کون پاکستانی نوجوانوں کو انتہا پسند بناتا ہے ۔

نوجوان بلاگر بلال کے قتل کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا اس نوجوان کو اس کے انتہا پسند نظریات کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے زریعے قتل کیا گیا ہے ۔نوجوان کے والد نے جو ایف آر درج کرائی ہے اس کے مطابق بلال کھانے کھانے کی تیاری کر رہا تھا فون کال آئی ۔ مخاطب بلال کو بلا رہا تھا اور وہ کھانا کھانے کی مہلت طلب کر رہا تھا اور پھر کھانا کھائے بغیر اپنے چچا کے ساتھ موٹر سائیکل پر چلا گیا ۔ اس کا مطلب ہےبلال اور فون کرنے والا دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے ۔زخمی چچا کا بیان ہے وہ جی نائین کے علاقہ میں پہنچے جہاں ایک نوجوان لڑکا ملا وہ بلال سے گلے ملا اور انہیں ساتھ لے کر وہاں موجود مسجد کے سامنے فٹ پاتھ پر چل پڑا ۔

تھوڑی دور اچانک جھاڑیوں سے خنجر بکف چند لوگ نکلے جنہوں نے حملہ کر دیاان کا نشانہ صرف بلال تھا چھڑانے اور بچانے کی کوشش میں چچا بھی زخمی ہوا ۔بلال زخمی حالت میں مسجد کی طرف بھاگا اور وہاں موجود نمازیوں کو پولیس کو فون کرنے کی درخواست کی اور پھر زخمی حالت میں دوبارہ چچا کو دیکھنے حملہ آوروں کی طرف چلا گیا ۔اس مرتبہ زخموں سے چور بلال کو حملہ آوروں نے خنجروں سے مزید زخمی کیا اور فرار ہو گئے اور زخمی بلال دل پر لگنے والے زخم کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیھٹا ۔

یہ والد اور زخمی چچا کا بیان اور ایف ائی ار کے مندرجات ہیں ،ہم نے تین چار گھنٹے بلال کے سوشل میڈیا اکاونٹ کا جائزہ لیا ہے ۔مشعال خان کے قتل کے متعلق بلال خان کو نکتہ نظر وہی تھا جو قاتلوں کا تھا ،گورنر پنجاب کے قتل پر بھی بلال خان کا نکتہ نظر وہی تھا جو قاتل کا تھا اور تو اور خطیب نامی نوجوان جس نے اپنے پروفیسر کو خنجر کے وار سے قتل کر دیا تھا وہ بھی بلال خان کا ہیرو تھا ۔نوجوان بلال کے اکاونٹ کو جانچیں گورنر پنجاب سلمان تاثیر ،مشعال خان اور پروفیسر کے قتل کے جواز دیتا نظر آتا ہے اور کسی مخالف نظریے والے نے بلال خان کو بھی قتل کر دیا ہے اور اس کے قتل کا جواز بھی قاتلوں کے پاس اسی طرح موجود ہے جس طرح بلال خان کے پاس موجود تھا ۔

بلال خان کم عمر تھا ،قدرت سے جو زہانت اسے ملی اگر یہ نوجوان کسی امریکی یونیورسٹی میں ہوتا تو معاشرے کا ہیرو ہوتا اور شاندار زندگی کا مالک بنتا لیکن یہ نوجوان پاکستان میں پیدا ہوا اور اس کی زہانت قران پاک کو حفظ کرنے اور ایک مخصوص نکتہ نظر کی اسلامی کتابیں پڑھنے اور انہیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے پر صرف ہو گئی ۔انگلش لٹریچر کے طالبعلم خطیب کو اگر ایک مخصوص ماحول نہ ملتا اور اس کے کچے دل و دماغ کو مولوی خادم حسین کے نظریات سے تحفظ ملتا تو وہ اپنے پروفیسر کی جان نہ لیتا بلکہ شائد حسن اور جمال پرستی کے شاعر کیسٹس پر پی ایچ ڈی کرتا لیکن دونوں نوجوان ہی نہیں نہ جانے مدارس میں پڑھنے والے اور کالجوں اور جامعات کے کتنے طالبعلم اس آگ کا ایندھن بن جاتے ہیں جو مخصوص مقاصد کیلئے کسی اور نے لگائی تھی۔

جنرل ضیا الحق سے پہلے پاکستان معاشرہ انتہا پسند نہیں تھا یہاں غیر ملکی سیاح بھی آتے تھے اور پنجاب سے طالبات کی بسیں سیاحتی ٹورز پر پشاور کی باڑہ مارکیٹ میں بھی جاتی تھیں ۔میری اہلیہ اپنے کالج کے زمانے میں کالج ٹور پر باڑا مارکیٹ گئی تھی اور آج چالیس سال کے اس سفر میں ہم وہاں پہنچ گئے ہیں ،لڑکوں کا کالج ٹور باڑا مارکیٹ پشاور نہیں جا سکتا ۔ مذہبی تنظیمیں کن افسران نے کن مقاصد کیلئے بنائیں اور 2018 میں مولوی خادم حیسن کو کن افسران نے طاقت فراہم کی یہ وہی مخصوص سوچ ہے جو جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پیدا کی گئی ۔اس وقت اس کا جواز فراہم کیا جا سکتا تھا روسیوں کو روکنا مقصود تھا اور صرف جذبہ جہاد کے زریعے ہی افغانستان کی آگ کیلئے ایندھن فراہم کیا جا سکتا تھا ۔

امریکیوں کے افغانستان پر حملہ کے دوران بھی مذہبی انتہا پسندی کو بطور ایندھن افغانستان کی آگ میں استمال کرنے کا جواز دیا جا سکتا ۔ گزشتہ سال مذہبی انتہا پسندی کے جن کو دوبارہ سے طاقت فراہم کرنے کا جواز نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اب ہدف امریکہ یا روس نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر تلاش کیا گیا تھا ۔ پاکستان کو تحفظ دینے کیلئے اب مذہبی انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی ضرورت ہے ۔اس انتہا پسندی کا نشانہ امریکی بنیں یا روسی جواز دیا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی معاشرہ اس کا نشانہ بن جائے اس کا جواز نہیں دیا جا سکتا ۔

معاشرے کو احمق بنانا بند کر دیں ۔نوجوانوں کو خطیب حسین یا بلال خان بنانا بند کر دیں یہ نوجوان معاشرے کا اثاثہ ہیں انہیں مخصوص ماحول فراہم کرنے والے معاشرے کے نہیں اس ملک کے بھی دشمن ہیں ۔ دنیا تبدیل ہو رہی ہے ۔سیاحت کو فراغ دینا ہے تو ویزے کی پابندیاں ختم کرنے سے سیاح نہیں ائیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم کرنے سے سیاح ائیں گے ۔ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ۔ اب تک جو کچھ ہوا ہے اس کے نتایج پر تحقیق کی ضرورت نہیں سب کچھ سامنے ہے ۔پاکستانی معاشرہ تباہ ہو رہا ہے ۔دینی مدارس میں ہر سال جو مسلسل ہزاروں طالبعلم پیدا ہو رہے ہیں ان کے روزگار کیلئے کیا صرف نئی مسجد بنانا ہی کافی ہے کتنی مساجد بنائیں گے لاکھوں طالبعلم جنہیں مدارس سے تعلیم کی تکمیل کے بعد متبادل روزگار نہیں ملے گا وہ کیا کریں گے ۔کیا شعیہ کافر سنی کافر وہ کافر یہ کافر کہہ کر معاشرہ چلائیں گے؟

دینی مدارس کو قومی دھارے میں لائیں ،مذہبی لیڈر شپ سے بات کریں مدارس کے طابعلموں کو دنیا کے مروجہ علوم کی تعلیم بھی فراہم کریں تاکہ وہ بلال خان نہ بنیں بلکہ معاشرے کے کارآمد شہری بنیں ۔طاقتور لوگ اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم کیلئے بھیج دیتے ہیں اور انہیں ملازمیتیں بھی مغربی ملکوں میں مل جاتیں ہیں ۔مدارس میں پڑھنے والے غریب طالبعلم بھی ریاست کے بچے ہیں ریاست کے وسائل پر بھی ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی سیاستدان یا کسی افسر کے بیرون ملک پڑھنے والے بچے کا ہے ۔

ماضی کی پالیسوں کو تبدیل کرنے کا وقت ہے ۔معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی ختم کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ مغرب نے مذہب اور سیاست کو الگ الگ کر دیا اور چرچ کو لوگوں کی ذاتی زندگیوں تک محدود کر دیا کیا ہم اپنے معاشرے کو انتہا پسندی سے نجات نہیں دلا سکتے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے