ایوب آمریت نے مُلک کو غلط رُخ پر ڈالا

یوں تو ہر صحافی کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف چیلنجز اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جیونیوزکے 53سالہ اینکر پرسن، صحافی اور کالم نگار، حامد میر کی تو پوری پیشہ ورانہ زندگی ہی چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے گزر رہی ہے۔

افغانستان کے غاروں میں اُسامہ بن لادن کا انٹرویو ہو یا نیوزی لینڈ میں نیلسن منڈیلا سے خصوصی ملاقات، بیروت میں بم باری کے درمیان رپورٹنگ ہو یا غزہ میں اسرائیلی ٹینکس کی گولا باری کی کوریج، اُنہوں نے جان پر کھیل کر ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھا۔ کئی بار موت اُنہیں چُھو کر گزری، صرف یہی نہیں اور بھی کئی حوالوں سے وہ میڈیا میں بحث، مباحثے کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن کا ایک تقریب کے سلسلے میں لاہور آنا ہوا، تو اُن سے ذاتی و خاندانی حالات، صحافتی سفر، اچیومنٹس، مشکلات اور مُلکی سیاسی و سماجی معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س: میر صاحب یہ تو علم ہے کہ آپ پکّے لاہوری ہیں، مگر پھر بھی اپنے اور خاندان کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: مَیں لاہور میں 23جولائی1966ء کو پیدا ہوا۔ اُس وقت میرے والد، پروفیسر وارث میر مسلم ٹائون میں مولانا عبدالمجید سالک( مرحوم) کے گھر کے ایک پوریشن میں بہ طور کرائے دار مقیم تھے۔ میری پوری تعلیم لاہور ہی میں مکمل ہوئی۔ پنجاب یونی ورسٹی لیبارٹری اسکول نیوکیمپس سے مڈل، سینٹرل ماڈل اسکول، لوئر مال سے میٹرک، سائنس کالج وحدت روڈ سے انٹر، گورنمنٹ کالج(اب یونی ورسٹی) سے بی اے اور پنجاب یونی ورسٹی سے ابلاغیات میں ایم اے کیا۔ یوں 1972 ء میں شروع ہونے والا تعلیم کا سفر 1989ء میں اختتام کو پہنچا۔ مَیں ایک اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، کبھی فرسٹ پوزیشن نہیں لی، لیکن کبھی فیل بھی نہیں ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ تعلیم کے دَوران بھی زندگی خاصی ہنگامہ خیز رہی۔ جہاں تک فیملی بیک گرائونڈ کا تعلق ہے، میرے دادا جان، میر عبدالعزیز اُردو، فارسی اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ قیامِ پاکستان میں ہمارے خاندان نے بھی قربانیاں دیں، جمّوں سے پاکستان آتے وقت ہماری والدہ کی پوری فیملی شہید ہوگئی اور اُن کے بھائی کو تو ہندوئوں نے اُن کی آنکھوں کے سامنے شہید کیا۔ ہماری والدہ کو بھی اغوا کرلیا گیا تھا، مگر اُنہوں نے بڑی مشکل سے بھاگ کر اور لاشوں کے پیچھے چُھپ کر اپنی جان بچائی۔ شاید ان قربانیوں ہی کی وجہ سے وطن کی محبّت لاشعور میں جاگزیں ہے۔

س: آپ کے والد معروف صحافی، دانش وَر اور کالم نویس تھے، ایسے والدین تو بچّوں کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دیتے ہیں؟

ج:۔ مَیں اوسط درجے کا طالبِ علم تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ والد صاحب مجھ پر اور دوسرے بھائیوںپر خصوصی توجّہ نہیں دیتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے، 1971ء کی جنگ جاری تھی، جب والد صاحب مجھے اسکول میں داخل کروانے لے گئے، مَیں ضد کررہا تھا کہ اسکول نہیں جانا۔ پہلا دن رونے دھونے میں گزرا، پھر حالات سے سمجھوتا کرلیا کہ کوئی جائے فرار نہیں تھی۔ چوتھی، پانچویں میں تھا کہ مجھے اچانک کتاب لکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ گھر میں تو ویسے ہی علمی ماحول تھا، دُنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں، لیکن ایک کم سِن بچّے کے دِل میں کتاب لکھنے کا خیال اس طرح آیا کہ والد صاحب مجھے پاکستان نیشنل سینٹر، لاہور میں ہونے والے ایک سیمینار میں لے گئے، جس کا موضوع سرسیّد احمد خان تھے۔ والد صاحب نے سرسیّد کی تعلیمی خدمات کے حق میں، جب کہ ایک اور معروف مقرّر نے اُن کے خلاف تقریر کی۔ مجھے سرسیّد کی شخصیت کے بارے میں اشتیاق پیدا ہوا، یوں اُن کے بارے میں پڑھنا شروع کردیا اور پھر شاید گھر میں موجود کُتب کو دیکھ کر خیال آیا کہ کیوں نہ مَیں بھی اُن کے بارے میں ایک کتاب لکھوں۔ یہ ایک بچگانہ شوق تھا۔ مَیں نے اسکول کی کاپیوں پر ہوم ورک کے ساتھ، سرسیّد پر بھی لکھنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے الفاظ اور خیالات ٹیڑھے میڑھے ہی تھے، لیکن مَیں تو اپنی دانست میں کتاب لکھ رہا تھا۔ جب کاپی کے صفحات ختم ہوگئے، تو میرے نزدیک کتاب بھی مکمل ہوگئی۔ ٹیچر، مِس ریحانہ احمد نے دیکھا، تو میری حوصلہ افزائی کی، وہ خود بھی اس پر بے حد حیران تھیں۔

س:والد صاحب کو علم تھا؟

ج:جی نہیں۔ مَیں نے اُن سے چُھپ چُھپا کر یہ سب لکھا تھا۔ مَیں اُس زمانے میں نوائے وقت اور مشرق میں بچّوں کے صفحات کے لیے کہانیاں بھی لکھتا تھا۔ والد صاحب سے یہ سب چُھپانے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ مَیں اُنھیں بتائے بغیر اپنی پہچان بنانا چاہتا تھا یا یوں سمجھیں، سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ ساتویں، آٹھویں تک تو اچھا طالبِ علم تھا۔ یہی وہ دَور تھا(غالباً مَیں چھٹی جماعت میں تھا) جب مَیں نے پنجاب یونی ورسٹی کے’’ وحید شہید ہال‘‘ میں زندگی کی پہلی تقریر کی، جو والد صاحب نے لکھ کر دی تھی۔ اس سے میرے اندر تقریر کا خوف جاتا رہا۔ اس تقریر میں مولانا محمّد علی جوہر کا یہ شعر بھی تھا’’قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے… اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد‘‘ مَیں نے شعر تو پڑھ دیا، لیکن اسے سمجھنے میں کئی دن لگے۔

س:سُنا ہے، ایک زمانے میں کرکٹ کا شوق بھی جنون کی حد تک رہا؟

ج:ہاں۔ ساتویں، آٹھویں میں کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوا، جو دن بہ دن بڑھتا ہی چلا گیا، حتیٰ کہ جب سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کررہا تھا، تو اسکول کی کرکٹ ٹیم کا رُکن تھا۔ ایک کلب بھی جوائن کیا ہوا تھا اور پھر انڈر 19 ٹیم کا رُکن بھی بن گیا۔ ابھی کھیل کے میدان کا یہ سفر جاری ہی تھا کہ 9جولائی 1987ء کو والد صاحب کا 48برس کی عُمر میں اچانک انتقال ہوگیا۔ صدمہ تو تھا ہی، لیکن یہ ایک لحاظ سے میرے کرکٹ کیریئر کا اختتام بھی تھا۔ جس روز اُن کا انتقال ہوا، اُس روز مجھے پشاور میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں شرکت کرنا تھی، لیکن یہ خواب ادھورا رہ گیا، بلکہ زندگی ایک اور ڈگر پر چل نکلی، جس کا خود مجھے اندازہ نہ تھا کہ والد صاحب سے محروم ہونے کے بعد کتابِ زیست کے کیسے کیسے حیرت انگیز چیلنجز سامنے آئیں گے۔

س: کیسے چیلنجز…؟

ج:جن دنوں مُلک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ تھا، مَیں سینٹرل ماڈل اسکول، لاہور میں میٹرک کا طالبِ علم تھا۔ والد صاحب ترقّی پسندانہ نظریات کے حامل اور آمریت کے مخالف تھے۔ یہ گھریلو علمی و ادبی ماحول کا اثر تھا یا گھر میں ہونے والی والد صاحب کی دوسروں سے گفتگو کا نتیجہ، آمریت سے نفرت میرے لاشعور کا حصّہ بن گئی۔ ذہن شروع ہی سے تحریر و تقریر کی آزادی کا رسیا ہوگیا۔ پھر مارشل لاء کے زمانے میں عوام میں جو سیاسی اختلافات پیدا ہوئے، ہم طلبہ بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ وہ دَور تھا، جب میٹرک کے طلبہ بھی آمریت کے خلاف میدان میں نکل آئے تھے۔ حکومت کے فرمان کے مطابق اسکول میں باقاعدگی سے نماز ادا ہوتی، لیکن بعدازاں بھاٹی گیٹ تھانے کے سامنے حکومت کے خلاف نعرے بھی لگتے۔ سچ پوچھیں، میرے اندر سیاسی شعور اُسی زمانے میں بیدار ہوا۔ مَیں نے دسویں جماعت میں مظاہروں کے دَوران پہلی بار پولیس کی لاٹھی کھائی اور سَر بھی زخمی ہوا۔ اُس زمانے میں جو بھی تنظیم مارشل لاء کی مخالفت کرتی، ہم اُس کے رُکن بن جاتے۔ پھر جب مَیں سائنس کالج، وحدت روڈ میں داخل ہوا، تو ان سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ گورنمنٹ کالج میں گریجویشن کے لیے داخل ہوا، تو زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوگیا۔ وہاں نصابی سرگرمیاں مدہم اور غیر نصابی سرگرمیاں(کرکٹ، سیاسی بحث مباحثے، ڈرامیٹک کلب، مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر میں اداکاری) بڑھ گئی اور پڑھائی پیچھے رہ گئی۔

زندگی میں ایک نیا عُنصر، اخبارات میں مضامین لکھنے کی صُورت سامنے آیا۔ مَیں نے اُسی زمانے میں روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خلاف ایک مضمون بھیجا، جو میرے نام سے چَھپ گیا۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ اُسی ادارتی صفحے پر والد صاحب کا مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ والد صاحب نے پوچھا’’ کیا یہ مضمون تم نے لکھا ہے؟‘‘ مَیں نے’’ جی ہاں‘‘ میں جواب دیا، تو اُنہوں نے حسبِ سابق نصیحت شروع کردی’’ تم صحافی بننے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔‘‘اُنہوں نے سیاست سے بھی دُور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کرکٹ پر توجّہ مرتکز رکھنے کا مشورہ دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ صحافت میرے بس کی بات نہیں۔ والد صاحب اس بات پر بھی پریشان تھے کہ میرے دوستوں میں ایسے نوجوان شامل ہیں، جو حکومت کے زبردست مخالف ہیں اور کئی تو شاہی قلعے کی’’سیر‘‘ بھی کر آئے تھے۔

س: والد صاحب سیاسی اور صحافتی سرگرمیوں کے خلاف تھے، پھر صحافت کی صحرا نوردی کیسے اور کیوں کر ممکن ہوئی؟

ج:اصل میں والد صاحب کی وفات کے بعد دنیا ہی بدل گئی۔ وہ اپنی جگہ سچّے تھے۔ صحافت اور آزادیٔ صحافت کی تلخیوں سے گزر چُکے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ مَیں بھی مشکلات کا شکار ہوجائوں، کیوں کہ پاکستان میں بہرحال آزادیٔ صحافت کے لیے حالات سازگار نہیں تھے، مگر میرے اندر تو سیاسی شعور بیدار ہوچُکا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد جب بے نظیر بھٹّو صاحبہ تعزیّت کے لیے ہمارے گھر آئیں، تو اُنہوں نے مجھ سے پوچھا’’ کیا کررہے ہو؟‘‘، مَیں نے کہا’’ کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’اسے چھوڑو، اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلو، اُنہوں نے جو کچھ چھوڑا ہے، اُسے آگے بڑھائو۔‘‘ مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ وارث میر کی وراثت کو کیسے آگے بڑھائوں کہ اُنہی دنوں جنگ، لاہور میں سب ایڈیٹرز کی اسامیوں کے لیے اشتہار شایع ہوا، جس کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن درکار تھی۔ رزلٹ آچُکا تھا، سو مَیں نے رزلٹ کارڈ کے ساتھ درخواست دے دی۔ ساتھ ہی جنگ میں چَھپنے والے مضامین کے تراشے بھی لگا دئیے۔ تحریری ٹیسٹ ہوا اور پھر مجھے منتخب کرلیا گیا۔ پہلے ٹرینی سب ایڈیٹر رہا، بعدازاں رپورٹنگ اور پھر میگزین کی طرف چلا گیا۔ والد صاحب حیات ہوتے، تو شاید مجھے اس طرف نہ آنے دیتے، لیکن مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ ایک نئی دنیا میری راہ دیکھ رہی ہے۔

س: عام طور پر صحافیوں کو ابتدائی دنوں میں کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، آپ کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟

ج:یہ درست ہے، لیکن میرے مراحل کچھ زیادہ ہی دشوار تھے۔ وجہ یہ تھی کہ مَیں نے ایم اے ابلاغیات میں بھی داخلہ لے لیا تھا۔ رات تین بجے دفتر سے گھر جانا، صبح یونی ورسٹی اور پھر دفتر آنا۔ غرض دو سال کوہِ گراں سَر کرنے کے مترادف تھے، لیکن مَیں نے ہمّت نہ ہاری۔ بعدازاں، اس سے بھی زیادہ کٹھن مراحل پیش آئے۔ دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ کئی بار مجھے اغوا کیا گیا۔ 1990ء میں مجھ سے صرف یہ سورس پوچھنے کے لیے اغوا کیا گیا کہ مَیں نے یہ خبر کہاں سے لی کہ’’ صدر اسحاق خان بے نظیر بھٹّو کی حکومت برطرف کرنے والے ہیں۔‘‘ مجھے دو، تین بار سخت کالم لکھنے یا پروگرام کرنے پر ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ ایک کالم میں آبدوزوں کی خریداری کا اسیکنڈل بےنقاب کیا، جس میں آصف زرداری کے انتہائی قریبی ساتھی ملوّث تھے۔ 1997ء میں روزنامہ’’ پاکستان‘‘ میں نواز شریف کی کرپشن بےنقاب کرنے پر نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ طالبان کی طرف سے سیکوریٹی تھریٹس ملنے پر کچھ عرصہ فیملی کے ساتھ مُلک سے باہر بھی گزارنا پڑا۔ غرض زندگی طرح طرح کے کٹھن مراحل سے گزری، لیکن ابتدا میں جو ریاضت کی، شاید آگے وہی کام آگئی۔

س:صحافت کے میدان میں داخل تو ہوگئے، لیکن کیا یہ واقعی آپ کی منزل تھی یا کچھ اور بننا چاہتے تھے ؟

ج:ہمارے گھر کا ماحول خالصتاً علمی و ادبی تھا۔ والد صاحب کتابوں اور اخبارات کی دنیا میں گِھرے رہتے۔ میرے دادا جان، میر عبدالعزیز فارسی، اُردو اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ہم نے قرآنِ پاک اُن ہی سے پڑھا۔ مَیں قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال سے بہت متاثر تھا اور زندگی کا مقصد اگرچہ واضح نہ تھا، تاہم کچھ کر گزرنے کا شوق ضرور تھا۔ کالج بالخصوص جی سی یونی ورسٹی کے دَورِ طالبِ علمی میں سیاسی شعور پختہ ہوا۔ مَیں اُن دنوں کئی اسٹڈی سرکلز اور طلبہ تنظیموں کا رُکن تھا۔ احمد بشیر، حبیب جالب، شفقت تنویر مرزا، ظفریار احمد جیسی شخصیات نے میرے سیاسی شعور کی آب یاری کی۔ مارکسزم پر کئی کُتب کھنگال ڈالیں۔ کالج کے ابتدائی زمانے میں والد صاحب نے جب یہ دیکھا کہ مَیں بائیں بازو کے نظریات میں گِھرتا چلا جارہا ہوں، تو ایک روز مجھے بُلا کر میرے ہاتھ میں مولانا عبیداللہ سندھی کی کتاب تھما دی اور کہا’’ یہ بھی پڑھو۔‘‘ کتاب پڑھنے کے بعد سمجھ آئی کہ صرف مارکسزم اور سوشلزم ہی نہیں، اسلام بھی غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی بائیں بازو کے حامی تھے اور مسلمان بھی۔ آگے چل کر مجھے مزید سمجھ آئی کہ پاکستان میں نہ بائیں بازو کی انتہا پسندی چل سکتی ہے اور نہ دائیں بازو کی، بلکہ یہاں علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی سیاست مناسب ہے، جو میانہ روی کی سیاست تھی۔ وقت کے ساتھ، میرا اِن دونوں بانیانِ پاکستان کے اندازِ فکر اور سیاست پر پختہ یقین ہوتا چلا گیا اور صحافت کا شوق بھی اُسی زمانے میں ہوا۔

س: ہم نے پروفیسر وارث میر کو ہمیشہ مُسکراتے دیکھا، لیکن آپ شاید اُن کے مقابلے میں کچھ ریزرو ہیں، کسی سے جلد گھلتے ملتے نہیں؟

ج:مجھے ریزرو تو نہیں کہہ سکتے، البتہ اسے میری خامی کہہ لیجیے یا خُوبی کہ جب تک کسی سے واقفیت نہ ہو، اُس سے جلد گھلتا ملتا نہیں یا بہت جلد فِری نہیں ہوتا، لیکن مَیں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ جس کی اچھی پبلک ریلیشنگ نہ ہو، وہ اچھا صحافی نہیں بن سکتا۔ مَیں ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہوں اور محبّت وخلوص کا جواب بھی دیتا ہوں، لیکن ہم لوگوں کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ بعض اوقات خوش اخلاقی، پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے، مثلاً آج کل سیلفیوں کا رواج ہے، تو لوگ مجھ سے ملتے ہی سیلفی کا تقاضا شروع کردیتے ہیں۔ اگر کسی ایک شخص کی خواہش پوری کریں، تو پھر لائن لگ جاتی ہے، اس چکر میں کئی بار میری فلائٹ تک نکل گئی۔

س:مُسکرانا تو وارث میر صاحب کی شخصیت کا خاصّہ تھا۔ زوردار قہقہے بھی لگاتے تھے، کبھی اُنھیں غصّے میں بھی دیکھا؟

ج:بہت دفعہ۔ خاص طور پر جب اُن کی نصیحت یا بات نہ مانی جاتی۔ اُن کی خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھائی رات ہونے سے پہلے گھر آجائیں۔ وہ مجھے صحافت سے روکتے تھے، لیکن ایک بار بہت دِل چسپ واقعہ ہوگیا۔ غالباً 1983ء میں خواتین نے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی قیادت میں مال روڈ پر جلوس نکالا، جس میں حبیب جالب بھی شریک تھے۔ مجھے علم ہوا، تو مَیں بھی کالج سے بھاگ کر جلوس میں پہنچ گیا۔ پولیس مظاہرین پر لاٹھیاں برسا رہی تھی اور حبیب جالب کو بھی مار پڑ رہی تھی، لیکن مَیں اُس وقت حیران رہ گیا، جب ہجوم میں والد صاحب کو دیکھا۔ وہ بھی لاٹھیوں کی زَد میں تھے۔ مَیں فوراً چُھپ گیا، کچھ ڈنڈے مجھے بھی پڑگئے۔ معلوم نہیں، والد صاحب نے مجھے دیکھا یا نہیں، بہرحال میں والد صاحب سے پہلے گھر پہنچ گیا اور والدہ صاحبہ کو روداد سُنائی کہ آج تو ابّا حضور کو بھی لاٹھیاں پڑگئیں۔ والد صاحب گھر آئے، تو والدہ نے اُنہیں کھری کھری سنا دیں کہ آپ تو برخوردار کو سیاست میں آنے سے منع کرتے ہیں، لیکن آج خود مظاہرے میں شریک تھے اور سُنا ہے کہ کچھ لاٹھیاں بھی پڑگئیں۔ والد صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور روایتی مُسکراہٹ بھی غائب ہوگئی، لیکن اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے تھے، ہماری بہتری ہی کے لیے کہتے تھے۔

س:زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟

ج: روزنامہ’’جنگ‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے پہلی تن خواہ، مبلغ پندرہ سو روپے، میری پہلی کمائی تھی۔

س: شادی اپنی پسند سے کی، بچّے کیا کر رہے ہیں؟

ج:شادی مرضی کی کہہ سکتے ہیں، لیکن اس میں والدین کی رضامندی بھی شامل تھی۔ میری بیگم، ناہید ایم اے صحافت میں میری کلاس فیلو تھیں۔ بعدازاں، پاکستان ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز پر نیوز کاسٹر کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔ ایک بیٹا، عرفات اور بیٹی، عائشہ ہے۔ بیٹے کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے، جس کا ولیمہ سیاسی اور سماجی شخصیات کا بڑا اجتماع بن گیا کہ اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، دونوں کے رہنما شریک تھے۔ بہرحال، خوشی ہے لوگ محبّت کرتے ہیں۔ بیٹی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کررہی ہیں۔

س: ٹی وی پروگرامز میں سیاست دانوں سے نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ کبھی گھر میں بیگم سے بھی تُو تُو، مَیں مَیں ہوئی؟

ج:بیگم کے ساتھ ہلکی پُھلکی نہیں، باقاعدہ نوک جھونک چلتی رہتی ہے اور پلڑا ہمیشہ اُن ہی کا بھاری رہتا ہے اور وہ وقت ہوتا ہے، جب مَیں’’بریک‘‘ پر چلا جاتا ہوں۔ دیکھیے، ہم جیسے اینکر پرسن باہر کی دنیا پر تو اپنا رُعب ڈال لیتے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ گھر کی دنیا میں بیگم ہی کا حکم چلتا ہے اور وہی حقیقی’’اینکر پرسن‘‘ ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، بعض نہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیگم کے تعاون کے بغیر کوئی صحافی کام یاب نہیں ہوسکتا۔

س: صحافتی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ؟

ج:بےشمار ہیں۔ یہ 1995ء کا واقعہ ہے، مجھے نیوزی لینڈ میں ہونے والی کامن ویلتھ کانفرنس میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ صدر، فاروق لغاری بھی ہمارے ساتھ تھے۔ کانفرنس میں جنوبی افریقا کے صدر، نیلسن منڈیلا بھی موجود تھے۔ اُس وقت پوری دنیا میں نیلسن منڈیلا کا چرچا تھا، جو 25سال کی قید کے بعد رہا ہوئے تھے۔ اُن سے ملاقات کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ کئی سربراہانِ مملکت کو بھی کوشش کے باوجود ملاقات کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ چوں کہ ہم پاکستان میں اُن کے حق میں کئی بار مظاہرے کر چُکے تھے، اس لیے اُن سے ملنے کی بھی خواہش تھی۔ بہرحال، مَیں نے اُن کے سیکرٹری کو بار بار کی درخواست کے بعد راضی کرلیا اور یوں مجھے صرف 10منٹ کا وقت ملا۔ نیلسن منڈیلا نے ملتے ہی سب سے پہلا سوال یہ کیا کہ میرا تعلق کس مُلک سے ہے؟ مَیں نے کہا ’’پاکستان سے۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’وہ کہاں واقع ہے؟‘‘ مَیں نے بہت سمجھایا، لیکن اُن کو پتا نہیں چل رہا تھا۔

پھر مَیں نے جوںہی انڈیا برّ ِصغیر کا نام لیا، وہ حیرت سے بولے’’اوہ واقعی‘‘۔ پھر دوسرا سوال اُنہوں نے کردیا کہ’’ آپ کی یونی ورسٹی’’ڈیورینڈ‘‘ سے انتہا پسند ہمارے مُلک میں انتشار کیوں پھیلا رہے ہیں؟‘‘ دو تین منٹ تو’’ ڈیورینڈ‘‘ کو سمجھنے میں لگ گئے۔ پھر جب اُنہوں نے مدرسے کا لفظ استعمال کیا، تو مَیں سمجھ گیا کہ اُن کی مُراد ’’دیوبند مدرسہ‘‘ ہے۔ مَیں نے اُنھیں سمجھایا کہ یہ مدرسہ انڈیا میں ہے اور ہمارا ان انتہا پسندوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی دَوران سیکرٹری نے کہا’’ 10منٹ کا وقت ختم ہوگیا۔‘‘ مَیں نے نیلسن منڈیلا سے کہا کہ’’ آپ کا انٹرویو تو ہوا نہیں، آپ نے الٹا میرا انٹرویو شروع کردیا۔‘‘ آخر کار بڑی منّت ترلے کے بعد اُنہوں نے مزید 10منٹ دیئے۔ اُس زمانے میں اُن سے اتنا انٹرویو بھی بہت بڑی بات تھی۔ اس انٹرویو میں اُنہوں نے معذرت بھی کی کہ چوں کہ وہ 25سال جیل میں رہے ہیں، اس لیے اُنہیں باہر کی دنیا کا زیادہ علم نہیں۔ بہرکیف، وہ ایک یادگار انٹرویو تھا۔ لیکن ایک احساس یہ بھی دامن گیر تھا کہ جس شخص کے لیے ہم پاکستان میں مظاہرے کر رہے تھے، اُسے علم ہی نہیں تھا کہ پاکستان کہاں واقع ہے۔

[pullquote]والد کی خواہش تھی کرکٹر بنوں، دسویں جماعت میں پہلی بار پولیس کی لاٹھیاں کھائیں،’’ جنگ‘‘ لاہور سے بطور ٹرینی سب ایڈیٹر کیرئیر کا آغاز کیا[/pullquote]

س: آپ 2006ء میں غزہ میں بھی تو پھنس گئے تھے۔ وہ کیا قصّہ ہے؟

ج: وہ واقعہ اب بھی میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دَوڑا دیتا ہے۔ مَیں فوٹو گرافر، احمد کے ساتھ مِصر تو پہنچ گیا، لیکن آگے مِصری حکومت، فلسطین کے لیے ویزا جاری نہیں کر رہی تھی۔ بارڈر پر فلسطینیوں نے آگے جانے کے لیے سرنگیں کھودی ہوئی تھیں، تو مَیں بھی ایک ایسی ہی سرنگ کے ذریعے فلسطین پہنچ گیا، لیکن فوٹو گرافر سرنگ پار نہ کر سکا۔ مَیں نے غزہ کے ہوٹل،’’ القدس‘‘ میں قیام کیا اور اُسی رات اسرائیل نے اُس پر شدید بم باری کر دی، جس پر ہوٹل چھوڑنا پڑا۔ مجھے اپنی ڈیوٹی ادا کرنی تھی اور بار بار کوریج کے لیے فون بھی آ رہے تھے۔ بالآخر مَیں نے ایک فلسطینی کیمرا مین کو ہائر کیا اور اُسے کہا’’ مجھے تباہ شدہ گھروں والے فلسطینیوں سے بات کرنی ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ اُنہیں چھوڑیں۔ اُن کے گھر تو مسمار ہو چُکے۔

ہم وہاں چلتے ہیں، جہاں فلسطینی بچّے اسرائیلی ٹینکس کو پتھر مار رہے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا’’ جنگی صحافت کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ وہاں جانا مناسب نہیں۔‘‘ مگر وہ اپنی بات پر ڈٹا رہا اور کہا’’ آپ دیکھیے گا، کیا شوٹ ہوگا۔ آپ کے دفتر والے خوش ہو جائیں گے۔ مَیں وہاں شوٹ کروں گا، جہاں گولا ہمارے پاس گرے گا۔‘‘ مَیں نے کہا ’’اس طرح تو ہم مارے جائیں گے۔‘‘ کہنے لگا’’ یہی تو مَیں چاہتا ہوں کہ ہم شہید ہو جائیں۔ دنیا واہ، واہ کرے گی۔‘‘ بڑی مشکل سے اُسے سمجھایا۔ بہرحال، مجھے وہاں جا کر احساس ہوا کہ بے چارے فلسطینی کس قدر کسم پُرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے پاکستان یاد آنے لگا۔ بے شک مسائل بے پناہ ہیں، لیکن اپنا وطن بے شمار مُمالک سے پھر بھی اچھا ہے، لیکن ہمیں اس کی قدر نہیں۔

س: آپ نے بے شمار شخصیات کے انٹرویوز کیے ، کس نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟

ج: مَیں نے ایرانی صدر، احمدی نژاد، نیلسن منڈیلا، یاسر عرفات، ٹونی بلیئر اور دیگر بے شمار نام وَر شخصیات کے انٹرویوز کیے ہیں، ایک لمبی فہرست ہے، لیکن 1994ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں اسرائیلی وزیر خارجہ، شمعون پیریز کا انٹرویو یادگار تھا۔ یہ کسی پاکستانی صحافی کے لیے کسی اسرائیلی سیاست دان کا پہلا انٹرویو تھا۔ نیز، یہ انٹرویو میری پاکستان واپسی پر بہت متنازع قرار پایا اور مجھ سے جواب دہی بھی ہوئی، لیکن یہ انٹرویو، میرے دوسرے انٹرویوز کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ بعد ازاں، 1997ء میں، مَیں نے تورا بورا کے پہاڑوں میں اُسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا اور سب سے دِل چسپ بات یہ کہ کیمرا مین، مظہر اللہ خان سے اُن سے ماڈلنگ بھی کروائی اور کلاشنکوف کے ساتھ اُن کے مختلف پوز بنوائے، جو بعد ازاں پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔ ہم نے روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں کام کے دَوران بے شمار شخصیات سے ماڈلنگ کروائی تو شاید اس کی عادت پڑ گئی تھی۔ اُس زمانے میں ایک بار عارف نجمی صاحب نے نواز شریف صاحب سے بھی ماڈلنگ کروائی، وہ اُنہیں ہدایات دے رہے تھے اور نواز شریف صاحب بھی ویسا ہی کر رہے تھے۔

س: بیروت میں کیا ہوا تھا؟

ج: جی، وہاں بھی موت چُھو کر گزر گئی تھی۔ مَیں اپنے کیمرا مین کے ساتھ بیروت کے علاقے’’ الرافیہ‘‘ میں تھا، جہاں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ جاری تھی۔ حزب اللہ کے گوریلوں نے ہمیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا، کیوں کہ وہ ہمیں اسرائیل کا جاسوس سمجھ رہے تھے۔ ہم ایک سات منزلہ عمارت کے بیسمنٹ میں تھے اور ہمارے ساتھ بندوقوں سے مسلّح گوریلے تھے۔ ہم نے لاکھ یقین دہانی کروائی کہ ہم صحافی ہیں، پاسپورٹ بھی دِکھائے، لیکن وہ ہمیں جاسوس سمجھنے پر بہ ضد تھے۔ اسی دَوران اسرائیلی جیٹ طیاروں نے شدید بم باری شروع کردی اور پوری عمارت ہلنے لگی۔ گولے ہمارے آس پاس پھٹ رہے تھے، جس کی وجہ سے ہمارے پہرے دار بھی کانپ رہے تھے۔

مَیں نے اونچی آواز میں حضرت یونس علیہ السّلام کی دُعا’’ لَا اِلٰہ اِلّا اَنتَ سُبحانکَ اِنّی کُنتُ مِن الظّالِمین‘‘ پڑھنا شروع کردی۔ تھوڑی دیر میں بم باری ختم ہوگئی، تو پہرے داروں نے پوچھا’’ آپ کیا پڑھ رہے تھے۔‘‘ مَیں نے بتایا کہ حضرت یونس علیہ السّلام کی دُعا ہے اور پاکستان میں ہر دوسرے، تیسرے مسلمان کو یاد ہے۔ یوں اُنہیں یقین ہوگیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اُن کے کمانڈر نے کہا’’ اگر آپ یہ دُعا نہ پڑھتے، تو دونوں کو جاسوس ہونے کے شبے میں گولی مارنے کا فیصلہ ہو چُکا تھا۔‘‘ مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر اسرائیلی طیارے اس عمارت پر بم باری نہ کرتے، تو ہمارا زندہ بچنا محال تھا۔

س: آپ کی زندگی کا بیش تر حصّہ مہم جوئی میں گزرا۔ کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج: مجھے وہ دَور سب سے اچھا لگتا ہے، جب مَیں صحافت کے ابتدائی دنوں میں جدوجہد کر رہا تھا۔ ہم لوگ 16،16 گھنٹے کام کرتے تھے۔ شاید وہ دَور اب اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ اُس کا پھل مل گیا۔ مَیں 36سال کی عُمر میں اسلام آباد میں ایک روزنامے کا سب سے کم عُمر ایڈیٹر بنا۔ مجھے حکومتِ پاکستان کی طرف سے2016 ء میں ہلالِ امتیاز ملا۔1996ء، 1997ء اور1998 ء میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کی طرف سے بہترین کالم نویس کا ایوارڈ ملا۔2017 ء میں MOST RESILIENT JOURNALIST AWARD ملا۔

اس کے علاوہ بھی کئی ایوارڈز ملے۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ وزیرِ اعظم، ظفر اللہ جمالی سے وصول کیا۔ تو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میری اُس دَور کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ پھر جب مَیں 2002 ء میں پرنٹ جرنلزم سے الیکٹرانک جرنلزم کی طرف آیا، تو میرا یہ خیال پختہ ہوگیا کہ ایک اچھے ٹی وی اینکر کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اُسے اخباری صحافت کا بھی تجربہ ہو، کیوں کہ یہ تجربہ سونے پہ سہاگا ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ٹی وی اینکرز اخباری صحافت کے تجربے سے محروم ہیں۔ وہ صرف سیاسی پیش گوئیاں کرکے خود کو اینکر سمجھ بیٹھے ہیں۔

س: پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کی طرف کیسے آنا ہوا؟

ج: مَیں نے جنگ اور لاہور، دونوں کو خیر باد کہہ کر اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور یہاں ایک روزنامے کا ایڈیٹر تھا کہ جیو ٹی وی میں کام کی آفر ہوئی۔ ابتدا میں، مَیں نے معذرت کرلی۔ پھر مجھے کہا گیا کہ’’ آپ کراچی میں ہونے والی تربیتی ورکشاپس اٹینڈ کرلیں، فیصلہ بعد میں کریں۔‘‘ ٹریننگ کے دَوران بی بی سی اور سی این این کے سینئر افراد الیکٹرانک میڈیا کی انقلابی پیش رفت پر لیکچر دے رہے تھے۔ یہ میدان میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ مَیں نے آفر قبول کرلی اور یوں جیو ٹی وی کا حصّہ بن کر ’’کیپٹل ٹاک‘‘کا اینکر پرسن بن گیا اور یہ فیصلہ زندگی کا ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا۔

س: یہ آپ کے دیرینہ خواب کی تکمیل بھی تھی، لیکن زندگی کے اس موڑ پر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ نے جو چاہا تھا پا لیا؟ یا ابھی کچھ اور کرنا ہے؟

ج: دیکھیں، جہاں تک ذاتیات کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو چاہا، پا لیا۔ دولت، عزّت، شہرت۔ لیکن میرے خیال میں انسان کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اگر مَیں امیر ہوں، تو اس سے لوگوں کو کیا فائدہ۔ انسان کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے اور اس حوالے سے مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان ویسا بن جائے، جیسا علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم چاہتے تھے، لیکن مجھے مستقبل میں یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ میری دوسری سب سے بڑی خواہش کشمیر کی آزادی ہے۔ لیکن میری یہ تمنّا بھی ابھی تک ایک خواب ہی ہے، جو نہ جانے کب پوری ہوگی۔

س: آپ ماشا اللہ ایک کام یاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کوئی سنہرا اصول تو بتایئے۔

ج: ہمیشہ دوسروں کے لیے اچھا سوچیں، آپ کو اس کا اجر بھی اچھا ملے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی نیّت کا پھل ضرور دیتا ہے۔دوسرا، والدین کی دعائوں کو بھی مَیں کام یاب زندگی کے لیے اہم سمجھتا ہوں۔ مَیں کوئی اتنا ذہین فطین نہیں، نہ کوئی ایکسٹرا کوالٹیز ہیں، لیکن ہم نے زندگی میں بھاگ دوڑ، محنت اور جدوجہد بہت کی ہے اور کسی کا بُرا نہیں سوچا۔ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا۔ آپ ایمان داری کے ساتھ زندگی بسر کریں، تو اللہ اس کا صلہ ضرور دے گا۔

س: محبّت زندگی میں کتنی ضروری ہے؟

ج: محبّت ہی اصل زندگی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ڈرائیونگ فورس ہے، اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے، لیکن اس کی مزید بھی کئی اقسام ہیں۔ والدین سے محبّت، بیوی بچّوں سے محبّت، اپنے پروفیشن سے محبّت، اپنے وطن سے محبّت۔ غرض یہ لطیف جذبہ تو پوری زندگی میں قوسِ قزح کے رنگوں کی طرح بکھرا ہوا ہے۔

س: کہتے ہیں صحافی یا میڈیا ورکرز کو اپنی خانگی زندگی کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ آپ کی گھریلو زندگی کتنی متاثر ہوئی؟

ج: پیشہ جو بھی ہو، آجر ہو یا اجیر، ملازم ہو یا افسر، مزدور ہو یا مالک، ہرشخص کے خاندان کو اس کے ہیڈ آف فیملی کے لیے کچھ نہ کچھ قربان کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے، ایک صحافی کی خانگی زندگی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتی ہے، کیوں کہ اُسے اپنے پروفیشن کو زیادہ وقت دینا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں بالعموم وہی صحافی کام یاب رہتے ہیں، جن کی بیویاں اُن کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ میری اہلیہ، جو خود ایک زمانے میں ٹی وی سے وابستہ رہیں، مجھ سے ہمیشہ تعاون کرتی ہیں۔ اندازہ لگائیے، جب مَیں نے اُسامہ بن لادن کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا، تو اُنہوں نے مجھے نہیں روکا، حالاں کہ اُس زمانے میں افغانستان جانا انتہائی خطرناک تھا۔ اُنہوں نے پوچھا’’سرحد تک کیسے جائو گے؟‘‘ مَیں نے کہا ’’سوچتے ہیں۔‘‘ پھر اُنہوں نے اپنے ایک جاننے والے کی وساطت سے میرے لیے رینٹ اے کار کا بندوبست بھی کردیا۔

س: اُسامہ کا انٹرویو بھی ایک ایڈونچر ہی تھا؟

ج: جی بالکل۔ انٹرویو سے ایک رات پہلے ہم کابل میں تھے، وہاں امریکی طیاروں نے اس قدر بم باری کی کہ لگتا تھا ہم بچ کر واپس نہیں جا پائیں گے۔ موت سَر پر کھڑی تھی، لیکن اللہ نے محفوظ رکھا، اُس وقت مجھے بیوی، بچّے بہت یاد آئے۔ بہرحال، اگلی صبح انٹرویو ہوگیا۔ واپسی پر مَیں سوچ رہا تھا کہ اگر بیوی مجھے روک لیتی، تو کتنے بڑے اسکوپ سے محروم رہ جاتا۔ ہم جس طرح انٹرویو کی ٹیپس چُھپا کر لائے، وہ بھی اپنی جگہ ایک الگ کہانی ہے۔ اس لیے مَیں سمجھتا ہوں، کام یابی میں اہلِ خانہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

س: کس بات پر غصّہ آتا ہے؟

ج: لوگوں کے جھوٹ بولنے اور اُن کی منافقت پر غصّہ آتا ہے۔ پہلے بہت آتا تھا، اب کچھ کمی ہوگئی ہے اور اس میں واصف علی واصف کی کُتب کا بہت بڑا دخل ہے، جن کے مطالعے سے میری تیزی، اعتدال میں بدل گئی۔ اب مَیں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ کسی کے خلاف سازش کرتے ہیں، اُنہیں نظر انداز کردینا ہی بہتر ہے۔ مجھے اُن لوگوں پر بھی غصّہ آتا ہے، جو علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم پر فیشن کے طور پر غیر ضروری تنقید کرتے ہیں یا محترمہ فاطمہ جناح کی آئیڈیا لوجی کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ اختلافِ رائے اچھی بات ہے، لیکن کسی کو دانستہ طور پر تنقید کا نشانہ بنانا ٹھیک نہیں۔ مَیں ایسے لوگوں پر اپنا غصّہ اُنہیں بُرا بھلا کہہ کر نہیں نکالتا، بلکہ کالمز کے ذریعے جواب دیتا ہوں۔ ہمارے ایک ٹیکنو کریٹ دوست ہیں، اُنہیں پاکستان میں صدارتی نظام لانے کا بہت شوق ہے۔ وہ کئی بار اپنی تحریروں میں لکھ چُکے ہیں کہ ’’قائدِ اعظم پاکستان میں صدارتی نظام کے حامی تھے۔‘‘ وہ جب بھی یہ لکھتے ہیں، مَیں اپنے کالمز کے ذریعے ثابت کرتا ہوں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور غلطی پر ہیں۔ قائدِ اعظم کبھی صدارتی نظام کے حامی نہیں رہے۔ مَیں کسی کے جھوٹ کا جواب غلیل سے نہیں، دلیل سے دیتا ہوں۔

س: آپ کو شاعری سے تو خاصا شغف ہے، کبھی خود بھی شاعر بننے کا سوچا؟

ج: دادا کی وجہ سے میرے جینز میں ادب سے لگائو تو موجود تھا اور مَیں نے بچپن میں شاعری کی بہت کوشش بھی کی، کچھ نظمیں بھی لکھیں، لیکن بات نہ بن سکی۔ مَیں نے بچپن ہی میں اُردو کے کلاسک شعراء کو پڑھ لیا تھا۔ اقبال اور فیض سے بہت متاثر تھا۔ بعدازاں، واصف علی واصف کی کُتب نے متاثر کیا۔ پھر اُردو ادب سے لگائو کا یہ پودا اُس وقت پروان چڑھا، جب کالج کے زمانے میں حبیب جالب اور احمد فراز سے نیاز مندی کا شرف حاصل ہوا۔ 2007 ء میں جب پرویز مشرف کے دَور میں میرے ٹی وی پروگرام پر پابندی لگی، تو مَیں نے یہ شو اسلام آباد میں سڑک کنارے کرنا شروع کردیا، اُس زمانے میں میرے شوز میں جاوید ہاشمی، عمران خان، نثار عثمانی، منہاج برنا کے علاوہ احمد فراز، احمد بشیر اور شفقت تنویر مرزا بھی اکثر آیا کرتے تھے، جو میرے لیے فخر کی بات تھی۔ ادب دوستی میری شخصیت کا ہمیشہ سے جزو رہی ہے۔

س: اکثر لوگ مشہور ہوتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، کیا شہرت نے آپ پر بھی منفی اثر ڈالا؟

ج: شہرت نے مجھے کبھی مغرور نہیں کیا، بلکہ مَیں عاجزی و انکساری پر یقین رکھتا ہوں اور کسی کا دِل توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن اب شہرت کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی چپک گئی ہیں۔ شہرت سے شخصی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔ آپ سڑک پر کہیں جا رہے ہوں یا ریسٹورنٹ میں ہوں، یا پھر بازار میں خریداری کر رہے ہوں، تو چاہنے والے سیلفی لینے کی کوشش کرتے ہیں، تو جہاں شہرت سے آپ کو بہت کچھ ملتا ہے، وہیں بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔

س: کوئی نئی کتاب لکھنے کا ارادہ ہے؟

ج:مَیں نے پہلی کتاب 1990ء میں 24 سال کی عُمر میں لکھی تھی۔ بعدازاں میرے کالمز کے دو مجموعے شائع ہوئے ، لیکن کالمز پر مشتمل ان کتابوں کو اہم تخلیقات نہیں سمجھتا۔ البتہ، دو تین کتابیں زیرِ طبع ہیں، انشا اللہ جلد سامنے آئیں گی۔ جو کتابیں زیرِ طبع ہیں، اُن میں سے ایک پاکستانی سیاست اور دوسری اُسامہ بن لادن کی بائیو گرافی ہے، جس پر کئی برسوں سے کام کر رہا ہوں۔ مَیں نے 2002 ء میں اس کا آغاز کیا، تو کئی غیر مُلکی پبلشرز نے بھاری آفرز کیں، لیکن مَیں سوچتا تھا، جب تک اُسامہ بن لادن کے انجام کے بارے میں صحیح معلومات نہ مل جائیں، یہ کتاب تشنہ رہے گی۔ اب مجھے اُسامہ کے انجام کے بارے میں بعض پوشیدہ گوشوں کا سُراغ مل گیا ہے، جو قارئین کے لیے اہم انکشافات ہوں گے۔ مَیں کہانیاں اور افسانے بھی لکھتا ہوں، لیکن کہیں چھپواتا نہیں، تو اب اُنھیں بھی شایع کرنے کا موڈ ہے۔ اب بھی مہینے، دو مہینے بعد ایک آدھ افسانہ ہو جاتا ہے۔ یہ میرا خفیہ ادبی خزانہ ہے۔

س: صبح کب ہوتی ہے؟

ج: چند برس پہلے زندگی کا شیڈول مشکل اور بے ترتیب تھا۔ رات دو ڈھائی بجے سونا اور پھر جلدی اٹھنا۔ پھر جب 2014 ء میں کراچی میں مجھ پر حملہ ہوا، تو زندگی کی روٹین ہی بدل گئی۔ چار گولیاں تو نکال لی گئیں، دو اب بھی جسم میں پیوست ہیں، درد کم یا ختم کرنے کا واحد طریقہ، دافع درد گولیاں ہیں۔ مَیں ایک عرصے تک اُن پر رہا، پھر ڈاکٹرز نے کہا کہ ان پین کلرز کا مسلسل اور زیادہ استعمال بھی خطرناک ہے۔ اس لیے اگر زندگی کے معمولات میں تبدیلی کرلیں، تو ان گولیوں کے اثرات بہت حد تک کم کیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز نے جلد سونے، صبح جلدی اٹھنے اور ورزش کرنے کا مشورہ دیا، لہٰذا اب رات گیارہ بجے سو جاتا ہوں اور پانچ، ساڑھے 5بجے اٹھ جاتا ہوں۔ نیز، ڈاکٹرز کے کہنے پر سوئمنگ بھی شروع کردی ہے۔ صبح اخبارات کا مطالعہ، ناشتے کا ایک اہم جزو ہے۔ علاوہ ازیں، مَیں نے ایک جرنلسٹس سپورٹ فنڈ بھی بنایا ہے،جس کا بنیادی مقصد مستحق اور ضرورت مند صحافیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی خاموشی سے مدد کرنا ہے۔ مجھے اسلام آباد میں پریس کلب کے رُکن کی حیثیت سے جو پلاٹ ملا تھا، اُسے بیچ دیا اور اُس سے ملنے والی رقم اس فنڈ میں عطیہ کر دی۔اس فنڈ کی سرگرمیوں میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے، روزانہ دو گھنٹے انٹرنیٹ کو بھی دیتا ہوں۔

س:کیا جسم کے اندر موجود گولیوں کی سرجری ممکن نہیں؟

ج:کُل 6گولیاں تھیں، تین نکال لی گئیں، ایک جسم کے آرپار ہو گئی، اب جو باقی گولیاں اندر ہیں، اُن میں سے ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ہڈی ہے، اُسے نکالنے کی کوشش میں ہڈی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔دوسری بھی ایسی جگہ ہے کہ اُسے نکالنے کی کوشش میں شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، اس لیے اب مَیں نے جسم کے اِن’’مکینوں‘‘ سے سمجھوتا کرلیا ہے۔ اس لیے میری صبح کا آغاز درد سے ہوتا ہے، جو بہ تدریج کم ہو جاتا ہے، لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شُکر گزار ہوں کہ صحت مند ہوں۔ زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔

س: اداسی میں کیا کرتے ہیں؟

ج:مَیں نہ تو تنہائی میں ٹہلتا ہوں اور نہ ہی موسیقی سُنتا ہوں، بلکہ نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتا ہوں۔

س:دُعا پر یقین رکھتے ہیں ؟

ج:جی سو فی صد۔ مجھے زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا، وہ والدین کی دعائوں ہی کا نتیجہ ہے اور بھی بے شمار بہی خواہ دُعا گو رہتے ہیں۔ دُعا کا ایک کرشمہ مَیں نے کراچی حملے کے بعد دیکھا۔ مجھے وہ وقت نہیں بھولتا، جب دو روز کے بعد آئی سی یو میں آنکھیں کھولیں، تو ایک بہت بڑے اینکر پتا نہیں کیسے اندر آ گئے، حالاں کہ صرف عزیز واقارب ہی کو اندر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اُنہوں نے آتے ہی کہا’’ اب آپ زندگی میں کبھی چل پِھر نہیں سکیں گے، آپ محتاج ہو چُکے ہیں۔ آپ کا علاج پاکستان سے باہر ہی ممکن ہے، لیکن آپ گھبرائیں نہیں، مَیں آپ کے لیے ایئر ایمبولینس کا بندوبست کر رہا ہوں۔‘‘ مَیں، جو دو روز بعد ہوش میں آیا تھا، یہ سُنتے ہی پھر سے بے ہوش ہو گیا۔ دوبارہ ہوش میں آیا، تو ڈاکٹر انعام پال سرہانے کھڑے تھے۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ باہر جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان ہی میں علاج ممکن ہے۔ مجھے ایک حوصلہ سا ہوا، چناں چہ مَیں نے باہر جاکر علاج کروانے کی پیش کش پر، جن میں غیر مُلکی سفارت خانے بھی شامل تھے، شُکریے کے ساتھ معذرت کر لی۔

کئی مُمالک نے تو سیاسی پناہ کا بھی یقین دِلایا تھا۔ اسپتال ہی میں ایک روز بھائی عیادت کے لیے آئے، تو اُنہوں نے ایک عجیب خبر سُنائی۔ اُنہوں نے بتایا ’’آغا خان اسپتال کے لان میں، میرے کمرے سے تھوڑی دُور بہت سے لوگ، جن میں اکثریت غریبوں اور عورتوں کی ہے، مصلّے بچھائے نوافل پڑھ رہے ہیں اور تمہاری صحت یابی کی دُعائیں مانگ رہے ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا’’جائو! پھر سے دیکھ کر آئو، واقعی میرے ہی لیے دُعائیں مانگ رہے ہیں یا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ اُس نے کہا’’ کنفرم کرکے ہی یہ بات کہہ رہا ہوں۔ وہاں تربت(بلوچستان) سے آئی ہوئی ایک بوڑھی عورت بھی ہے، اُس نے تمہارے لیے امام ضامن بھی دیا ہے اور وہاں کٹی پہاڑی(کراچی) کے لوگ بھی آئے ہوئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ’’ حامد میر نے ایک مرتبہ اپنے پروگرام میں پٹھانوں اور مہاجروں کی لڑائی بند کروائی تھی اور امن بحال کیا تھا‘‘، یہاں سندھ سے بھی بعض لوگ آئے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ صُورتِ حال میرے لیے حیران کُن تھی، تاہم اس کے بعد تو مَیں نے تہیّہ کرلیا کہ جہاں اِتنے لوگ میرے لیے دُعاگو ہوں، اِس مُلک کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جائوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔

س:کوئی ایسا کام، جسے کوشش کے باوجود مکمل نہ کر سکے ہوں؟

ج:ویسے تو بے شمار ہوں گے، ضروری نہیں کہ آپ جیسا چاہیں، ویسا ہو جائے، لیکن ایک کام ایسا ہے، جسے کوشش کے باوجود مکمل نہیں کر سکا۔ کشمیر کی آزادی میرا خواب ہے، تو یہ 1996ء کا زمانہ تھا، جب مَیں ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ ایک دن مَیں نے کیمرا مین سے کہا کہ’’ ہم بارڈر کراس کرکے مقبوضہ کشمیر چلتے ہیں اور وہاں بھارتی فوج نے جو قتل وغارت شروع کر رکھی ہے، اُس کی موقعے پر تصاویر بناتے ہیں،‘‘ وہ بھی راضی ہو گیا۔ لوگوں نے روکا، لیکن مجھ پر تو جنون سوار تھا۔ بہرحال، ہم نے بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی، لیکن اُس وقت میرا وزن زیادہ تھا، کوشش کے باوجود ہم پہاڑی علاقہ عبور نہ کر سکے۔

1995ء کا وہ زمانہ تھا، جب کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی عروج پر تھی اور پاکستان اس گرتی دیوار کو تھوڑا سا دھکا لگا کر بہت کچھ کر سکتا تھا، لیکن اُس وقت ہمارے یہاں حکومت اور اپوزیشن دست وگریبان تھے۔ نواز شریف اور بے نظیر صاحبہ کی لڑائی زوروں پر تھی، مختلف ریاستی ادارے بھی اس لڑائی کا حصّہ تھے۔ ہم نے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو نظرانداز کر دیا۔ اس کے بعد 1999ء میں موقع آیا، جب کارگل جنگ چِھڑ گئی۔ جنگ سے تین ماہ پہلے تین صحافیوں کو پرویز مشرف نے خصوصی طور پر ایک ملاقات میں کہا’’ کشمیر جلد آزاد ہو جائے گا۔آپ کشمیر کاز کی حمایت کریں۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’ ہم صرف تین دن میں کشمیر آزاد کروالیں گے۔‘‘ مَیں نے فوراً حمایت کا یقین دِلایا۔ ہمارے سینئر ساتھی، ضیاء الدّین نے باہر آکر کہا ’’محض باتیں ہیں، یہ لوگ صرف ہمیں فتح کر سکتے ہیں، کشمیر فتح نہیں کرسکتے۔‘‘

س :کوئی ایسی یاد، جسے دل سے جدا نہ کرنا چاہتے ہوں؟

ج:بے شمار یادیں ایسی ہیں، جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا،

لیکن شُکر ہے کسی ناکام رومانس کے حوالے سے کوئی یاد نہیں، تاہم بچھڑے دوستوں کی یادیں اکثر سوہانِ رُوح بن جاتی ہیں۔ البتہ، ایک یاد ایسی ہے، جسے مَیں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ نوجوانی کے زمانے میں اخبار نویسی کے دَوران بعض لوگوں نے مجھے اغوا کر لیا اور خُوب پھینٹی لگائی۔ مَیں نے گھر آکر والدہ سے کہا’’ صحافت اچھا پیشہ نہیں، اس میں بڑی مار پڑتی ہے۔ والد صاحب ٹھیک کہتے تھے۔‘‘ والدہ نے کہا’’ سچّی بات تو یہی ہے، مگر مار کھا کر صحافت چھوڑنی تھی، تو پھر اس طرف آئے کیوں تھے؟ اب اگر آ گئے ہو، تو پھر اسے چھوڑنا نہیں۔‘‘

س:میر صاحب! سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ، آپ کی شخصیت متنازع بھی رہی، کوئی آپ کو ایجنسیز کا بندہ کہتا ہے، تو کوئی انڈین ایجنٹ۔ یعنی جتنے مُنہ اتنی باتیں، آپ اصل میں ہیں کیا ؟

ج:دیکھیں جی! باتیں کرنے والوں کو تو کوئی روک نہیں سکتا۔ 1990ء میں جب پہلی مرتبہ ایک انٹیلی جنس ایجینسی نے مجھے اغوا کیا، تو اُنہوں نے کہا’’ تم ’’را‘‘کے ایجنٹ ہو۔‘‘ 1994ء میں، مَیں نے اسرائیلی وزیر خارجہ کا انٹرویو کیا، تو مجھے موساد کا ایجنٹ کہا گیا اور مجھے پِھر اٹھا لیا گیا۔ 1995ء میں جب مَیں نے کولمبیا میں بھارتی وزیرِ اعظم، نرسمہا رائو کا انٹرویو کیا، تو مجھ پر’’را‘‘ کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ 1997ء میں اُسامہ کا انٹرویو کیا، تو مجھے القاعدہ کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ اصل میں پروفیشنل جیلسی کے مارے لوگ مجھے کبھی موساد کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی سی آئی اے کے، لیکن لوگوں کو پتا ہے کہ مَیں صرف عوام کا ایجنٹ ہوں۔ مجھے سب سے زیادہ پاکستان کا مفاد عزیز ہے اور مَیں علّامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی آئیڈیالوجی پر یقین رکھتا ہوں۔

س: لبوں پر کیا دُعا رہتی ہے؟

ج:یہی کہ سب کا بھلا، سب کی خیر!

س:پاکستان اِس وقت اپنی سیاسی تاریخ کے انتہائی سنگین موڑ پر کھڑا دِکھائی دیتا ہے۔ ایک غیر یقینی اور عجیب سی کیفیت ہے، شاید ایسے حالات پہلے کبھی نہ ہوئے ہوں، آپ مُلک کا سیاسی منظرنامہ کیسا دیکھتے ہیں؟

ج: اب ایسی بھی کوئی بات نہیں، پاکستان اس سے بھی زیادہ خطرناک اور سنگین حالات سے گزرا ہے، لیکن موجودہ حالات کے بارے میں میرا مختصر تبصرہ یہ ہے کہ اگر 1973ء کا آئین برقرار رہتا ہے اور پارلیمانی نظام چلتا رہتا ہے، تو ان شاء اللہ ہم بہت سے مسائل سے نجات پالیں گے۔ لیکن اگر خدا نہ خواستہ پارلیمانی نظام کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی یا آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی، تو 1971ء سے بھی زیادہ بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔

س:موجودہ حکومت چلتی نظر آتی ہے ؟

ج: میرا خیال ہے، یہ جیسی بھی ہے، اسے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں، کیوں کہ اگر اسے غیر آئینی طور پر یا زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی، تو بہت زیادہ انتشار پھیلے گا۔ یقیناً اس حکومت کو ہٹانے کے لیے آئین میں بہت سے راستے موجود ہیں، لیکن مَیں سمجھتا ہوں، اس حکومت کو ہٹا کر جو بھی حکومت آئے گی، اُسے بھی اِسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ، مُلکی معیشت کا ہے، بہتر ہے حکومت اور اپوزیشن مل کر معیشت بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے، تو حالات مزید خراب ہوں گے۔

س:معاشی حالات پی ٹی آئی سے سنبھالے نہیں جا رہے۔ کیا اس کے مشیر، وزیر نااہل ہیں یا یہ لوگ ذہنی طور پر حکومت کے لیے تیار ہی نہیں تھے؟ بعض معروف اینکر پرسنز یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یحییٰ خان کے بعد موجودہ حکومت کا دَور بدترین ہے۔

ج:نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ یقیناً ان سے حالات سنبھالے نہیں جا رہے، کچھ اس میں ان کی نالائقیوں کا بھی عمل دخل ہے، لیکن موجودہ حالات کی ذمّے دار ماضی کی حکومتیں بھی ہیں۔ میرے نزدیک ہر حکومت نے اس مُلک کی تباہی میں اپناحصّہ ڈالا۔

س:کرپشن اور لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری مُلک کا بڑا مسئلہ ہے، لیکن فی الحال تو کچھوے کی چال کی سی کیفیت ہے، لگتا نہیں کچھ واپس مل پائے گا؟

ج:مَیں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ کرپشن مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ، آئین کی بالادستی ہے۔ اگر یہ ہوجائے، تو آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، ہمارے تمام مسائل کا حل 1973ء کے آئین میں موجود ہے۔ پھر آپ جب کرپشن کی بات کرتے ہیں، تو سیاست دانوں کی بات کرتے ہیں، جب کہ غیر سیاست دان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ پرویز مشرف کے اکائونٹ میں اربوں روپے ہیں، ان سے تو نیب نہیں پوچھتا کہ یہ کہاں سے آئے؟ صرف زرداری اور نواز شریف سے کیوں؟

س :پاکستانی عوام 60-70سال سے غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صاف پانی، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کے حوالے سے ہمارا مقابلہ افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ پاکستانی عوام کے دن کبھی بدلیں گے؟

ج:پاکستانی عوام کے دن اُس وقت بدلیں گے، جب وہ خود اپنے آپ کو بدلیں گے۔ کوئی باہر سے آکر ان کی حالت نہیں بدلے گا۔ آپ خود سوچیں جھوٹ، فریب، ملاوٹ، بددیانتی، رشوت، ذخیرہ اندوزی، منافقت ہماری رگوں میں خون کی طرح سرایت کر گئی ہے۔ ہم خود تو برائیوں میں لتھڑے ہوں اور پھر سوچیں کہ باہر سے آکر کوئی ہماری حالت بدل دے گا، یہ تو ممکن نہیں۔

س:آپ کے نزدیک مُلکی تاریخ میں وہ کون سا غلط موڑ تھا، جس نے پاکستان کو غلط راہ پر ڈال دیا؟

ج: 1958:ء میں پہلا مارشل لاء لگا، وہ پاکستان کی تاریخ کا تباہ کُن دور تھا۔ 1956ء میں آپ کو پارلیمانی جمہوری آئین مل گیا تھا، جو بڑے اچھے طریقے سے چل بھی رہا تھا ۔مشرقی اور مغربی پاکستان ایک مُلک تھے۔ ستمبر 1958ء میں فیروز خان نون کی حکومت نے گوادر کو پاکستان کا حصّہ بنایا۔ یہ پاکستان کی ایک کم زور سویلین حکومت کا کارنامہ تھا، لیکن ایک ماہ بعد اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1962ء میں ایک صدارتی آئین نافذ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور پاکستان توڑنے کی بنیاد رکھ دی گئی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

س:ذمّے دار کون ہے؟ سیاست دان، بیوروکریسی یا کوئی اور؟

ج:مَیں سمجھتا ہوں، پاکستان کو تباہ کرنے میں آمریت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان آمروں کو ہمیشہ امریکا نے مدد فراہم کی۔ کہتے ہیں، ایوب خان کے دَور میں مُلک نے بڑی ترقّی کی، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اُسی دَور میں بڈھ بیر کا فوجی اڈّا امریکا کے حوالے کیا گیا، جہاں سے سویت یونین کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ حکومت نے پاکستان کو سیٹو، سینٹو میں بھی گُھسا دیا، بعد میں ضیاء الحق کے دَور میں پاکستان، امریکا کی پراکسی وار لڑتا رہا۔ مشرّف کے دَور میں نیٹو الائنس کی بنیاد رکھی گئی، مشرف نے بھی پاکستان کے فوجی اڈّے امریکا کے حوالے کر دیئے، اگر کوئی سیاست دان ایسا کرتا، تو اُسے غدّار قرار دے دیا جاتا، لیکن آمر پاکستانیوں کا سودا کرتے رہے اور اُن کا آج تک کوئی احتساب نہیں ہوا، لیکن مَیں اُن سیاست دانوں کو بھی بری الذّمہ قرار نہیں دیتا، جو ان ڈکٹیٹرز کی حکومتوں میں شامل رہے۔ ایک زمانے میں نواز شریف بھی ایسی حکومت میں شامل تھے اور عمران خان نے بھی جنرل پرویز مشرّف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی ۔

س:الیکشن کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کچھ بہتری دیکھ رہے ہیں؟

ج:بی جے پی آئے یا کانگریس، دونوں نے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت نہیں دینا اور جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو، دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان کو کشمیریوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیے ۔

س:سوشل میڈیا سے متعلق کیا رائے ہے، یہ کچھ زیادہ آزاد نہیں ہو گیا؟

ج:سوشل میڈیا ایک گٹر ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اپنی مجروح اَنا کی تسکین کرتے ہیں،اس لیے مَیں اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے