چین کی بوتل بند پانی کی صنعت، ایشیا کا آبی مینار لوٹنے کے درپے

chinaتبت سکڑتے ہوئے برفانی تودوں کے باوجود یہ نظر میں رکھے بغیر کہ پانی کے قیمتی وسائل کے استحصال سے ہمسایہ ملکوں پر کیا اثرات ہونگے، خطے میں پانی کے بیشتر وسائل کو بوتل بند پانی کی شکل دینا چاہتا ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں کے دوران چین دنیا میں بوتل بند پانی کا سب سے بڑا صارف اور پانی کو بوتلوں میں بند کرنے والا ایک بڑا ملک بن چکا ہے۔ مگر تبت کا مثالی خالص شفاف پانی چین میں سالانہ تیار کیے جانے والے بوتل بند پانی کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔ حال ہی میں تبت کے آزاد خطے کی حکومت ایک دس سالہ منصوبہ سامنے لائی ہے جس کے تحت ماحولیاتی حوالے سے نازک ہمالیائی خطے کے گلیشیروں کا پانی بوتلوں میں بند کرنے کی صنعت کو بے تحاشا وسیع کیا جائے گا۔ ہدف یہ ہے کہ 2020 تک بوتل بند پانی کے حجم کو پچاس لاکھ مکعب میٹر تک لے جایا جائے۔ سنہاؤ اخباری ایجنسی کے مطابق تبت میں 2014 میں ایک لاکھ تریپن ہزار مکعب میٹر بوتل بند پانی تیار کیا گیا تھا یوں مذکورہ منصوبے پر عمل درآمد ایک بہت اونچی چھلانگ لگانے کے مترادف ہوگا۔ چین نے کلی طور پر پانچ کروڑ چھپن لاکھ مکعب میٹر بوتل بند پانی تیار کیا تھا اور اس منڈی کے وسیع ہوئے جانے کی توقع ہے۔

صدر شی جن پنگ کی خواہش کے مطابق ایک "ماحولیاتی تہذیب” کی تعمیر کے ضمن میں چین نے جنگلات اور قدرتی محفوظ خطوں کے استقرار کی خاطر بھی مستحکم پالیسیاں مرتب کی ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی خاطر چین کے عزم صمیم میں برفانی تودوں کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی شامل ہیں۔

مگر خطے میں بوتل بند پانی کی صنعت کا فروغ ان پالیسیوں سے کیونکر ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟ اگر بوتل بند پانی کا حجم بہت زیادہ ہوگا تو اس کا چین اور دریاؤں کی زیریں گذرگاہوں پر واقع ملکوں کے لیے کیا مطلب ہوگا؟۔ چنہائی تبت بلند میدان میں برفانی تودوں کا حجم پہلے ہی گذشتہ تین دہائیوں میں 15% سکڑ چکا ہے۔ بہت زیادہ خدشات کے پیش نظر حکومت اور سرمایہ کاروں کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اگر چین اپنے پانی کے وسائل کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور دریاؤں کے منابع کے گرد محفوظ خطوں میں ہر طرح کی استحصالی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا عزم رکھتا ہے تو جان لے کہ بوتل بند پانی کی صنعت سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی اور دیگر خطرات بہت زیادہ ہیں۔ چنہائی تبت بلند میدان نہ صرف چین بلکہ جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا کے لیے بھی پانی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ یہ خطہ ایشیا کے دس بڑے دریاؤں کے لیے پانی کا ذریعہ ہے۔ ان میں یانگسی اور زرد نام کے دریا آتے ہیں جو چین کے لیے دو معاشی پٹیوں کے لئے پانی کے دو بڑے ذرایع ہیں اور اسی طرح سرحد پار جانے والے لاسانگ (بالائی میکانگ)، نو (سالوین) اور یارلنگ زنگبو (برہم پترا) نام کے دریا بھی۔

پانی کے یہ بالائی وسائل طویل المدتی خوشحالی کی خاطر محفوظ بنائے جانے چاہییں نہ کہ انہیں مختصر مدتی ترقی کے لیے لوٹ لیا جائے۔ چین کی قیادت آب و ہوا، پانی اور توانائی کی سلامتی کو متوازن بنائے جانے کے سخت انتخاب کو تسلیم کرتی ہے اور ان آبی منابع کی حفاظت کرنے کی ضرورت کو بھی۔ تاہم مقامی پالیسیاں ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ خطہ ان مقامات میں شامل ہے جہاں آب و ہوا میں تبدیلی بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ چین کی اکادمی برائے علوم کے مطابق گذشتہ تین عشروں میں چنہائی تبت بلند میدان کے گلیشیر 15% سکڑ چکے ہیں۔ تھوڑی مدت کے تناظر میں پگھلتے ہوئے گلیشیروں کا مطلب ہے کہ بوتلوں میں بند کرنے کی خاطر زیادہ پانی میسّر ہے مگر طویل مدتی تناظر میں دیکھا جائے تو دریا خشک ہو جائیں گے جس سے نچلے علاقوں پر تباہ کن اثرات ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے