پہلے دوسرے 1385 لوگوں کو پیسے واپس کریں‘ مجھے آخر میں چیک دیجیے گا‘ کیا یہ بھی سویلین ہیں؟ آپ اگلی بار آئیں گے تو میں نان سویلین ریفرنسز کی فہرست آپ کے سامنے رکھ دوں گا‘ ملک میں سب کا احتساب ہو رہا ہے‘ ہم نے کسی پارٹی اور کسی محکمے کو رعایت نہیں دی‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو خریدنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے صدر پاکستان بنانے کی پیشکش تک ہوئی تھی‘‘ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے