دو نمبر معززین

بہت دفعہ اس سوال پہ غور کیا ہے لیکن تسلی بخش جواب ذہن میں نہیں آیا کہ قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کے لوگ جوتوں کی مرمت کہاں سے کراتے تھے، حجامت کس سے بنواتے تھے، گھوڑوں کے سم کس سے لگواتے تھے، زمین کن سے کاشت کرواتے تھے، گھریلو ملازم کہاں سے لاتے تھے اور ان کے دوسرے چھوٹے موٹے کام کون لوگ کرتے تھے؟

یہ سوال اس لئے ذہن کو بار بار پریشان کرتا ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے جو لوگ پاکستان آئے، ان میں سے کوئی کسی ریاست کا نواب تھا، کوئی سینکڑوں مربعوں کا مالک تھا، کوئی بہت بڑا بزنس مین تھا اور کسی کے آموں کے باغات تھے۔ مجھے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے بتایا ہو کہ ہندوستان میں وہ موچی کا کام کرتا تھا، کسی نے کہا ہو کہ وہ وہاں حجام تھا، کسی نے بتایا ہو کہ وہ گھریلو ملازم تھا یا کسی نے تسلیم کیا ہو کہ وہ وہاں گھوڑوں کے سم لگاتا تھا!

اسی طرح 1947کے بعد ہمارے ہاں اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں، کچھ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ان کا خاندان متحدہ ہندوستان کا جانا پہچانا خاندان تھا مگر 1947کے بعد تو یوں لگا جیسے پورا قبیلہ بنوہاشم سرزمینِ حجاز سے ہجرت کر کے کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور وغیرہ میں آباد ہو گیا ہے۔ اوپر سے کثرتِ اولاد نے کام دکھایا۔ مجھے تو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر ان عرب نژادوں کی آبادی میں اضافہ اسی رفتار سے ہوتا رہا تو مقامی آبادی عنقریب اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی!

قیام پاکستان سے پہلے کی بات تو چھوڑیں، میں تو قیام پاکستان کے بعد کے بھی بہت سے حیرت انگیز واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ مثلاً چند ماہ پیشتر ڈیفنس میں میری ملاقات ایک فیملی سے ہوئی، ایک میاں بیوی دو بچے، چاروں کے چاروں منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولتے تھے، ان سے میرا تعارف ایک مشترکہ دوست نے کرایا، جس پر میاں نے گرائمر کی آمیزش سے پاک انگریزی میں کہا ’’مجھے دراصل اردو بہت تھوڑی آتی ہے چنانچہ گھر میں انگریزی اخبار ہی آتا ہے، ویسے بھی اردو کے اخبارات میں ہوتا ہی کیا ہے‘‘۔ اس پر میرا دوست اخبار کے حوالے سے میرا تعارف کرانے پر خاصا شرمندہ ہوا۔ جب یہ فیملی رخصت ہوئی تو میں نے اپنا ایک شک دور کرنے کے لئے اپنے دوست سے پوچھا ’’یہ لوگ شروع ہی سے لاہور میں مقیم ہیں یا کہیں باہر سے آئے ہیں؟‘‘ دوست نے بتایا کہ ’’ان کے بزرگوں کا تعلق مشرقی پنجاب سے ہے۔ وہاں سے ہجرت کرکے 1947میں وزیرآباد میں آباد ہوئے تھے، ان کے والد خان بہادر مشرقی پنجاب میں بہت فیکٹریوں کے مالک تھے۔ وزیرآباد میں ان کا سب سے بڑا کٹلری کا کارخانہ تھا۔ یہ خاندانی رئیس ہیں اور اب برسہا برس سے لاہور میں رہ رہے ہیں‘‘۔ میرا شک درست نکلا تھا، یہ شخص جسے اردو نہیں آتی تھی مجھے لگتا تھا کہ میں نے اسے بچپن میں بہت دفعہ دیکھا ہوا ہے جب میرے دوست نے بتایا کہ یہ وزیرآباد کے ہیں تو مجھے سب کچھ یاد آگیا۔ ان کے والد ’’خان بہادر‘‘ نہیں، خان محمد تھے اور وزیرآباد کے کانواں والے محلے میں رہتے تھے۔ ان کا چاقوئوں چھریوں کا کارخانہ نہیں تھا بلکہ سائیکل پر پھیری لگا کر چھریاں چاقو تیز کرتے تھے، کٹلری کا یہ ’’کارخانہ‘‘ ان کے سائیکل پر فٹ ہوتا تھا اور ان کا یہ صاحبزادہ ہیلپر کے طور پر ’’خان بہادر صاحب کے ساتھ ہوتا تھا‘‘!

جب ہم لوگ پیٹ بھر کر کھانا شروع کردیتے ہیں، جب ہم اچھی نوکریوں پر فائز ہو جاتے ہیں، جب ہمیں زندگی کی وہ ساری سہولتیں میسر آجاتی ہیں، جن کا متحدہ ہندوستان میں ہماری غالب اکثریت تصور بھی نہیں کرسکتی تھی، جب ہمیں اپنی زبان بھول جاتی ہے اور ہم غیروں کی زبان میں گفتگو کرنے لگتے ہیں، جب ہم محنت کشوں، بے نوائوں، مظلوموں، غربت اور افلاس کے ستائے ہوئے پاکستانیوں سے دور اپنی شاداب بستیاں بسانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جب ہم ایک ایسے جزیرے میں رہنے لگتے ہیں جہاں کوئی مسئلہ نہیں، جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے تو ہم ہر دوسرے جملے کے بعد کہنے لگتے ہیں ’’پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟‘‘ یہ کیا کم ہے کہ پاکستان نے ’’خان محمد‘‘ کو ’’خان بہادر‘‘ بنادیا، پاکستان نے ہمیں خاندانی حسب نسب عطا کیا۔ خیر یہ تو کالمانہ چھیڑ چھاڑ تھی، امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے انہی دو نمبر لوگوں کو پاکستان کی ناشکری کرتے دیکھا ہے جو 1947کے بعد دو نمبر طریقے سے ’’معزز‘‘ اور ’’خاندانی رئیس‘‘ بنے ہیں، جنہوں نے اپنی ذات بدلی اور جنہوں نے اپنے خاندانی پس منظر میں ہیر پھیر کی ہے، ہو سکتا ہے یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہوں لیکن کروڑوں پاکستانی اپنے وطن سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ذات پات کی وجہ سے نہیں، اپنے کردار کی وجہ سے ہم سب کی نظروں میں معزز اور محترم ہیں۔ یہ1947سے پہلے بھی معزز اور محترم تھے آج بھی معزز و محترم ہیں، یہ ایک نمبر پاکستانی ہیں اور انہیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور ہمیں ان پر فخر ہے۔

آخر میں اپنی ایک غزل کے چند اشعار ؎

ہم نے ادا کیا صاحب

جو بھی ملنا تھا، مل گیا صاحب

آپ تو حالِ دل سے واقف ہیں

کیا کریں عرضِ مدعا صاحب

واپسی کا کوئی سوال نہیں

راستے ہو گئے خفا صاحب

چند آنسو ادھار دیتا ہو

کوئی ایسا سخی ملا صاحب

چند کلیوں سے سارے گلشن کو

اپنے دامن میں بھر لیا صاحب

مجھ کو تو غم کی مل گئی دولت

اور تم کو بھی کچھ ملا صاحب؟

آج کیا دن ہے اور کیا تاریخ

کوئی میرا اتا پتا صاحب

گرما سرما ہے یا خزاں کہ بہار

مجھ کو معلوم کیا بھلا صاحب

زخم تازہ ہے یا پرانا ہے؟

مجھ کو اس سے غرض ہے کیا صاحب

کیا محبت نہیں رہی مجھ سے

کوئی شکوہ نہ کچھ گلہ صاحب

تم تو خوش سے دکھائی دیتے ہو

وہ دلِ زار کیا ہوا صاحب

رات بھی دی ہوئی اسی کی تھی

صبح جس نے ہے کی عطاؔ صاحب

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے