چین اور امریکہ میں جدید اسلحہ سازی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اکثر بحث و مباحثہ میںسنا گیا کہ چین تجارتی جنگ میں امریکہ کے مقابلے میںزیادہ نقصان اٹھائے گا‘ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ا مریکی انتظامیہ اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام دکھائی دی‘ جبکہ اس کے حریف چین نے ہر ناکامی سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امریکی ہتھیاروں جیسے؛ ٹوما ہاک میزائل‘ F-35 لڑاکا طیارے‘جدیدجنگی مشینیں اور کروز میزائل جو خالصتاً امریکہ تیار کرتا تھا‘ اب چین بھی ان کی تیاری میں مصروف عمل ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سمارٹ بموں اور طویل مدتی امریکی سپلائی کی بحالی کے بعد شام‘ ایران اور دوسری جگہوں پر امریکہ کے تنازعے میں ملوث ہونے سے کافی نقصان پہنچا‘جبکہ چین اپنا اعتماد بحال کرنے میں لگا ہوا ہے ۔مئی کے اختتام پربیجنگ کی طرف سے غیر ملکی زمین پر امریکی سپلائی کی مقدار کو کم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر چینی ریاستی میڈیا نے تجویزپیش کی کہ امریکی دفاعی نظام جو چین کے ٹیکنیکل مصنوعات استعمال کرتا ہے‘ ان مصنوعات پر پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے اقدامات ٹیلی مواصلات کی کمپنی ہواوے پرلگی ‘امریکی پابندیوں کو رد عمل ہو سکتا ہے۔ چین کے گلوبل ٹائمز میں ایک اداریہ میں کہاگیا کہ چین نے بعض تکنیکی کنٹرول کے ذریعہ امریکی سپلائی چین پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک غیر ملکی مبصر نے کہا کہ ”چین نے ہمارا نظام منظم طریقے سے بدل دیا ہے اور ممکنہ طور پر نتیجہ اچھا دکھائی نہیں دیتا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کے تمام اشارے موجود ہیں۔ دونوں ممالک کی جنگی سازوسامان اور صلاحیتوں میں واضح طور پر اضافہ بھی ہوا۔امریکہ نے چین کو ہمیشہ اپنے سب سے بڑے حریف کے طور پر دیکھا؛ اگر امریکہ تنازعات میں گھر کرآ منے سامنے آجاتا ہے تو چین اعلیٰ سطح پر ہتھیاروں کی فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے ۔

امریکی مبصر کے مطابق ؛دونوں ممالک مختلف تنازعات کا جامع حل تلاش کر لیتے ہیں ‘تو یقینا یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔دونوں ممالک جدید ترین جدید ٹیکنالوجی جیسے موبائل فونز‘ برقی کاریں اور قابل تجدید توانائی کے جدید آلات بنا رہے ہیںتو اپنے دفاع کے لیے کتنا جدید ہتھیار تیار کیے ہوئے ہوں گے ؟جاپان 2010ء اور 2011ء کی نمائش میں اپنے ہتھیار لایا۔نمائش میںبا آسانی موازنہ کیا گیا کہ چین باقی ممالک کی نسبت کس قدر جدید ٹیکنالوجی تیار کیے ہوئے ہے؟ پیداوار کے حجم کا تعین بھی کیا گیا۔سب سے اوپر والے درجے میںاعلیٰ طاقتور مقناطیسی ہتھیار آئے‘ جو سمارٹ بم اور کروز میزائل کے نظام میں اولین ترجیح ہوتے ہیں۔ ایجیس میزائل ٹریکنگ اور محفوظ مواصلات کے دیگر آلات بھی پہلی بار منظر عام پر لائے گئے ۔دیگر قیمتی مصنوعات بھی دیکھنے کو ملے جو دفاعی صنعت پر انحصار کے برابر ہیں۔

جن میں فیکٹریوں میں تیار کردہ جیٹ انجن درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعات اور مرکبات‘ اعلیٰ درجے کا ہدف بندی کا نظام‘ جدید ریڈار اور نظام یہاں تک کہ رات کو دیکھنے والے جدید قسم کے چشمے بھی دیکھنے کو ملے۔

پینٹاگون نے کئی سال سے دفاعی صنعتی مصنوعات میں اضافہ کیا۔ غیر معمولی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کئے‘جس سے اس کی اہمیت اوردفاعی گراف بھی بڑھا۔دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی دیکھا گیا‘ مگر اسے چھوٹی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ۔اس کے برعکس چین کی غیر معمولی دھاتوںاور جنگی سازوسامان میں غیر معمولی اضافہ ہو‘ لیکن چین تمام تر پروپیگنڈوں کے با وجوددفاعی صنعت میں اپنا الگ مقام رکھتا ہے۔ چینی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی کوئی واضح تعریف نہیں کی جا سکتی‘ تاہم ان کا نظام اپنی مثال آپ ہے ۔کیے گئے اقدامات اس کی قومی سلامتی کے لئے اہم ہیں۔ پینٹاگون کی جانب سے 2018ء کے جائزے میں اسائٹ ہاؤس کی طرف سے رپورٹ جاری کی گئی‘ جس میں چین پر الزام لگایا ہے کہ چین نے دفاعی صنعتی کو تقویت دیتے ہوئے معدنیات کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہا ہے۔

رپورٹ میںخاص طور پر خبردار کیا گیا کہ چین صرف گولیوں اور میزائلوں میں استعمال ہونے والے اہم مواد کا واحد ذریعہ یا بنیادی سپلائر بن چکا ۔ مثال کے طور پر امریکہ میں نووڈیمیم آئن بورون مستقل مقناطیس بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی میں ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ آج تقریباً چین سب کچھ بنا رہاہے اور امریکہ میں کچھ بھی تیار نہیں ہو رہا۔بہت سے معاملات اور دیگر مصنوعات قابلِ ذکر ہیں‘ جن کی چین بڑے پیمانے پر تیاری کر رہا ہے۔ رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ چین امریکی قومی سلامتی کو سٹریٹجک اور اہم سمجھا جاتا ہے۔ مواد اور ٹیکنالوجی کی فراہمی نئے آنے والے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ بیجنگ کے ساتھ واشنگٹن کی تجارتی جنگ کے طور پر اس نے ممکنہ قومی سلامتی کے خطرات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

سابق امریکی دفاعی حکام نے زور دیا کہ ممکنہ خطرے سے متعلق برسوں کے باوجود یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکہ ابھی تک کس راہ پر چل رہا ہے؟ سٹریٹجک اور بین الاقوامی مطالعہ برائے دفاع اور صنعتی ایسوسی ایشن ڈائریکٹر اینڈریو ہنٹر نے کہا کہ ”جدید دور میں دفاعی ایپلی کیشنز انتہائی اہم ہیں اور ان کی فعالیت پسندوں کے لئے کوئی آسان متبادل نہیں ‘لہٰذا ہمیںان کی ضرورت ہے‘‘۔ ایک سابق سینئر پینٹاگون کے اہلکارکا دعویٰ بھی سننے کو ملا کہ اگر ہم غیر معمولی زمین سے کٹ گئے تو یہ دفاعی صنعتی بنیاد پر ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔سابق پینٹاگون کے ساتھی گریگ گرانٹ نے غیر ملکی میڈیا کو بتایاکہ چین کے اپنے ”فوجی تکنیکی آفسی‘‘ نئے امریکی سیکورٹی کے نظام کے مراکز پر مطالعہ کر رہے ہیں۔

1960ء سے 1980ء کے عشرے تک امریکہ نادر زمینوں کی کان کنی اور پروسیسنگ دونوں پر حاوی رہا‘لیکن جلد اس میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پینٹاگون بہت سااہم مواد اور نادر زمینوں کا ذخیرہ رکھتا ہے‘ لیکن زیادہ سے زیادہ خام یا درمیانی شکل میںموجود ہے ۔دفاعی پلیٹ فارم اصل ضرورت بن چکا اور اس سے وہ کافی سارا زرمبادلہ بھی کما رہا ہے ۔

ٹرمپ انتظامیہ اور بہت سارے قانون ساز ادارے گھریلو نادر زمین کی کان کنی کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں ۔حال ہی میں درآمد شدہ منرلز پر انحصارکے حوالے سے امریکی رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے