بھان متی کا کنبہ…….ہم بائیس کروڑ

خدا جانے ہمارے اندر کس وائیٹامن کی کمی ہے کہ ہمیں بنیادی اور سادہ ترین باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ قائدین میں سے جس کو دیکھو ہمیں تقریروں اور تبلیغوں کے ذریعہ’’قوم‘‘ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ خوابوں، خواہشوں اور خالی خولی خطابوں کے بل بوتے پر قومیں نہیں بنا کرتیں۔ ہجوم کو قوم میں تبدیل کرنا کوئی سیاسی جماعت بنانا، الیکشن جیتنا یا اقتدار میں آنا نہیں بلکہ اک ایسا طویل، تکلیف دہ، صبر آزما، پیچیدہ اور تہہ در تہہ پراسیس ہے جس کے پیچھے ذکاوت، فراست، حکمت، بصیرت، گہرائی اور گیرائی کے سمندر درکار ہیں اور سمندر کیا ہوتا ہے؟

سمندر اسے کہتے ہیں جو پوری طرح ڈوبا ہوا بھی ہوتا ہے اور پوری طرح تیرتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہجوموں کو قوموں میں بدلنے والے مہم جو ہوتے ہیں نہ موقع پرست، نہ خود پسند ہوتے ہیں نہ خود فراموش۔ یہ کم ظرفوں اور کم عقلوں کا کام نہیں اور نہ ہی حرص و ہوس کے ماروں کا مشغلہ ہے۔ جتنی بھی ریکارڈڈ انسانی تاریخ میسر ہے، اٹھا کر دیکھ لیں بڑے بڑے عالیشان فاتحین، مختلف شعبوں کے دیوقامت ذہن و فطین معقول تعداد میں موجود ہیں لیکن آوارہ، منتشر، بےسمت، بےراہرو ہجوموں کو قوموں میں ڈھال دینے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمینی حقائق کوتسلیم کرتے ہوئے ان میں ترمیم کرنے کی ناقابل یقین صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔

مجھ جیسا اوسط درجہ کا آدمی کیاجانے کہ حقیقی اور اصلی قیادت کیا ہوتی ہے اور کیسی ہوتی ہے لیکن یہ سچائی سمجھنے کے لئے کسی گہرائی کی ضرورت نہیں کہ جو شخص کسی’’شے‘‘ کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتا ہو اس کے لئے اس خاص ’’شے‘‘ کو جاننا بہت ضروری ہے کہ دراصل یہ ہے کیا بلا۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ کسی بھی ہجوم یا آبادی کو اک قوم بنانے والے کو اس بات کا پورا علم، ادراک اور شعور ہونا چاہئے کہ اس ہجوم، اس مخصوص آبادی کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ تاریخ اور جغرافیہ کیا ہے؟ کمزوریاں، کجیاں، خامیاں، خوبیاں کیا ہیں اور ان کا پس منظر کیا ہے۔ مختصراً یہ کہ اس’’ہجوم‘‘ کے اجتماعی "DNA”سے واقفیت بہت ضروری ہے جس کے اندر وہ تبدیلیاں لانا چاہتا ہے ورنہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شیشے کو ہینڈل کرتے ہوئے ہتھوڑی استعمال کرنا چاہے یا پتھر پر نقش و نگار بنانے کے لئے آری پکڑ کر بیٹھ جائے۔مختصراً یہ کہ پہلے تو کوئی’’ہم 22کروڑ‘‘ کو اچھی طرح، ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر سمجھے جو بظاہر ناممکن لیکن بالکل ممکن ہے۔

اجتماعی بیماریوں کی بھرپور ترین تشخیص کی جائے اور اس ایکسر سائز کے دوران ’’ٹیلنٹ بہت ہے‘‘…….. ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے ……. ‘‘ ’’ہم ایک ہیں‘‘ ٹائپ ہر متھ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر میرٹ پر پرکھا جائے کہ اگر ’’طبیب‘‘ تشخیص ہی درست نہ کرے گا تو علاج اس نے خاک کرنا ہے جبکہ ہم تو وہ لوگ ہیں جو خود اپنے ساتھ مکر، فریب، جھوٹ سے باز نہیں آتے بلکہ اپنی ہر’’بیماری ‘‘ کو ’’صحت مندی‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔خود کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اپنی صحیح صورت دیکھنا ہو تو گزشتہ چند دنوں کی چند خبریں ہی بہت کافی ہیں مثلاً…….ہم ہندوستان کو لعن طعن کرتے ہیں اور ٹھیک کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حصہ کے پانی پر قابض ہے لیکن یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم خود ایک دوسرے کے حصہ کا پانی غصب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

چند دن پہلے ہی کہیں یہ خبر پڑھی ہے کہ بدمعاش کمزوروں کے حصہ کا پانی ہڑپ کرجاتے ہیں اورTail endزمینیں پیاسی رہ جاتی ہیں، جو پانی ہم آلودہ غلیظ کردیتے ہیں وہ علیحدہ تو ولن صرف ہندوستان ہی کیوں؟26جون کو ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ہمیں ہماری ’’اجتماعی صورت‘‘ دکھاتے ہوئے بتایا کہ …….. ’’ریکی سے اس مکروہ دھندے کا سراغ لگایا، زائد المیعاد اشیاء کی تاریخ پر نئے لیبل لگائے جارہے تھے۔ کارروائی 7گھنٹے میں مکمل ہوئی جس کے نتیجے میں ہزاروں کلو زائد المیعاد کافی، چائے اور خشک دودھ پکڑا گیا۔

ماچا گرین ٹی، وائٹ چاکلیٹ پائوڈر، ڈارک چاکلیٹ ، ہاٹ ونیلا ڈرنک، سیرپ اور دیگر پائوڈر بھی شامل ہیں، تین چائنیزکافی آئوٹ لٹس اور دو گودام سیل کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا۔‘‘پہلی خبر کا تعلق فصلوں کے پانی سے تھا۔دوسری خبر کا تعلق کھانے اور پینے کی مہنگی اشیاء سے تھا۔تیسری یعنی اگلی خبر کا تعلق انسانی صحت اور مراکز صحت یعنی ہسپتالوں کی غیر انسانی حالت کے ساتھ ہے۔ صرف چند سرخیاں دیکھ لیں کہ ہم جیسی’’زندہ قوم‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ کرکیا رہی ہے………پڑھتا جا شرماتا جا۔’’ہسپتالوں سے میڈیکل فضلے اور اس کی تلفی کا ریکارڈ طلب، ری سائیکل یونٹ سیل کردیا گیا۔’’میڈیکل ویسٹ سے اشیاء کی تیاری روکنے کے لئے مستقل بنیادوں پر پالیسی سازی کے لئے ڈپٹی کمشنر نے سرکاری و نجی ہسپتالوں کی انتظامیہ کو آج طلب کرلیا۔‘‘’’ضلعی انتظامیہ کا کریک ڈائون جاری، نیو شاد باغ میں میڈیکل ویسٹ ری سائیکل یونٹ سے 500کلو فضلہ برآمد۔‘‘

آخر پہ فواد چودھری کی ٹوئیٹ’’سب سے بڑا خطرہ فتویٰ باز مولوی ہیں۔‘‘ہمارے 75فیصد مسائل کی وجہ علماء سو ہیں۔‘‘ہماری تاریخ فواد چودھری کے حق میں گواہی دے رہی ہے۔فواد چودھری کی اس ٹوئیٹ کے نیچے والی خبر کی چند سرخیاں۔’’راولپنڈی مدرسہ میں بچہ کو الٹا لٹکا کر بہیمانہ تشدد، ویڈیو وائرل۔ سی پی او کانوٹس معلم مولوی گرفتار۔‘‘’’ڈھوک کشیمریاں کی جامع مسجد کے مدرسہ تعلیم القرآن میں ابوبکر نامی بچہ الٹا لٹکائے جانے کے دوران چیختا رہا۔‘‘’’پولیس نے ملزم نور محمد کو تلاش کرلیا۔ مقدمہ درج کارروائی شروع۔قارئین! غور فرمائیںمدرسہ کا نام…..تعلیم القرآن تشدد کے شکار بچہ کا نام…..ابوبکرتشدد کرنے والے مولوی کا نام……ور محمدکون ہے جو ہمیں قوم بنانے چلا ہے؟تم تو مجھے مجھ سے نہیں بچا سکتے بے وقوفو!بھان متی کا کنبہ……..یہ 22کروڑ تمہارے بس کی بات نہیں۔مجھے تم سے کچھ نہیں چاہئےمجھے میرے حال پہ چھوڑ دو.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے