دلّی میں ’’عام آدمی پارٹی ‘‘کا صفایا

بی جے پی نے اپنا پچھلا ریکارڈ توڑ دیا ‘لیکن دلّی اسمبلی الیکشن میں95فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے بی جے پی کو دریا برد کرنے والی عام آدمی پارٹی کا جو حشر ہوا‘ وہ عبرت کا مقام ہے۔ایک زمانے میں وزیراعظم نریندر مودی کو چیلنج کرنے والے اروند کجریوال کو دلّی کے اندر اپنی شکست کا احساس پہلے سے ہو گیا تھا‘ اسی لئے پیش بندی کے طور پر اس نے مسلمانوں پر ٹھیکرا پھوڑنے کا منصوبہ بنایا۔ پنجاب کے اندر انتخابی مہم کے دوران کجریوال نے اعتراف کیا کہ آخری وقت پر ‘عام آدمی پارٹی کا مسلم ووٹ کانگرس کو شفٹ ہو گیا۔ انہو ں نے کہا کہ الیکشن کے 48گھنٹے پہلے ہمیں لگ رہا تھا کہ ساتوں سیٹو ں پر عام آدمی پارٹی کامیابی حاصل کر لے گی‘ لیکن آخری وقت میں‘ یعنی پولنگ والے دن ‘سارے کا سارا ووٹ کانگرس کو مل گیا۔اس سے قطع نظر کہ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ وزیراعلیٰ اروند کجریوال میں؛ اگر تھوڑی سی بھی دور اندیشی ہوتی تو اس طرح کی بات نہ کہتے۔ وہ بھول گئے کہ آٹھ ماہ بعد انہیں اسمبلی کا انتخاب لڑنا ہے۔ اپنی کوتاہ اندیشی سے وزریر اعلیٰ نے دلّی کی تیرہ فیصد مسلم آبادی کو اپنے سے مزید دور کر دیا۔ اروند کجریوال اگر زمینی سطح کی سن گن رکھنے والے لوگوں سے رابطے میں رہتے تو انہیں یہ نہیں کہنا پڑتا کہ یہ سب الیکشن سے ایک دن پہلے ہوا۔ انہیں اب تک پتا چل چکا ہوتا کہ ایسا کیوں ہوا؟
اوکھلا اور اس کے قرب و جوار میں واقع مسلم علاقے میں کانگرسی امیدوار‘ اروند سنگھ لولی اپنی مسلم دشمنی کے لئے مشہور ہیں۔اپریل2017ء میں دلّی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب سے قبل انہوں نے کانگرس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی‘ مگر دس ماہ بعد لوٹ آئے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے یہ سوچا کہ عام آدمی پارٹی ایک علاقائی جماعت ہے اور وہ قومی سطح پر کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتی۔اس لئے پارلیمانی الیکشن میں کانگرس کی حمایت کرنی چاہیے۔ یہ سیاسی اعتبار سے ایک پختگی کی علامت تھی اور اصولی فیصلہ تھا۔ مسلمان کسی ایک جماعت کے ”پیروکار‘‘ نہیں کہ اسمبلی میں جس پارٹی کو ووٹ دیا‘ کارپوریشن میں ووٹ دیا‘ تو پارلیمانی انتخابات میں بھی اسی جماعت کو ہی ووٹ دیں گے۔ مسلمانوں میں ایسے دانشور بھی ہیں ‘جن کے دلوں میں اروند کجریوال کے بارے میں شکو ک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے خود یہ کہہ کر اس پر مہر ثبت کر دی ہے کہ مودی اور امیت شاہ کو نفی کر کے‘ اگر کوئی بھی جماعت اگر دلّی کو خود مختار صوبہ بنانے کا وعدہ کرے تووہ اس کی حمایت کریں گے۔ کجریوال جیسے تعلیم یافتہ سیاست دان کو معلوم ہونا چاہیے کہ بی جے پی کو فسطائیت کا منبع و مرجع مودی یا شاہ نہیں‘ آر ایس ایس ہے اور زعفرانی جماعت کا ہر وزیراعظم خاکی نیکر والا ہی ہو گا۔ کجریوال کے اس بیان نے مسلمانوں کے دل سے احساس جرم ختم کر دیا ‘جو جھاڑو کی بجائے ہاتھ پر مہر لگا کر خلجان محسوس کر رہے تھے۔
بھارت کے مسلمان من حیث القوم انتخابات کے دوران اصولوں کی بنیاد پر اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اس نفسیات میں اروند کجریوال کے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ آئندہ اسمبلی الیکشن میں اگر عام آدمی پارٹی کا امیدوار بی جے پی کو ہرانے کی پوزیشن میں ہوگا‘ تو مسلمان اس کو کامیاب کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ اتفاق سے مسلم علاقوں میں عام آدمی پارٹی کے مسلمان کونسلرز ہیں۔ ان لوگوں نے اگر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم رائے دہندگان کی فلاح و بہبود کے کام کر کے ان کا اعتما د حاصل کر لیاتو مسلما ن عام آدمی پارٹی کا جھاڑو تھام سکتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف بھارت کی دیگر قومیں کس طرح خالص مفاد پرستی کے تحت اپنی وفاداری تبدیل کرتی ہیں‘ اس کی ایک انتہائی دلچسپ مثال گزشتہ دنوں پنجاب میں سامنے آئی‘ جہاں کجریوال نے اپنا مذکورہ انٹرویو دیا۔ پنجاب کے اندر فیروزپور کو اکالی دل کا گڑھ مانا جاتا ہے‘ کیونکہ گزشتہ پچیس برس سے وہ اس حلقہ انتخاب میں کامیابی حاصل کررہے ہیں۔ اس حلقہ انتخاب میں انہوں نے ایک ضیافت کا اہتمام کیا‘ جس میں پکوڑوں کا بندوبست کیا گیا‘ لیکن وہ کم پڑ گئے۔ اب کیا تھا؛ پہلے تو پکوڑوں کی خاطر لوٹ مار ہو گئی۔ محرومین پکوڑا نے پہلے تو اپنی پارٹی کے خلاف نعرے لگائے اور پھر اکالی دل نے توڑ پھوڑ مچائی اور اس کے بعد کانگرس میں شمولیت اختیار کر لی۔
جس ملک میں پکوڑے وفاداری بدلوا دیتے ہوں‘ وہاں مسلمانوں کا اصولی موقف قابل تعریف ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت کا اندازہ اس کے ارکان کی تعداد کی بجائے اس کے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بلا شک و شبہ بھارت میں سب سے زیادہ مضبوط قوم مسلمان ہی ہے ‘کیونکہ وہ اپنے دشمن کو خوب پہچانتے ہیں اور اس کو شکست فاش دینے کی جدو جہد میں نہ ڈرتے ہیں۔ نہ جھکتے ہیں اور نہ ہی بکتے ہیں۔ اروند کجریوال ایک طرف تو بی جے پی کی جانب پینگیں بڑھاتے ہیںاور دوسری طرف ٹوئیٹر پر یہ اعلان بھی کر دیتے ہیں کہ بی جے پی والے مجھے کیوں مروانا چاہتے ہیں؟ میرا قصور کیا ہے؟ میں بھارت کے عوام کے لئے سکول اور ہسپتال ہی تو بنوا رہا ہوں۔ پہلی بار ملک میں سکول اور ہسپتال کی مثبت سیاست شروع ہوئی ہے۔ بی جے پی اس سوچ کو ختم کرنا چاہ رہی ہے‘ لیکن میں آخری سانس تک اپنے ملک کے لئے کام کرتا رہوں گا۔ اس سے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ اندرا گاندھی کی طرح مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ یہ پرانا حربہ ہے‘ جب بھی کسی کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے‘ وہ اپنی جان کے خطرے کا راگ الاپنے لگتا ہے ‘لیکن انہیںانتخاب جیتنے کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کجریوال؛ اگر وہ سب کچھ نہیں کریں گے ‘تو ان کے لئے آئندہ اسمبلی الیکشن میں اپنا قلعہ یعنی دلّی بچانا مشکل ہو جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے