ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی علیہ الرحمۃ کی شہادت

دس برس بیت گئے

12جون 2019ء بطل حریت ،مجاہد اسلام،اسیر ناموس رسالت ،ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی علیہ الرحمہ کی شہادت کو پورے دس برس بیت گئے ہیں ۔ یہ سال کتنی تیزی سے گزرے لیکن ان کی گفتار،ان کا کردار،ان کی دلربا مسکراہٹ ان کی پروقار چال حتٰی کہ ان کی ہر ہر ادا آج بھی بند آنکھوں کے پیچھے متجسم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ذرا آنکھیں بند کیجئے اور تصور کیجئے کہ کوئی آپ کو ’’ ارے کاکا ‘‘،’’ بچہ لوگ‘‘اور مولانا کہہ کر مخاطب کر رہا ہے تو فوراً آنکھوں کے سامنے روشنی کے ھیولے میں سفید لباس میں ملبوس ان کی ہی شخصیت متجسم ہوتی ہوئی نظر آئے گی ۔ اور یہی ان کی شخصیت کا پرتو ہے جو ابھی بھی ہمارے ساتھ موجود ہے ۔ کتنی جلدی دس سال گزرگئے ۔ ذرا سوچئیے کہ آج سے دس سال دودن قبل ایوان اقبال لاہور میں ’’استحکام پاکستان کنونشن ‘‘ کے کامیاب انعقاد پرکتنے پر مسرت تھے ۔

تحفظ ناموس رسالت کے لیے جیل جانے پر کس قدر دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ’’وکٹری ‘‘ کا نشان بنایا تھا ۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں فیصلہ کے دن دیگر ساتھی کتنے متوشش اور پریشان کھڑے تھے جبکہ آپ کتنے مطمئن اور پر سکون تھے جیسے سب کچھ آپ کے اختیار میں تھا ۔

آ پ کی ابتدائی تعلیم حفظ ،تجوید وقراَت سے شروع ہوئی ۔ میٹرک علامہ اقبال ہائی سکول گڑھی شاہو لاہور سے کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی ،ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کے امتحانات پاس کیے ۔ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ سے ہی درس نظامی کی سند فراغت حاصل کی ۔ علماء اکیڈمی اوقاف پنجاب سے التخصص فی العلوم العربیہ والاسلامیہ کی ڈگری حاصل کی اور جامعۃ الازہر(مصر) سے الشہادۃ فی الدعوہ حاصل کی ۔

آپ;231; کا انداز تربیت مثالی تھا ۔ آپ کوئی کام کہتے نہیں تھے ۔ پہلے کام خود کرتے تھے ۔ کئی بار اےسا ہوا کہ جامعہ مےں مختلف کاغذات بکھرے ہوئے یا جوتے بے ترتیب پڑے ہوتے، آپ کاغذات خود اٹھانے شروع کردےتے یا جوتے خود درست کرنے شروع کردیتے ۔ جس سے طلباء کو احساس ہوتا کہ جو کام ہمارا کرنے والا تھا وہ ہمارے استاد کر رہے ہیں ۔ تو پھر تمام طلباء خود صفائی میں جُت جاتے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آپ کو دیگر ناظمین اور سجادہ ہائے نشینان سے ممتاز کرتا ہے ۔ کہنے کو تو یہ بات بہت آسان ہے کہ ناظم اعلیٰ جامعہ نے اپنے طلباء کے جوتے سیدھے کردیے لیکن کرنے کو بہت مشکل ہے ۔ اور یہ عمل کوئی ایک بار نہیں ہوا، بلکہ آپ اکثر طلبہ کی تربیت کیلئے ایسا کیا کرتے تھے ۔

قبلہ والدگرامی نے دادا جان مفتی محمد حسین نعیمی علیہ الرحمہ کی علمی وراثت کو صحیح نہج پر چلتے ہوئے نہ صرف اگلی نسلوں کو منتقل کیا بلکہ اس میں بہت سارے اضافے بھی کیے ۔ بحیثیت ناظم اعلیٰ انہوں نے جامعہ کی کئی شاخیں قائم کیں اور شاخوں اور مرکزی کیمپس میں ایک مربوط نظم قائم کیا ۔ لائبریری کے لئے ہزاروں نئی کتابیں اور انساءکلوپیڈیا خریدے گئے ۔

آپ جب مسند تدریس پر بیٹھے تو مراشیس کے مولانا شمیم خدادین ،مولانا نورانی ،مولانا فارزمہر علی،جنوبی افریقہ کے مولانا عبدالواحد مرحوم،مولانا سلیم عبدالوہاب ،مولانا فرہاد ،مولانا شیراز ٹوکٹ ،پاکستان کے مولانا سلیمان قادری،مولانا مفتی ڈاکٹرمحمد حسیب ،مولانا اکرم جاوید ،مولانا مختار حبیبی ،مولانا مختار ندیم،قاضی قاسم بلوچ،مولانا ڈاکٹر مفتی کریم خان ، مولانا مفتی محمد عمران ،مولا ناپیر سید اجمل گیلانی(مرحوم) ،مولانا پروفیسر محمد وارث علی شاہین ، مولانا پروفیسر ظفر اقبال ، مولانا مفتی قیصر شہزاد نعیمی ، مولانا مفتی محمد ابوبکر اعوان ایڈووکیٹ ، مولانا حماد انور ،مولانا شہزاد مسعود ، مولانا ضیاء الحق نقشبندی ،مولانا فاروق امیر ، مولانا محمد ارشد جاوید راقم الحروف اور سینکڑوں آپ سے اکتساب فیض اورعلم دین کے لعل وجواہرات اپنے دامن میں سمیٹتے نظر آتے ہیں ۔ آپ نے کتنے ہی زروں کو مہتاب کر دیا ۔

یہ وہی ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی تھے جنہوں نے کنونشن سنٹر میں کامیاب ’’ تنظیم المدارس کنونشن‘‘ کروا کے اغیار کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ 5سال کے مختصر عرصہ میں ’’ تنظیم المدار س‘‘ کو ایک کمرہ سے نکا ل کر 4منزلہ ’’ تنظیم المدارس کمپلیکس ‘‘ میں پہنچایا نیز سات سال کے عرصہ میں ملحقہ مدارس کی تعداد 1450سے بڑھا کر 6400تک پہنچا دی۔

تاجدار کائنات فخر موجودات ﷺ سے محبت ہر شخص کے ایمان کا حصہ ہے اور قبلہ والد گرامی کو مالک ارض و سما جل جلالہ کے کرم سے یہ حظّ وافر نصیب تھا ۔ ناموس رسول ﷺ کی جب بھی بات ہوتی تو وہ پروانہ وار تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لیے سر شار ہوتے ۔ اس کھٹن راستے میں انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جانا پڑاتو انہوں نے مسکرا کر ان سلاخوں کو بھی گلے لگا لیا ۔ علم ناموس رسالت ﷺ اوراسلام کی بقا کو جس طریقے سے والد گرا می نے بلند کیا کوئی اوراس مقام تک نہ پہنچ پایا ۔ c 295-;کامسئلہ کہ مشرف کا ’’ غیر ملکی آقاؤں ‘‘ کو خوش کرنے کے لیے اس میں تبدیلی کا عندیہ کیا دینا تھا کہ آپ نے اتنی سرعت کے ساتھ احتجاجی لائحہ عمل مرتب کیا اور عمل کرکے دیکھایا کہ ملک واپسی پر فرعونیت سے بھرے اسی ڈکٹیٹر کواس 295-c میں تبدیلی کے معاملہ کو واپس لینا پڑا ۔ مادر پدر آزاد ممالک کی طرف سے توہین آمیز خاکے چھاپنے کا مسئلہ ہوا تو آپ ہی کے زیر قیادت تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام 14فروری 2006ء کو عظیم الشان ریلی کا اہتمام کیا گیا کہ جسے لاہور کی تاریخی ریلی قرار دیا گیا ۔ مگر غیر ملکی آقاؤوں کے ’’نمائندوں ‘‘نے اس ریلی کو سبوتاژ کر دیا ۔

آپ کی شدید خواہش تھی کہ ملک پاکستان میں موجود اہلسنت کا ایک ایک فرد،ایک ایک کارکن اور ایک ایک راہنماء آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ۔ کتنی ہی کوششیں اور کاوشیں آپ نے اس سلسلہ میں کیں ۔ آپ کی سعی جمیلہ کسی حد تک ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کی صورت میں متشکل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ لیکن ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ پارٹیاں بنانے والوں کی حال یہ ہے کہ جب انہیں احباب اکٹھا کرنے کا کہا جائے تو شاید ایک تانگہ کی بھی سواریاں اکٹھی نہ کر سکیں ۔ اہلسنت کو اب راہنماءوں کی فوج ظفر موج کی ضرورت نہ ہے بلکہ کارکنوں کی ضرورت ہے جوکہ صحیح معنوں میں اہلسنت کی بقا کے ضامن ہو سکیں ۔

قبلہ والد گرامی شدت سے اس امر کو محسوس کر رہے تھے کہ دہشت گرد طالبا ن کے بھیس میں غلط بیانیہ کے ذریعے نہ صرف غیر اسلامی نظریات کو پھیلا رہے ہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اور زمینی سرحدوں کی پامالی بھی کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ملک کے طول وعرض میں خود کش دھماکوں کے ذریعے ہزاروں افراد کو شہید کر دیا ۔ ان طالبان نے اہلسنت مکتبہ فکر پر ظلم کی انتہا کر دی ۔ سوات اور دیگر اضلاع میں اہلسنت وجماعت سے تعلق رکھنے والے فوت شدہ پیران عظام اور علماء کے اجساد خاکی مزارات سے نکال کر چوکوں میں لٹکا دیئے ۔ حکومتی انتظامیہ ، پولیس اور افواج پاکستان پر مسلسل ہونے والے حملے پریشان کن تھے ۔ حکومت بھی ان کے بارے گو مگو کی کیفیت کا شکار تھی ۔ ابھی تک ان کے بارے کھل کر آپریشن کرنے کا نہیں سوچا گیا حتی کہ ان پر گولی چلاتے ہوئے فوجی شک کا شکار رہتے کہ کہیں میں اپنے ہی ملک کے باشندے پر گولی نہیں چلا رہے ۔

ان حالات میں ان طالبان کے خلاف نہ کوئی تحریر سامنے آرہی تھی اور نہ کسی کی تقریر ۔ قبلہ والد گرامی علیہ الرحمہ نے 2008ء میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ دینی اور دینی سیاسی راہنماؤں سے ملاقات کر کے انہیں طالبان کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کیلئے آمادہ کیا ۔ اس سلسلے میں 14اکتوبر2008ء دارالعلوم جامعہ نعیمیہ ،لاہور میں تمام مسالک کی نمائندہ علماء کرام اور سیاسی زعماء کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں متفقہ اور مشترکہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ہونے والے خود کش حملوں کو حرام قرار دینے جانے کا فتوی جاری کیا گیا ۔ اس کے بعدآپ مسلسل طالبان کو ظالمان کہتے رہے اور ان کے غلط بیانیہ کا رد کرتے ہوئے اسلام کا صحیح بیانیہ پیش کرتے رہے ۔

آپ کا دیا گیا یہ بیانیہ’’پیغام پاکستان‘‘کی بنیاد بنا اور آج ملک میں امن وامان کے قیام کیلئے ریاست کا پیش کردہ بیانیہ ’’پیغام پاکستان ‘‘اپنانے اوراس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آپ نے پورے ملک کا مسلسل سفر کیا اور علماء ، سول سوساءٹی اور پیران عظام کو’’ استحکام پاکستان ‘‘کیلئے متحد کیا ۔ آپ نے بیسیوں ریلیاں نکالیں ،سینکڑوں میٹنگز کیں اور 10جون2009ء ایوان اقبال کمپلیکس میں ’’استحکام پاکستان کنونشن‘‘ کا انعقاد کیا جس میں ملک کے طول وعرض سے 2000سے زائد علماء ومشاءخ عظام شریک ہوئے اور طالبان کے خلاف بیانیے کو تقویت دی ۔ طالبان نے انہیں اپنے راستے کی دیوار سمجھتے ہوئے 12جون 2009ء برو ز جمعۃ المبارک بعد از نماز جمعہ ان کے دفتر میں خود کش بمبار کے ذریعے شہید کروا دیا اور اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ۔

مجاہد اسلام اور اسیر ناموس رسالت ڈاکٹر محمدسرفراز نعیمی علیہ الرحمہ کو شہادت سے ایک طرف حیات جاودانی ملی تو دوسری طرف حکومت پاکستان نے شجاعت کے میدان میں ان کے طالبان کے خلاف بے باکانہ انداز میں فتوی کے اجراء اور اس پر ڈتے ہوئے خود کش دھماکے میں شہادت کے قبول کرنے پر با لترتیب 2010ء میں ہلال شجاعت اور 2018ء میں ستارہ شجاعت کے اعزازات اور تمغات سے نوازا ۔

والد گرامی علیہ الرحمہ نے جس مشن کا آغاز کےاوہ مشن آپکی شہادت سے دشمن نے سوچاکہ ختم ہوجائے گا لےکن وہ مشن اسی تابانی کے ساتھ اسی چمک اورآب وتاب کےساتھ اسی لگن کے ساتھ ہم نے آگے بڑھایا ۔ معاملات کوفہم کےا اوردےکھاکہ ملک پاکستان کے لئے اسوقت کس چےز کی ضرورت ہے ۔ امن وامان کی ضرورت ہے ،سلامتی کی ضرورت ہے ، اپنے ذاتی نقصان کوبرداشت کرتے ہوئے ملک کوقوم وملت کوایک بڑے نقصان سے بچالیا۔

آپ کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ جہدمسلسل کرتے ہوئے تم نے اپناوقت گزاردیناہے کبھی بھی کم ہمتی کاشکارنہیں ہونا ۔ اپنے وسائل کے حوالے سے کسی کمی کی پرواہ نہیں کرنی تم نے گھبرانانہیں ہے ۔ تم جب منزل لے کرنکلوگے ،دین کے مقصد عظیم کی طرف چلوگے تواللہ تعالیٰ اوراسکارسول ﷺ تم پراس منزل کوآسان کردیں گے اوراپنی منزل مرادپالوگے ۔ یہ عظیم مدرسہ جوان بزرگوں کی امانت ہے یہاں پرعزم کرتے ہیں کہ جس چراغ کوڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ نے روشن کیاتھا ہم اسی چراغ کی روشنےوں کوآگے پھیلائیں گے اوراس چراغ کی ان تابانیوں کوپورے ملک کے طول وعرض میں پھیلاکر،روشن کر کے دم لیں گے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ والد گرامی علیہ الرحمہ اورجد امجدمفتی محمدحسین نعیمی علیہ الرحمہ کے بتائے ہوئے طریق ،انکے بتائے ہوئے راستے ان کے سمجھائے ہوئے اصول وضوابط پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے