خانہ جنگی کے آثار ۔

جمعہ کے روز پشاور میں عام لوگ معاشی بحران اور کاروبار کی تباہی کے خلاف سڑکوں پر نکل ائے ۔ابتدا میں چند درجن دوکاندار تھے دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ احتجاج میں شامل ہو گئے یہ بغیر کسی سیاسی جماعت اور مقامی راہنما کے احتجاج تھا ۔احتجاج کرنے والے لوگوں نے مہنگائی اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور دو تین گھنٹے کے بعد منتشر ہو گئے ۔یہ طوفان کے آثار ہیں اور ہم معیشت پر منعقدہ سمینار میں جواز دیتے ہیں ‘پہلے ناخوشگوار فیصلے نہیں کئے گئے اس لئے اب کرنا پڑھ رہے ہیں’ ۔ اگر لیڈر لیس ہنگامے شروع ہو گئے تو یقینی طور پر فوج اس پر قابو پا لے گی لیکن اگر اس کا دائرہ اثر ملک بھر میں پھیل گیا تو کیا پھر بھی فوج ان پر قابو پائے لے گی یہ بہت بڑا سوال ہے ۔

مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے عام لوگ خاص طور پر کاروباری طبقہ شدید مالی بحران کا شکار ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتوں کے حامیوں میں الگ سے سخت غصہ پایا جاتا ہے ۔ فوج اور عوام کا سامنا کسی صورت نہیں ہونا چاہیے اور ان حالات میں تو لیڈر لیس ہنگامے اور بھی خوفناک صورتحال پیدا کریں گے جب امریکی بہت پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہا پسندوں کے ہاتھوں جانے سے بچانے کے نام پر ایک خصوصی ڈیلٹا فورس بھی تشکیل دے چکے ہوں ۔

ہمارے پاس وقت کم ہے ۔ ضد اور انا کو چھوڑنا ہو گا ملکی سلامتی اور پاک فوج کو کسی مشکل سے بچانے کیلئے اقدامات فوری طور پر کرنا ہونگے ۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر یہ سمجھنا سب اچھا ہے یا سب ٹھیک ہو جائے گا خود کو اور ملک و قوم کو دھوکہ دینے کے برابر ہے ۔ یہ ملک سلامت رہے تو سب کچھ قابل برداشت ہے لیکن جو حالات چل رہے ہیں وہ پر گز اطمینا ن بخش نہیں۔ جیولرز نے اب لوگوں سے سونے کے زیورات خریدنے بند کر دئے ہیں انکی سکت ہی نہیں رہی ہر کوئی فروخت کرنے آ رہا ہے خریدار غائب ہیں۔

عوام کو اور کتنا گمراہ کریں گے بڑی صنعتوں میں شرح نمو منفی دو فیصد ہو گئی ہے جو چور اور ڈاکو نواز شریف کی حکومت میں ساڑھے چار فیصد پر پہنچ گئی تھی ۔صنعتی شعبہ میں شرح نمو منفی ہونے کا مطلب یہ ہے صنعتی عمل جمود کا شکار ہے اور صنعتی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ افراط زر کی شرح تیرہ فیصد ہو چکی ہے لیکن حقیقت مین مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں سے اب شرح سود 14 فیصد ہونے پر کوئی کاروبار کیلئے قرضہ لینے نہیں آتا ۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سناٹے چھا چکے ہیں ۔ ایک طرف ملک بھر کے تاجر احتجاج کی کال دے رہے ہیں دوسری طرف رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والون نے اپنا کنونشن منعقد کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔

پانچ لاکھ والے کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا ہے کے اعلان نے جو افراتفری پیدا ہوئی ہے وہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کا سسٹم ہر روز خراب ہونے سے پتہ چل رہی ہے۔ لوگوں کو پیسے نکلوانے سے روکنے کیلئے بینک اور مالیاتی ادارے کبھی اے ٹی ایم مشینیں کا سسٹم چوک کر دیتے ہیں کبھی بائیو میٹرک کے بہانے اکاونٹ بلاک کرتے ہین ۔ ایف بی ار میں کوئی جنرل صاحب بھیس بدل کر جائیں اور عام صارف کی طرح اپنا ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی کوشش کریں انہیں مزا آجائے گا کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے ۔پپچھلے ایک مہینے سے ایف بی آر کا سسٹم بیٹھا ہوا ہے گھنٹوں لگ جاتے ہیں پھر بھی گوشوارہ جمع نہیں ہو پاتا ۔ تعمیرات کے شعبہ میں کسی نحوست کے سائے چھا چکے ہیں ،سریا ،پینٹ ،وارنش ،سیمنٹ ،اینٹیں 17 براہ راست صنعتیں جو تعمیرات کی صنعت سے منسلک ہیں اور لاکھوں لوگ اس سے روزگار حاصل کرتے ہیں ان میں مسلسل خسارہ ہو رہا ہے ۔

درامدی کاروں پر پابندی ایسی شرائط سے اس شعبہ سے منسلک ہزارون لوگ روزگار سے محروم ہو چکے ہیں ۔ روپیہ کی قدر میں کمی سے تمام درامدی خام مال مہنگا ہو گیا ہے اور رہی سہی صنعتیں بھی بند ہو رہی ہیں ۔فوج اتنا بڑا ادارہ ہے ۔ چین اف کمانڈ سے منسلک ہے کوئی مارکیٹ کا سروے کیوں نہیں کرایا جاتا اور عوامی رائے کا جائزہ کیوں نہیں لیا جاتا کہ ملک میں ہو کیا تماشا لگا ہوا ہے ،اور پیشگی اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے اس سے پہلے کے دیر ہو جائے۔

۔ بطور صحافی ہمیں خوف آ رہا ہے حالات تیزی سے ابتری کی طرف جا رہے ہیں لیکن پہلے کی طرح جھوٹ اور بے ایمانی کا بازار گرم ہے ۔ حکومت کا سارا زور آصف علی زرداری اور نواز شریف کو چور کہنے پر صرف ہو رہا ہے اور اپنی ناقص کارکردگی کو سیاسی مخالفین کے خلاف پراپیگنڈہ سے چھپایا جا رہا ہے لیکن کب تک ؟ یہ سلسلہ تو دو سال سے جاری ہے کہ نواز شریف چور ہے اور آصف علی زرداری لوٹ کر کھا گیا ہے ۔ دس ماہ میں جو معاشی تباہی مچائی ہے اس کا جواب بھی جھوٹ سے دیا جا رہا ہے کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے حالات ٹھیک ہو جائیں گے ۔حالات کیسے ٹھیک ہو جائیں گے کیا کوئی آسمان سے فرشتہ اترے گا اور جادو کی چھڑی دے گا کہ گھماو اور حالات ٹھیک کرلو۔

امریکی بحری بیڑا بہت قریب ہے وہ ایران پر کبھی حملہ نہیں کریں گے کیونکہ ایران پر حملہ کر دیا تو خلیج میں ایران کا خطرہ دیکھا کر جو امریکی تجوریاں سالوں سے بھری جا رہی ہیں وہ بند ہو جائیں گے ایران عرب چپقلش تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے اس مرغی کو کبھی حلال نہیں کیا جائے گا ۔ہمیں تو لگتا ہے امریکی پاکستان میں ہنگاموں کے منتظر ہیں تاکہ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے وہ مداخلت کر سکیں شائد اسرائیل نے اومان بندگارہ کےا ستمال کا معاہدہ اسی مقصد کیلئے کیا تھا جو گوادر سے نصف گھنٹہ کے فاصلے پر ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں خبردار کیا تھا حالات درست کر لیں ورنہ دیر ہو جائے گی لوگ بغیر لیڈرون کے باہر نکل آئے تو سیاسی جماعتیں بھی کچھ نہیں کر سکیں گی۔ شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خبردار کیا تھا کہ معاملات کو بات چیت سے درست کر لیں ،مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختوانخواہ میں جلسہ عام سے خطاب میں پیشکش کی تھی کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کو واپسی کا محفوظ راستہ دینے کیلئے تیار ہیں ۔سیاسی جماعتوں کی بات کیوں نہیں سنی جاتی اور معاشی افراتفری کا دائرہ بتدیج پھیلنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا اس ملک کے خلاف کوئی خوفناک سازش ہو رہی ہے یا پھر نا اہلی ،ضد اور انا کی انتہا ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے ۔

اب بھی وقت ہے یہاں پر کوئی مودی کا یار نہیں ،کرپشن سب نے کی ہے فوجی جنرلوں کی کرپشن کی کہانیاں بھی موجود ہیں اور مدینہ کی مثالی ریاست کے دعوے داروں کی بھی جہاں سلائی مشنیوں کے کاروبار سے بہنیں اربوں روپیہ کما جاتی ہیں اور ایک بیوا غریب خاتوں بچوں کو پالنے کیلئے کپڑے سیتے سیتے اندھی ہو جاتی ہے اور ٹی بی سے مر جاتی ہے ۔قوم کو گمراہ کرنے کا سلسہ بند کیا جائے ۔ تبدیلی کا ڈرامہ بری طرح ناکام ہو گیا اور بہت بڑا بوجھ بن گیا ہے اب قومی یکجہتی کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔آج بھی بلاول بھٹو نے بجٹ منطوری کے بعد پارلیمنٹ میں پریس کانفرنس کی اور حکومت کے خلاف خوب گرجے برسے لیکن ایک سوال کے جواب میں انہون نے ملکی معیشت کے استحکام کیلئے جنرل باجوہ کے مل کر چلنے کے بیان کا خیر مقدم کیا اور کہا ہم تو ملک کے بہترین مفاد میں اس کیلئے تیار ہیں۔ جو ہو گیا سو ہو گیا ماضی کو بھول کر اگے چلیں اور متفقہ میثاق معیشت کریں اسی میں سب کی بھلائی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے