ڈاکٹر انور سجاد

میں باوجود کوشش کے ڈاکٹر انور سجاد کے آخری دنوں میں اُن سے ملنے نہیں جا سکا کیونکہ اُن کی علالت اور اس سے پیدا شدہ حالت کی جو تصویر احباب کی زبانی بنتی تھی وہ بہت تکلیف دہ اورحوصلہ شکن تھی اس دوران میں اُن کے ایک دو ریڈیو انٹرویو اور کچھ بیانات بھی نظر سے گزرے جن سے حکومت اور معاشرے کی طرف سے کی جانے والی بے قدری کا تاثر مزید گہرا ہوگیا اورذہن بے ساختہ شیخ سعدی کے اس مصرعے کی طرف جانے لگا کہ

’’تفُوبَرتُو اے چرخِ گرداں تفُو‘‘

ڈاکٹر انور سجاد کا تعلق ہم سے پہلی نسل سے تھا مگر ساٹھ کی دہائی میں ہونے والی پہلی ملاقات سے لے کر چند ماہ قبل ہونے والی آخری ملاقات تک انھوں نے کبھی اس ’’جنریشن گیپ‘‘ کا ہلکا سا احساس بھی نہیں ہونے دیا ۔وہ بنیادی طور پر فکشن اور ڈرامے کے آدمی تھے مگر اُن کی نظر ہمیشہ ادب کے عمومی منظر نامے پر رہی، حلقہ اربابِ ذوق میں ہم اُس وقت کے نوجوان شاعروں کی جن دو نثر کے لوگوں نے سب سے زیادہ پذیرائی کی وہ ڈاکٹر عزیز الحق مرحوم اور ڈاکٹر انور سجاد ہی تھے۔مجھے یاد ہے جب میں نے نیا نیا ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھنا شروع کیا تو اُس میں بھی میری حوصلہ افزائی کرنے والوں میں ڈاکٹر انور سجاد پیش پیش تھے البتہ اُن کا داد دینے کا انداز بہت منفرد تھا کہنے لگے

’’یار! کبھی ہم نے بھی تمہارے چھابے میں ہاتھ ڈالا ہے؟‘‘

وہ غصے اور زبان دونوں کے تیز تھے عام طور پر ایسے لوگوں کی حسِ مزاح یک طرفہ ہوتی ہے یعنی وہ جملہ کہنے میں بہت جارح لیکن سینے میں بہت تنگ دل اور جذباتی ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر انور سجاد اس معاملے میں بھی ایک استثنیٰ تھے۔ وہ اپنے اوپر لگائی گئی جُگتوں یا تنقیدی جملہ نما جملوں کو خود اتنے مزے لے لے کر سناتے تھے کہ اُن کی خوش مزاجی پر رشک آنے لگتا تھا۔ اُس زمانے میں ہمارے افسانے اور ڈرامے دونوں میں غیر ملکی ادب سے استفادے کا رواج بہت عام تھا اور کبھی کبھی یہ بات براہ راست ترجمے یا بے نامی چربے کی شکل بھی اختیار کرجاتی تھی اس پس منظر میں اپنے مخصوص انداز میں اور زور سے ہنستے ہوئے اور کچھ دلچسپ گالیوں کو اپنی بات میں آمیز کرتے ہوئے بولے کہ میں نے ایک روسی کہانی Red haired girl سے ماخوذ ایک ڈرامہ لکھا جس کا نام ’’سرخ بالوں والی لڑکی‘‘ رکھا گیا۔ ریہرسل کے دوران اطہر شاہ خان اُدھر سے گزرا اور جھک کر میرے کان میں بولا’’سر جی نام تو بدل لینا تھا‘‘ اس طرح اُن کے افسانوی مجموعے ’’استعارے‘‘ کے حوالے سے ’’مستعارے‘‘ والا جملہ بھی میں نے خود اُن کے منہ سے سنا تھا۔

وہ معاصر عالمی، بالخصوص رُوسی اور علامتی افسانے سے بہت متاثر تھے اور یہ دونوں روّیئے اُن کے ابتدائی دور کے افسانوں میں بہت نمایاں بھی ہیں لیکن اُن کے اندر کا تخلیقی فن کار ہمیشہ نئے سے نئے راستوں اور موضوعات کا متلاشی رہا، بطور افسانہ اور ناول نگار وہ بھارت میں پاکستان سے بھی زیادہ مشہور اور مقبول تھے۔ آنجہانی بلراج مینرا سے میری جب بھی ملاقات ہوئی اُس میں زیادہ تر تذکرہ ڈاکٹر انور سجاد کا ہی رہا کہ بلراج مینرا انھیں ساٹھ کی دہائی کے بعد اُردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار قرار دیتے تھے۔

ان کے افسانوں میں لاکھ علامتی انداز نمایاں اور غالب ہو مگر عام زندگی میں وہ عوامی حقوق ،آزادی اظہار اور ٹریڈ یونین ازم کے پرجوش حامی اور عملی قسم کے کارکن تھے، ان کا یہ روپ بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار میں کھل کر سامنے آیا۔ادیبوں اور فن کاروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اُس زمانے میں ’’آرٹسٹس ایکویٹی‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی جو بوجوہ زیادہ دیر قائم تو نہ رہ سکی مگر کچھ عرصے تک ادب و فن کی دنیا میں اس کا بہت چرچا رہا یوں تو بہت سے نمایاں لوگ اس میں پیش پیش تھے مگر جن دو دوستوں نے اس کی تشکیل اور تنظیم میں سب سے زیادہ کام کیا وہ میاں اعجاز الحسن اور ڈاکٹر انور سجاد ہی تھے۔ وطنِ عزیز کی پوری تاریخ میں ادب و فن کے حوالے سے ایسا جوش و جذبہ پھرکبھی نظر نہیں آیا۔

اُن کی زندگی اور مزاج دونوں اُس وقت ایک بحرانی دور سے گزرے جب انھوں نے ایک پارٹ ٹائم قسم کی ٹی وی ایکٹرس سے دوسری شادی کرلی یہ رشتہ بوجوہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا مگر اس کے اثرات ایسے تھے جن سے نکلنے میں اُن کی اُس عمر کا بیشتر حصہ گزر گیا جس میں وہ ادب اور ڈرامے دونوں کو بہت کچھ دے سکتے تھے ۔نہ صرف اُن کی طب کی پریکٹس چھوٹ گئی بلکہ وہ ایک بڑے چینل کی انتظامیہ سے منسلک ہونے کے باعث لاہور سے کراچی بھی منتقل ہوگئے جب کہ وہ مزاج کے اعتبار سے پکے لاہوریئے تھے۔ایوب خاور بھی اُن دنوں نہ صرف اُسی چینل میں تھا بلکہ اُس کا زیادہ تر واسطہ بھی ڈاکٹر انور سجاد ہی سے رہتا تھا اُس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اب وہ پہلے سے بہت بدل گئے ہیں اور اُن کی طبیعت بھی کچھ بہت زیادہ اچھی نہیں رہتی۔

یہ ساری باتیں اور اُن کی حالیہ بیماری اور معاشی مشکلات کے معاملات اپنی جگہ مگر ان سب کے باوجود جب مجھے ایکسپریس ٹریبیون کے نمایندے نے فون پر بتایا کہ کچھ دیر قبل اُن کا انتقال ہوگیا ہے تو یکدم پچاس برس پر پھیلی ہوئی اُن کی یادیں کسی البم کی طرح کھلتی چلی گئیں اور ذہن فوری طور پر ماننے کو تیار نہ ہوا کہ ایسا دبنگ ، زندہ دل اور زندگی سے بھرپور شخص اس قدر خاموشی سے بھی رخصت ہوسکتا ہے کہ کسی کو اُس کے جاتے ہوئے قدموں کی چاپ تک سنائی نہ دے۔

میں نے اپنے تاثرات ریکارڈ کرانے کے بعد بہت سے دوستوں سے رابطہ کیا کہ اُن کی رہائش گاہ یا جنازے کے وقت کا پتہ چل سکے لیکن ابھی تک کسی کو بھی یہ خبر ہی نہیں پہنچ پائی تھی، خیال تھا کہ کچھ دیر میں ٹی وی چینلز کے ذریعے مطلوبہ معلومات مل جائیں گی مگر وہاں بھی اُن کے انتقال کی مختصرخبر کے سوا کوئی اطلاع نہیں تھی۔ رات دس بجے کے قریب کسی نے بتایا کہ جنازہ بعد از نمازِ ظہر اُٹھایا جائے گا اور غالباً اُن کی رہائش گاہ EME سوسائٹی ہی میں ہے دونوں خبریں ہی غلط نکلیں نہ صرف یہ کہ نماز جنازہ صبح نو بجے ہوگئی بلکہ وہ اب رہتے بھی رائیونڈ روڈ پر کسی جگہ تھے۔ ایک بار پھر دل پر ہاتھ سا پڑا کہ جس شخص کی آواز پورے شہر میں گونجا کرتی تھی اُس کے جانے کا پتہ خود اُس کے قبیلے کے لوگوں کو بھی نہیں چلا ، پچھلے دنوں ایک مطلع ہوا تھا یوں لگ رہا ہے کہ شائد اس کا کوئی نامعلوم تعلق ڈاکٹر انور سجاد سے بھی تھا۔

پَل بھر کو بِھیڑ میں بِچھڑا تھا جو شخص وہ جانے کدھر گیا

جو ساری عمر میں جوڑا تھا اُسی اک لمحے میں بکھر گیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے