وادی گریز(منی مرگ، قمری،کلشئی) مواصلاتی سہولیات کی محرومی سے فراہمی تک

منقسم وادی گریز

ریاست جموں و کشمیر کی حسین وادی گریز (مقامی زبان میں ۔ گورائی )انتظامی طور پراس وقت تین حصوں میں تقسیم ہے ۔

(1)وادی گریز(مقبوضہ کشمیر ۔ ضلع پانڈی پورہ )

(2)وادی گریز (آزاد کشمیر۔ ضلع وادی نیلم )

(3)وادی گریز (گلگت بلتستان ۔ ضلع استور )

ریاست جموں و کشمیر کا سنگم

گلگت بلتستان کے ضلع استور کے کنٹرول لائن پر واقع وادی گریز (منی مرگ ۔ قمری ۔ کلشئی )منقسم ریاست جموں و کشمیر کے سنگم پر واقع ہے ۔ غالباًمنقسم ریاست جموں و کشمیر کا واحد علاقہ ہے جہاں ریاست کے تینوں منقسم حصے ملتے ہیں اور ملاپ کے چھ درے ہیں ۔

(1)درہ برزل ۔ جہاں سے بلتستان کے صدر مقام اسکردو اور ضلع استور کے صدر مقام تک کا راستہ ہے [پکی سڑک] ۔

(2)درہ قمری ۔ یہاں سے ضلع استور کے ضلع بالا اور دیگر علاقوں سے صدر مقام استور تک کا راستہ ہے [کچی سڑک]۔

(3)درہ قمری دودگئی۔ یہاں سے وادی نیلم آزاد کشمیر تک جانے کے دو رستے ہیں ۔ [پیدل یا گھوڑے ]۔

(4)درہ دودگئی سنڈیال ۔یہاں سے مقبوضہ کشمیرسرینگر تک جانے کا تاریخی راستہ (پرانا سلک روٹ)ہے ، سڑک ہے مگر 1947ء کے بعد یہ راستہ مکمل بندہے۔

(5)درہ کلشئی ٹیٹول ، یہاں سے مقبوضہ کشمیر وادی گریز تک جانے کے دو راستے ہیں ۔[پیدل یا گھوڑے ]۔

(6)درہ دومیل ۔ یہ راستہ پہاڑی اور کافی مشکل ہے اور یہاں سے ایک جانب بلتستان اور دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی جانب تنگ و مشکل راستے ہیں۔

وادی قمری ۔ منی مرگ ۔کلشئی

وادی گریز (قمری۔ منی مرگ۔ کلشئی )کا حصہ بنیادی طور پر دو الگ الگ وادیاں ہیں ۔ایک وادی قمری اورمنی مرگ ہے ،جو دودگئی سے دومیل تک ہے ، جس کی لمبائی تقریباً 30 کلومیٹر اور چوڑائی 2 سے 6 کلومیٹر ہے ، جہاں 27 چھوٹے بڑے گائوں ہیں ۔

دوسری وادی کلشئی ہے جو تین چھوٹی چھوٹی وادیوں پر مشتمل ہے ، ایک اندازے کے مطابق اس وادی کی لمبائی 8 سے 10 کلومیٹر اور چوڑائی 2 سے 4 کلومیٹر ہے، جہاں 5 گائوں ہیں۔تینوں وادیوں کا صدر مقام منی مرگ اور ذیلی صدر مقام قمری ہے ، یہ تینوں وادیاں قدرت کا حسین شاہکار ہے۔ تینوں وادیوں کی آبادی تقریباً 10ہزار کے قریب ہے اور ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہے۔

مواصلات کا انقلاب ، وادی گریز محروم

گزشتہ تین دہائیوں بالخصوص دو دہائیوں سے پوری دنیا میں مواصلات کا انقلاب آیا اور عملاً دینا ایک گائوں کی شکل اختیار کرگئی ہے۔پاکستان کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں موبائل سروس ہے اورمگر گلگت بلتستان کے ضلع استور کے یہ دور دراز علاقے کا بیشتر حصہ 9 جون 2019 تک نہ صرف موبائل فون بلکہ لینڈ لائن فون کی سہولت سے بھی محروم رہا، محرومی کی وجہ ایک الگ داستان ہے۔

2005 کے بعد موبائل سروس کی فراہمی کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی اور لوگوں کو ضروری رابطے کے لئے 80 سے 100کلومیٹر دور ضلعی ہیڈ کوارٹر استور تک جانا ہوتا، تاہم 7 سال کی محنت کے بعد 2012 میں وادی گریز (قمری ،منی مرگ ، کلشئی) کے صدر مقام منی مرگ میں یہ سہولت فراہم کی گئی جو صرف 3 گائوں تک محدود رہی اور باقی عوام کو ایک کال کرنے یاسننے کے لئے 2 سے 17 کلومیٹر تک سفر کرنا ہوتا اور وہ بھی پیدل یا گھوڑوں پر۔ دسمبر سے اپریل کے آخرتک یہ سفر اس لئے بھی خطرناک ہوتا ہے کہ 3سے 9 فٹ تک برف ہوتی ہے اور اس میں برفانی طوفان، برفانی تودے یا زمینی تودے کا شکار ہونے کا زیادہ اندیشہ ہوتاہے ۔

لوگوں کی15 سالہ محنت

وادی کے باقی 80 فیصد حصے میں موبائل سروس کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ گزشتہ 15 سال میں شاید ہی کوئی ایسا وفد یا فورم ہو جس میں مقامی عوام اور نمائندوں نے اس کے حق میں آواز نہ اٹھائی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ اس علاقے کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کے کچھ یا زیادہ افراد علاقے سے باہر مختلف شہروں میں مستقل یا عارضی آباد نہ ہو ں۔ یہ بھی کہ مختلف گائوں کے درمیان باہمی رابطہ بھی بہت مشکل تھا، اس جدید دور میں بھی ٹیلی فون کی سہولت کی عدم فراہمی یقیناً مایوسی کا باعث تھی ۔

پیپلزپارٹی کے دور میں سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کی حکومت کے دور میں ان سے ہم نے خود بھی بات کی اور کئی مضامین لکھے ، سچ یہ ہے کہ سید مہدی شاہ صاحب کے بس کا یہ کام تھا اور نہ ہی ان کی دلچسپی تھی ، تاہم مقامی منتخب رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی عبدالحمید خان اور رکن ضلع کونسل محمد حسین شہزاد ایڈوکیٹ نے بھی کوشش مگر کامیابی نہ مل سکی ۔

جون 2015 میں جب مسلم لیگ (ن) کے حافظ حفیظ الرحمان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان منتخب ہوئے تو ان کے سامنے بھی عوام کا یہی درینہ مطالبہ تھا ، ہم نے بھی ذاتی طور پر بھی اور مضامین کے ذریعے الحمد للہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔ قومی سلامتی کے ادارے بھی اپنے طور پر کوشاں تھے ۔ مقامی رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور صوبائی رانا فرمان علی کے سر پر مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان کے رہنماء اور وادی گریز قمری منی مرگ کی سیاسی شخصیت اور سابق رکن ضلع کونسل و یوسی چئیرمین عبدالرحمان ثاقب ہروقت سوار رہتے ۔ جہاں سے بھی ذرا امید ہوتی عبدالرحمان ثاقب مطالبہ لیے حاضر ہوتے اور باقی متعلقہ افراد نے بھی اپنے طور پر کوشش کی اور 9 جون 2019 کو الحمد للہ، اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او)نے اپنی موبائل سروس کا آغاز کردیا ہے ، یہ ادارہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مواصلات کی سہولت کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے ۔ سروس کے آغاز کے بعد وادی گریز (قمری، منی مرگ، کلشئی ) کے 80 عوام مستفید ہونگے ، تاہم کچھ گائوں کے مشکلات ہونگی ،بالخصوص کلشئی کے علاقے میں ، اس ضمن میں بھی فوری حل تلاش کرنا ضروری ہے۔

کامیابی کا کریڈٹ

یہ کہاوت مشہور ہے کہ ناکامی کا کوئی باپ نہیں اور کامیابی کے 100 باپ ہوتے ہیں ۔ ایسا ہی یہاں بھی ممکن ہے۔ اس کامیابی کے کریڈٹ کے اصل حق دار مقامی عوام ہیں ،جنہوں نے ایک طویل جدوجہد کی ، ہر فرد نے اپنے طور پر حق ادا کردیا ، تاہم اس موقع پر قومی سلامتی کے اداروں کے ہر سطحہ کے حکام ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان ، فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود ،صوبائی وزیر رانا فرمان علی ، لیگی رہنماء عبدالرحمان ثاقب ، سیکٹر کمانڈر ،سوشل میڈیا میں سرگرم مقامی افراد، مقامی سیاسی و سماجی رہنماء ،گریز یوتھ موومنٹ اور دیگر تمام متعلقہ افراد کو کریڈٹ نہ دینا بد دیانتی ہوگی ۔ مقامی عوام سے درخواست ہے کہ اس کامیابی کے بعد اب اگلی منزل قانون ساز اسمبلی کی نشست اور دیگر ایشوز پر توجہ مرکوز کریں ۔

مبارک باد
اس تاریخی کامیابی پر تمام حکام ، نمائدے اور مقامی عوام مبارک کے مستحق ہیں۔ جس جس نے مثبت کردار اداکیا عوام سب کے ممنون ہیں۔ کسی نے منفی کردار اداکیا ہے تو عوام اس خوشی کے موقع پر معاف کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے