یورپ کے تاریک دور کا پادری

کالم کی سری: یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے متعلق فی الحال یہ آخری کالم ہے۔ ایک ہی موضوع پر مسلسل تین کالم لکھ کر پہلے ہی میں اپنے ’’حلف‘‘ سے رو گردانی کا مرتکب ہو چکا ہوں مگر ہمارے ملک میں چونکہ یہ معمولی بات ہے سو امید ہے قارئین مجھے معاف فرمائیں گے۔

اگر آ پ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو اکثر اس بات پر دکھی رہتے ہیں کہ ہم مغربی اقوام کی طرح ترقی کیوں نہیں کر پائے اور اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تو جو سوالات آپ کے ذہنوں میں کلبلاتے ہوں گے، اُن کا خلاصہ یہ ہو سکتا ہے: سولہویں صدی میں ایسا کیا ہوا کہ یور پ تاریک دور سے نکل کر نشاۃ ثانیہ کے راستے پر چل پڑا؟ کیا صرف اکا دکا واقعات ہی یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا سبب بنے؟ کیا ان واقعات کے سبب مغربی اقوام میں راتوں رات تنقیدی شعور بیدار ہوگیا اور انہوں نے فلسفی اور سائنسدان پیدا کرنے شروع کر دیئے؟ کیا محض رومن کیتھولک چرچ کا اختیار ختم کرنا ہی ایک ایسا کام تھا جس کی بدولت یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہوا؟ اگر یہی وجہ تھی تو بہت سی دیگر مملکتیں تو پہلے سے غیر مذہبی تھیں وہاں یہ انقلاب کیوں نہ آیا؟ چرچ کی بالادستی کے بعد بادشاہت قائم ہوگئی وہ بھی جبر کا نظام تھا اس میں ترقی کیسے ممکن ہوئی؟ کیا یورپ کے تمام بڑے سائنسدان مذہبی اور خدا کے ماننے والے نہیں تھے؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر مذہب یا جبر کی ریاست سائنس کی تحقیق میں رکاوٹ کیونکر ہوئی؟

یورپ کے تاریک ادوار میں رومن کیتھولک چرچ کی بالادستی تھی، کسان سے لیکر بادشاہ تک سب پاپائے اعظم کے مطیع تھے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں چرچ کا دخل نہ تھا، چرچ نے ایسے قوانین بنا رکھے تھے جن کی رُو سے بائبل کی تعلیمات سے متصادم کسی سائنسدان کو تحقیق کی اجازت نہیں تھی مثلاً کوئی ماہر فلکیات یہ ریسرچ نہیں کر سکتا تھا کہ آیا زمین کائنات کا محور ہے یا محض ایک معمولی سیارہ، گلیلیو کو اسی جرم کی پاداش میں رومن کیتھولک چرچ نے سزا سنائی تھی۔ چرچ کے پاس ٹیکس لگانے کا اختیار تھا، اس کی اپنی پولیس تھی، وہ عوام کے تمام معاملات میں پوری طرح دخیل تھا، اپنی آمدن کا دس فیصد حصہ چرچ کو دینا لازمی تھا اور کوئی اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔ جو شخص بھی چرچ کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا اس کے خلاف کلیسا خود مقدمہ چلاتا، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے اس شخص کو مختلف قسم کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔

کلیسا اس بات کا فیصلہ بھی کرتا تھا کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں، پادری پیسے لے کر لوگو ں کو ’’پاک‘‘ کرتا تھا تاکہ وہ آسانی کے ساتھ جنت میں داخل ہو سکیں، گناہگاروں کیلئے بھی مخصوص پیکیج تھا، اسے Indulgencesکہتے تھے، اس پیکیج کے تحت لوگ اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کروا سکتے تھے، اس کے عوض انہیں رقم ادا کرنا اور چرچ سے وفاداری کی قسم کھانا پڑتی تھی۔ ان حالات میں جرمنی میں ایک پادری نے کلیسائے روم کی اتھارٹی کو چیلنج کیا، اس کا نام مارٹن لوتھر تھا، یہ شخص بلا کا ذہین تھا، اِس نے رومن کیتھولک چرچ کے اِن تمام اختیارات کی بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں پڑتال کی اور پھر پوری تحقیق کے بعد 95اعتراضات تیار کیے، 31اکتوبر 1517ء کی ایک صبح لوتھر نے یہ اعتراضات Wittenbergکے مقامی گرجا گھر کے دروازے پر چسپاں کر دیئے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، چرچ نے مارٹن لوتھر کے خلاف مقدمہ قائم کر دیا اور اسے کافر قرار دیدیا گیا۔

ایسا نہیں تھا کہ مارٹن لوتھر سے پہلے کسی نے چرچ کی اتھارٹی پر سوال نہیں اٹھائے تھے، مگر لوتھر نے ایک ایسا کام کیا جو اس سے پہلے نہیں ہوا تھا، اس نے بائبل کا لاطینی سے جرمن (اور بعد میں انگریزی اور فرانسیسی) زبان میں ترجمہ کیا، اُس وقت پرنٹنگ پریس ایجاد ہو چکا تھا جس کی مدد سے ترجمہ شدہ بائبل اور لوتھر کی تعلیمات تیزی کے ساتھ عام لوگوں تک پھیل گئیں اور یوں لوتھر کے احتجاج یعنی protestسے ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جسے protestantکہا گیا، انگلستان میں ہنری ہشتم پہلے ہی کلیسائے روم کی اتھارٹی ختم کر چکا تھا ادھر لوتھر نے بھی کلیسا کے اختیار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور یوں Reformationکی تحریک شروع ہوگئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ میں پھیل گئی۔ باقی تاریخ ہے۔

یورپ کی جدوجہد بے حد طویل ہے، کچھ بھی راتوں رات نہیں ہوا، کسی ایک بادشاہ یا پادری کو اس تمام جدوجہد کا کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا، مختلف ادوار میں بہت سی شخصیات نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا مگر ان سب کی سمت ایک ہی تھی، آزادی اور خود مختاری۔ کلیسائے روم کی اتھارٹی ختم کرنے اور reformationکی راہ پر چلنے سے ان کی روز مرہ زندگی میں تبدیلی آ گئی، سوچ کے زاویے تبدیل ہو گئے، اب وہ اپنی دنیا اور آخرت کا فیصلہ خود کر سکتے تھے، ایسا نہیں ہوا کہ وہ غیر مذہبی ہو گئے، وہ لوگ ذاتی زندگیوں میں اتنے ہی مذہبی رہے جتنے پہلے تھے، نیوٹن، کوپر نیکس وغیرہ نے کبھی الحاد کی راہ اختیار نہیں کی، فرق یہ پڑا کہ اب کوئی پاپائے اعظم یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ تمہاری تحقیق بائبل سے متصادم ہے لہٰذا تم قابل گردن زدنی ہو۔

ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ 1500ء سے 1750ء تک مغربی اور ایشیائی اقوام میں سائنسی ترقی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر فرق نہیں پڑا حالانکہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا ظہور ہو چکا تھا، وجہ اس کی وہی کہ یورپ نے قریباً دو سو برس تک اپنے ہاں آزادی اور تنقیدی شعور کو پروان چڑھایا، اس دوران ان کے ہاں فلسفی اور سائنسدان پیدا ہوتے رہے جو اُس عمارت کی بنیاد ڈالتے رہے جسے ہم صنعتی یا سائنسی انقلاب کہتے ہیں اور پھر اس انقلاب کی وجہ سے مغربی یورپ زقندیں بھرتا ہوا دنیا سے آگے نکل گیا۔

ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ بہت سی مملکتیں ایسی بھی ہیں جہاں سوال اٹھانے کی آزادی نہیں مگر وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں جیسے آج کا چین، اسے کس خانے میں فٹ کریں گے؟ چین میں سائنسی تحقیق پر کوئی پابندی نہیں، ان سب باتوں کے باوجود چین اُس طرح سے تخلیقی ذہن پیدا نہیں کرتا جیسے امریکہ یا یورپ میں ہوتے ہیں، آئی فون کی فیکٹری چین میں ہے مگر اس کی تخلیق سلیکون ویلی میں ہوتی ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا ہے، آپ بے شک وہاں سائنسی تحقیق کی جتنی بھی اجازت دے دیں، مذہب کو ریاست سے علیحدہ بھی کر دیں، اس کے باوجود وہاں ترقی ممکن نہیں کیونکہ ترقی کے لیے بنیادی شرط آزادی ہے، سوچنے سمجھنے والے لوگ آزاد فضا میں جینا چاہتے ہیں، جبر کے دور میں سائنس اور فلسفہ نہیں پنپ سکتا۔ مغربی یورپ میں 1500ء سے پہلے والے سائنسدانوں اور فلسفیوں کی فہرست بنا کر اس کا موازنہ 1500ء کے بعد والوں سے کر لیں، حقیقت آشکار ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے