حکومت کی معاشی غلطیاں

رواں مالی سال، جولائی 2018سے لے کر جون 2019تک، ہماری معیشت کا بدترین سال ثابت ہوا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہماری اقتصادی حالت اتنی تیزی سے کیسے خراب ہوئی اور عوام مایوسی کا شکار کیوں ہوئے؟ حالانکہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو معیشت بہت اچھی حالت میں تھی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ضرور بڑھ رہا تھا اور اسے اگلے دو سے تین سال کے دوران کنٹرول کیا جانا تھا۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نےچار اہم غلطیاں کیں، جن کی وجہ سے ہماری قومی آمدنی میں(ڈالروں میں) دس فیصدکمی ہوئی۔ پہلی غلطی یہ کی کہ موجودہ قیادت جہاں گئی، پاکستانی معیشت کی برائیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ رات دن جاری اس بیانیے نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کردیا اور پھر سادگی کی دعویدار حکومت اپنے اخراجات کے لئے قرض لینے لگی۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8فیصد سے گر کر یک لخت 3فیصد کے قریب آگئی۔ سرمایہ کاری اور ملازمت کے نئے مواقع رک گئے اور نہایت کامیابی سے صارف کا اعتماد تباہ کر دیا گیا۔

دوسری غلطی آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا جلدی فیصلہ نہ کرنا اور ملک کے اندر سے معاشی مسائل کا حل تلاش نہ کرنا تھا۔ بجلی اور گیس کے بلوں اور سود کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا گیا۔ روپے کی قدر میں یک لخت بہت زیادہ کمی کردی گئی چونکہ حکومت پہلے ہی بزنس سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرچکی تھی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے نے رہی سہی کسر نکال دی۔ موجودہ سال کے دوران صنعتی سرگرمیاں مفلوج دکھائی دیتی ہیں۔ اسکی وجہ سے نہ صرف محصولات جمع کرنا بلکہ درآمدات کے متبادل تلاش کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ کرنسی کی قدر میں کمی کے باوجود حکومت برآمدات میں اضافہ نہ کر سکی چونکہ پاکستانی برآمدات کا چالیس فیصد پانچ مخصوص شعبوں سے باہر ہے اور ان کی لاگت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے، اس لئے برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف شرح نمو میں نصف کمی ہو گئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگیا تو دو سری طرف ہمیں بلند کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی حکمتِ عملی کتنی ’’کامیاب‘‘ رہی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ہمارا معاشی حجم 313بلین ڈالر سے کم ہو کر 280بلین ڈالر تک آگیا لیکن ہماری درآمدات پانچ بلین ڈالر ماہانہ سے برائے نام کم ہوکر 4.6بلین ڈالر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کے مقابلے میں ہماری درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بڑھ گیاہے۔

عوام حکومت سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہی پالیسی ہے کہ ایک فیصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لئے اس نے پاکستان کی آمدنی دس فیصد کم کردی ہے؟ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ جس دوران ہم اس مبہم معاشی پالیسی پر گامزن تھے، ہم اپنے دوستوں خاص طور پر چین(اور ڈالر کے ذخائر) سے امداد کا آپشن ختم کرچکے تھے چنانچہ جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تو ہمارے پاس اُن کی سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

تیسری غلطی بجٹ کا خوفناک خسارہ ہے۔ وہ بجٹ جو رواں سال حکومت پیش کرنے جارہی ہے اس کی معاشی ٹیم شاید اپنی بیان بازی پر ہی یقین کر بیٹھی تھی کہ حکومت کرنا بہت آسان ہے، اقتدار سنبھالتے ہی سونے کی دیگ نکل آئے گی، وارے نیارے ہوجائیں گے لیکن کنٹینر پر کھڑے ہو کر تقریریں کرنا حکومت چلانے سے کہیں آسان تھا۔ ایک مرتبہ جب آپ حکومت سنبھالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ذمہ داریاں بہت ہیں اور وسائل بہت کم۔ ملک چلانا تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ حکومت کو توازن برقرار رکھنے کی ضرورت سمجھ میں ہی نہیں آئی۔ اس لئے رواں سال ہم بجٹ کا ریکارڈ خسارہ(جی ڈی پی کا 7.5فیصد) دیکھیں گے۔ بجٹ سرپلس کا مطلب ہے کہ حکومت بچت کررہی ہے۔ موجودہ حکومت اُس سے کہیں زیادہ خرچ کررہی ہے جتنے محصولات جمع کر سکتی ہے(ریکارڈ کے لئے بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا پہلا بجٹ بھی بمشکل سرپلس تھا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے یہ بہانہ نہیں بنایا تھا کہ نوآبادیاتی دور کی بدانتظامی کی وجہ سے یہ خسارہ تھا)۔ دوسری طرف اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بچت کم کررہی ہے یا ادھار لے رہی ہے۔ اگر حکومت ادھار لے رہی ہے تو کسی نہ کسی کو رقم ادھار دینا ہوگی۔ یہ رقم نجی بچتوں سےلی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں چونکہ نجی بچتیں نجی سرمایہ کاری سے بہت کم ہیں اور پھر نجی شعبے کو بھی ادھار لینا پڑتا ہے، اس لئے حکومت کو غیر ملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہم بیرونی ممالک سے زیادہ چیزیں خریدتے اور کم بیچتے ہیں۔ چونکہ درآمدات کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے، اس لئے درآمدات کے لئے ہم بیرونی ممالک سے رقم لے کر ادائیگی کرتے ہیں۔

آسان الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ بجٹ کا خسارہ اور تجارتی خسارہ باہم مربوط ہیں اور بجٹ خسارے کی وجہ سے تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔ تجارتی خسار ے کو حد میں رکھنا اور اس دوران بہت بڑا بجٹ خسارہ پیش کرنا اقتصادی معقولیت کے منافی ہے۔ یہ دونوں پالیساں باہم متصادم ہیں۔ کوئی حکومت بھی بجٹ خسارے کو بڑھا کر کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم نہیں کرسکتی۔ اس دوران روپے کی قدر میں کمی اور سود کے نرخوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ اس کی چوتھی غلطی جس کا شاید ازالہ ہوجائے لیکن اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی، وہ نوٹ چھاپ کر کام چلانا ہے۔ حکومت جتنے زیادہ نوٹ چھاپے گی اس کی قدر کم ہوتی جائے گی۔ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے اور غریب افراد غریب تر ہو جاتے ہیں۔ ان غلطیوں کے ساتھ ہم ایک اور مالی سال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دعا اور امید ہی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ سال مشکلات میں موجودہ سال کی نسبت کچھ کمی آئے گی۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے