الیکشن۔19، بھارت کا آئینی تشخص ختم؟

بلاشبہ فروری 1999میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لاہور میں امن مذاکرات کا آغاز وزیراعظم واجپائی کی مینارِ پاکستان پر حاضری سے ہونا، پوری دنیا خصوصاً پاکستانی قوم کو بہت واضح علامتی پیغام تھا کہ بھارت نے قیامِ پاکستان کی حقیقت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ 1947سے آنجہانی واجپائی کے دورہ لاہور تک پاکستان کا بحیثیت یہ شبہ یقین کی حد تک تھا کہ بھارت نے تقسیمِ ہند کے نتیجے میں قیامِ پاکستان کی حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ پسِ منظر میں پانچ عشروں کے پاک بھارت تعلقات کی مجموعی کیفیت میں پاکستانیوں کی یہ نفسیات منطقی تھی اور اس میں تبدیلی بھارت ہی لا سکتا تھا۔ گمان یہی ہے کہ وزیراعظم واجپائی نے پاکستان کے ایٹمی طاقت کے حامل ہونے کی تصدیق کے بعد اس کی شعوری کوشش کی وگرنہ کسی منتخب بھارتی وزیراعظم کی مینار پاکستان پر حاضری، بھارت کی عملی داخلی سیاست میں کوئی آسان نہ تھا۔ یہ مان لینا چاہئے کہ واجپائی کے دورئہ لاہور کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کے حل کی یہ پیش رفت، لاہور ڈیکلریشن کے ذریعے بالکل واضح تھی کہ اس دو طرفہ اعلان سے دونوں ملکوں کے درمیان 51سالہ تنازع کا اسٹیٹس کو اگر ٹوٹا نہیں تو چٹخا ضرور تھا۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان محدود تجارت پر اتفاق کرتے ہوئے ٹرک سروس کا آغاز اس کی واضح علامت ثابت ہوئی۔ اگر چہ ’’لاہور ڈیکلریشن‘‘ ہر دو جانب محدود درجے پر متنازع ضرور تھا لیکن عوام الناس کے حوالے سے اس کی بالعموم(ایٹ لارج) قبولیت ہر دو جانب واضح تھی۔ پاکستان میں اس سے شدید اختلاف فقط جماعت اسلامی نے ہی کیا تھا جبکہ بھارت کی سب سے انتہا پسند مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والا وزیراعظم لاہور ڈیکلریشن کا اصل آرکیٹیکٹ تھا جو مسئلہ کشمیر کے دونوں ملکوں کے روایتی بے لچک موقف سے ہٹ کر ایک ’’بتدریج اور درمیانے راستے سے حل‘‘ کے روڈ میپ کی واضح نشاندہی کر رہا تھا جس سے بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم نواز شریف نے مکمل اتفاق کیا۔ چونکہ پاکستان میں ملکی سلامتی کے آئینی ذمہ داران مسئلہ کشمیر ملکی سلامتی و استحکام اور تقسیم ہند کے مکمل ایجنڈے کے تناظر میں بجا طور پر دیکھتے ہیں، اس لئے ’’لاہور ڈیکلریشن‘‘ کے لئے انہیں اعتماد میں نہ لینے سے (اور نہ ہی پارلیمنٹ کو) اعلان لاہور پر پاکستان میں ایک اہم اختلافی صورت پیدا ہو گئی، سو تیسرے ’’متفقہ موقف اور بتدریج حل‘‘ کی بیل منڈھے چڑھنے میں ابتداء میں ہی رکاوٹیں پیدا ہو گئیں، یہ اندازہ اس وقت بالکل نہ لگایا جا سکتا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی آنے والے سالوں میں اپنی تاسیسی اصلیت کے مطابق ایک انتہا پسند وزیراعظم کی قیادت میں غالب حکمران جماعت ہو گی اور آنے والے کسی انتخاب میں اپنے اقتدار میں بنیاد پرستی کا رنگ دکھانے کے باوجود واضح مینڈیٹ سے حکومت بنانے کے قابل ہو گی اور نریندر مودی جیسا ہندو بنیاد پرست دوسری مرتبہ بھی وزیراعظم بنے گا۔ قطع نظر اس بحث کے کہ کارگل ملٹری آپریشن کے لئے وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا نہیں، اس رائے سے بھی اختلاف کی گنجائش ہے کہ یہ آپریشن، آپریشن سے زیادہ مہم جوئی تھا۔ مودی جی مکمل بنیاد پرستانہ سوچ کے ساتھ اِس مرض (پاکستان پر حتمی عسکری بالادستی کا ثبوت دینے) میں مبتلا ہی نہیں ہوئے بلکہ ایٹمی جنگ کا انتہائی خطرہ مول لے کر انہوں نے بے حد غیر ذمہ داری سے مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو نظرانداز کر کے اس کا الزام پاکستان پر تھوپ کر انتہائی غیر ذمہ داری سے بالاکوٹ پر جو ناکام ترین سرجیکل اسٹرائیک کی اور اس کا جزوی جواب دیتے ہوئے پاکستان کی اسمارٹ فضائیہ نے جس طرح بھارتی فضائیہ کے حملوں کو منہ توڑ جواب دے کر روکا اور حساس علاقوں میں جا کر بھارت پر اپنی عسکری برتری کا جو پیغام دیا، اس نے بھارت کے دوسرے 5ایٹمی تجربات پوکھرانII(آپریشن شکتی) کے جواب میں پاکستان کے پہلے ہی 6ایٹمی تجربات نے چاغی کے چٹانی پہاڑوں کا رنگ ہی نہیں بدلا بلکہ اُس سے بھارتی پارلیمان میں ہوتی ہندو بنیاد پرستی کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا، پھر پوری حکومت اور قوم پر واجپائی کی ’’امن پسندی‘‘ غالب آنے لگی۔ وہ بس میں پاکستان داخل ہوئے، مینار پاکستان پر گئے اور ’’اعلان لاہور‘‘ کر دیا۔ پوسٹ پکھران2 جو کچھ ہوا اور پوسٹ کارگل جس طرح پھر مشرف اور واجپائی امن مذاکرات کی طرف آئے اور مری مذاکرات تک پہنچے، پھر مودی صاحب کے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا شوق پورا کرنے کا جو نتیجہ انہوں نے انتخابی مہم میں بھگتا، اس میں ان کی جنگی جنونی مہم نے بھارت کو ان کے اقتدار کی قیمت پر ہندو بنیاد پرستی میں ہی نہیں رنگ دیا، اقتصادی کسمپرسی میں بھی بھارت کے مقابل پاکستان کی اعلیٰ عسکری صلاحیت دنیا پر آشکار کر دی۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ مودی کے کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ دور نے پورے مقبوضہ کشمیر میں کھلے عام پاکستانی پرچم لہرا دیئے اور پوری دنیا پر کھل کر واضح ہو گیا کہ مقبوضہ کشمیر کسی بھی طرح بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ کشمیریوں کی بیش بہا قربانیاں اور ان کی بے قابو تحریک آزادی کو اب مزید دبایا گیا تو پلوامہ پیدا ہوں گے جو پورے خطے کو بڑے خطرے سے دوچار کر کے اس میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔ بھارت نہ پاکستان، مرضی کی جنگ کر کے اپنا کوئی مقصد بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ سو، ایک سو فیصد بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیا میں استحکام پیدا ہو ہی نہیں سکتا تاوقتیکہ بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات بشمول کشمیر، سیاچین اور دریائی پانی کے، پرامن مذاکرات سے حل نہ کریں۔

جہاں تک بھارتی انتخاب میں بھارتی قوم کے خود اپنے آئینی تشخص ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کو ٹھکانے لگانے کا تعلق ہے یہ ان کا داخلی معاملہ ہے ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب کچھ سامنے آنے کے بعد نریندر مودی باجپھا کے اتنی مقبول حکومتی پارٹی بننے کے بعد، آنجہانی واجپائی کی حقیقت پسندی اختیار کرتے ہیں یا وہ بھارت کو اس کے تمام تر پوٹینشل اور اپنی تمام تر سیاسی کامیابی کے باوجود خود بھارت سمیت پورے خطے کو عذابِ مسلسل میں مبتلا رکھتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے