والدین سے اپیل

کئی سال پہلے کی بات ہے میں ’’بیلی پور‘‘ والے گھر کی بالکنی میں کھڑا ہریالی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کبوتروں کی غٹرغوں موسیقی سن رہا تھا کہ میرے سامنے بیری کے درخت میں جنگ چھڑ گئی۔ کوا جھپٹ رہا تھا اور چڑیا سے بھی چھوٹا انتہائی چمکدار سیاہ پدی ٹائپ پرندہ اپنے سے کئی گنا بڑے کوے کے سامنے ڈٹا ہوا پینترے بدل بدل کر اس کا راستہ روک رہا تھا۔ کچھ دیر تو میں اس منظر سے محظوظ ہوتا رہا لیکن جب میں نے چھوٹے پرندے کو تھکتے دیکھا تو مالی سے کہا ’’بشارت! اس منحوس مردود کوے کا بندوبست کرو‘‘ کوا بھگا دیا گیا تو مالی نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ’’یہ روز کا تماشا ہے۔ کوا اس کے انڈے کھانا چاہتا ہے لیکن یہ چھوٹی سی جان ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتی ہے‘‘۔

اپنے بچوں کے لئے تو جانور اور پرندے بھی لڑنے مرنے پر تل جاتے ہیں، انسان تو پھر انسان ہے جو اولاد کے لئے جہنم تک میں جا گھستا ہے۔ بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے جنون میں لوگ جانے کیا کیا کچھ کر گزرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہی والدین اپنے بچوں کے لئے بدترین دشمن بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس بھیانک صورتحال کے دو پہلو ہیں۔ایک طرف ہم تیرہ، چودہ، پندرہ برس کے بچوں کو چنگ چی چلاتے دیکھتے ہیں۔ کبھی غور کریں ان کم سن لڑکوں کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوتیں لیکن یہ سواریوں سے لبالب بھری چنگ چیاں بھگائے پھرتے ہیں جنہیں دیکھ کر غصہ بھی آتا ہے، دل بھی بہت دکھتا ہے کہ حالات کا کیسا وحشیانہ جبر ہو گا کہ یہ بچے اتنے رسکی طریقہ سے رزق کمانے پر مجبور ہیں۔

ایسے بچوں کو کبھی غور سے دیکھیں کہ بوقت ضرورت بریک لگانے کے لئے پورے قد سے بریک پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پٹرول یا وقت بچانے کے لئے ون وے کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور انہیں دائیں بائیں کا کوئی ہوش نہیں ہوتا۔ تب ساحر یاد آتا ہے۔مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہےبھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی کتنے مجبور ہوتے ہوں گے وہ ماں باپ جو ان بچوں کو بزکشی کے میدانوں جیسی ان سڑکوں پر اتار دیتے ہیں۔ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو کیا ہوتا ہو گا؟ بلاول، حسن، حسین اور یہ بچے’’اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں‘‘اتنے بڑے جھوٹ کی کوئی نہ کوئی قیمت تو ضرور ہو گی اور شاید اک مدت سے ہم یہی قیمت چکا رہے ہیں لیکن اس صورتحال کا دوسرا پہلو، دوسرا جھوٹ اس سے بھی زیادہ خوفناک اور شرمناک ہے۔ یہ ہے متمول، آسودہ، خوشحال گھروں کے بچوں کی دنیا جن کے والدین محبت اور جہالت کے نام پر غیر ارادی طور پر اپنے بچوں سے انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔

جمہوریت کی مانند محبت بھی بہترین ’’انتقام‘‘ ہے۔اٹھارہ سال سے کم بارہ تا سترہ سال کے بیشمار بچے ہمیں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں سوار خود ڈرائیو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو ذرا سوچئے ان کے والدین کون ہیں؟ کیا ہیں؟ ان کا مائنڈ سیٹ کیسا ہے؟ بعض باپ ڈرائیونگ کے دوران چند سالہ بچے کو گود میں بٹھا کر سیٹرئنگ ان کے سپرد کر کے باقاعدہ دندیاں نکال رہے ہوتے ہیں تو بندہ سوچتا ہے کہ شرم نام کی کوئی چیز ان کے قریب سے بھی کیوں نہیں گزری؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے بچوں سے محبت ہونے کے باوجود نفرت ہے کہ نہ اپنوں کا خیال نہ پرائے بچوں کا۔ گزشتہ ڈیڑھ دو مہینوں کے دوران حادثوں میں ایسے کئی جواں سال ٹین ایجرز کی موت کا سنا جنہیں ابھی ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا ہی نہیں چاہئے تھا لیکن ان کے والدین نے انہیں ایسی شاہرائوں پر چڑھا دیا جہاں رفتار کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔

واقعی مال اور اولاد کسی امتحان سے کم نہیں، البتہ نوعیت ضرور بدل گئی ہے۔ میں جس بستی میں رہتا ہوں وہ ’’گیٹڈ‘‘ ہے، سکیورٹی بہت اعلیٰ، ہر کراسنگ پر چاروں طرف مناسب فاصلہ پر سپیڈ بریکرز بھی موجود لیکن انتظامیہ ان والدین کو لگام نہیں ڈال سکتی جو بارہ، چودہ، پندرہ، سترہ سال کے بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکل پکڑا کر کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔میرا اپنا بیٹا حاتم 18سے کچھ کم ہے اور اسے اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ 18کے بعد لائسنس ملنے پر 2 سال تک ’’بیلی پور‘‘ یا PCSIRتک محدود …اس کے بعد اذن عام حاتم کے سبھی دوست اپنی گاڑیوں پر آتے ہیں اور ڈرائیورز ہوں بھی تو خود چلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں انہیں دعائیں دیتا ہوں، انتہائی احتیاط کی تلقین کرتا ہوں کہ اس سے آگے میرا کچھ کہنا بنتا نہیں۔شروع شروع میں حاتم نے ’’پابندی‘‘ پر تھوڑی مزاحمت کی اور دلیل یہ دی کہ اگر میرے کلاس فیلوز اور بستی کے مجھ سے بھی چھوٹے لڑکوں کو ڈرائیونگ کی اجازت ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ محبت اور تفصیل ہی نہیں دلیل کے ساتھ سمجھایا کہ باقی والدین اور تمہارے باپ میں تھوڑا سا فرق ہے اور قانون کا احترام ہی انسان کی اصل پہچان ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ جب اردگرد ہر طرف ’’برپشم قلندر‘‘ ہو گا تو مجھ جیسے باپ کو بھی سمجھانے میں ذرا وقت لگے گا۔والدین سے اپیل ہے کہ اپنے اور پرائے بچوں پر شفقت فرمائیں۔ ڈرائیونگ کا شوق ہو تو کسی ’’بیلی پور‘‘ جیسی جگہ پر پورا کر لیں یا میری طرح صاحبزادے کو ’’ایکسپو‘‘ کے ساتھ کھلی جگہ پر لے جائیں، کوئی ڈرائیونگ سکول مل جائے تو اور بھی اچھا لیکن بچے کو وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ چھوٹ نہ دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے