میں مولو مُصلّی ہوں!

اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب سے میرا درد کا رشتہ ہے، وہ مولو مصلیوں سے محبت کرتے ہیں اور میں خود مولو مصلّی ہوں۔ گو میری اور مولو کی ذات برادری الگ ہے لیکن جب بھی میری روح کا استحصال ہوا، جب بھی مجھے نفرت اور حقارت سے دیکھا گیا، جب بھی تکبر و غرور اور دولت و جاہ پسندی نے مجھے دبایا میں مولو مصلّی کے احساسات سے گزرا۔ پہلی بار میں مولو مصلّی اس دن بنا جب ساتویں جماعت کے طالب علم اور ایک لوئر مڈل کلاس خاندان کے بچے کی حیثیت سے دولتمند اشرافیہ کے ایک گھر میں شادی کے سلسلے میں گیا ہوا تھا کہ وہاں بجلی کا میٹر ریڈر آیا تو میں کھیلتے کھیلتے اسے شاہانہ کوٹھی کے میٹر کے پاس لے گیا۔

ریڈر بولا یہ تو بدعنوانی ہے، میٹر بند ہے اور بجلی چل رہی ہے۔ نوعمر لڑکے نے زندگی میںکرپشن کو پہلی بار دیکھا اور سنا تھا۔ اس نے شور مچا دیا، اسی دوران کوٹھی کی جاگیردار مالکن آئی اور اس نخوت اور نفرت سے لڑکے کی طرف دیکھا کہ اس چہرے کی عیاری اور سفاکی اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی مجھے یاد ہے۔ ساتھ ہی اس نے جھڑک کر مجھے گھر سے نکال دیا۔ یہ میری زندگی کا وہ پہلا دن تھا جب میں مولو مصلّی بنا اور آج تک اپنی اس ذلالت اور بے بسی کو بھلا نہیں پایا۔

دوسری بار مجھے خجالت اور حقارت کا احساس تب ہوا جب زمانہ طالب علمی میں ہی ایک نوکر شاہ سے ملنے اس کے دفتر گیا۔ معاملہ گنے کے پرمٹ کا تھا، اس نوکر شاہ نے مجھے کئی گھنٹے دفتر کے باہر انتظار کروایا۔ اس روز بھی مجھے یوں لگا تھا جیسے میں مولو مصلّی ہوں اور نوکر شاہ جابر و ظالم آقا۔ ذلت کا احساس اس قدرشدید تھا اور آج بھی ہے کہ اب بھی نوکر شاہوں کے دروازوں پر کھڑے دربانوں اور اردلیوں کے نظام سے گھن آتی ہے۔ تیسری بار یہی مولو مصلّی والے احساسات تب محسوس ہوئے جب متکبر شوکت عزیز وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان تھے، انہوں نے پروگرام ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ کرنے سے اس نحوت سے انکار کیا کہ مجھے ان کی انسانوں کو اپنے سے چھوٹا اور شودر سمجھنے کی ذہنیت صاف نظر آگئی۔ ان تین بڑے واقعات کے علاوہ آج بھی کئی بار مولو مصلّی بنا ہوں۔ جب بھی میری آزادی پر قدغن لگتی ہے، اظہار رائےپر پابندی عائد ہوتی ہے، وہی ذلت، خجالت ،غلامی اور بے بسی والا احساس جنم لیتا ہے۔

ریاستِ مدینہ کیا تھی ؟یہی کہ وہاں کوئی مولو مصلّی نہیں تھا۔ بلالؓ حبشی آزاد تھے اور وہاں کے امراء کے برابر بیٹھتےتھے۔ انقلابِ فرانس کیا تھا ؟یہی کہ آزادی اور مساوات کا بول بالا ہو۔ کیوبا میں فیڈل کاسترو کا انقلاب کیا تھا ؟نعرہ تو یہی تھا کہ آزادی اور مساوات لائیں گے، کوئی مولو مصلّی نہیں ہو گا، کوئی بیٹسٹا کسی فیڈل کاسترو کسی چی گویرا کا استحصال نہیں کر سکے گا۔ (بعد میں کیا ہوا، وہ ایک ا لگ کہانی ہے) 1917ء کا کمیونسٹ انقلاب کیا تھا؟ یہی کہ کوئی مولو مصلّی نہیں ہوگا، سب کو برابری ملے گی۔

گویا دایاں بازو ہو یا بایاں بازو، ہر طرف آزادی اور مساوات کا تصور ہی تبدیلی کی بنیاد بنتا رہا ہے۔ دنیا نے انسانوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کر رکھا ہے، کوئی کمیونسٹ ہے تو کوئی کیپٹلسٹ، کوئی ڈیموکریٹ ہے تو کوئی فاشسٹ، کوئی ظالم ہے تو کوئی مظلوم۔ میری نظر میں انسان بس دو طرح کے ہیں، ایک وہ جو دولت، عہدے اور دنیا سے محبت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو انسانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے اوپر دولت لٹاتے ہیں۔ وہ جو دولت سے محبت کرتے ہیں، اچھی زندگی گزارتے ہیں اور جب گزر جاتے ہیں تو کوئی انہیں یاد نہیں کرتا اور وہ جو دولت کی بجائے انسانوں سے محبت کرتے ہیں، وہ مر بھی جاتے ہیں تو دنیا انہیں یاد کرتی ہے۔

اس فلسفے کی نظر سے دیکھیں تو ہندوستان ایک وقت میں دنیا کا امیر ترین ملک تھا، اکبر، دی گریٹ مغل کے زمانے میں دنیا بھر کا مال و دولت زر و جواہر اور سونا ہندوستان میں جمع تھا۔ ابراہیم ارالے نے لکھا ہے کہ اکبر اپنے زمانے کے انگریز بادشاہ سے 16گنا زیادہ امیر تھا۔ اسی زمانے میں اکبر 14سال سے زائد لاہور کے شاہی قلعے میں مقیم رہا، دارالحکومت لاہور تھا تو شاہی خزانہ بھی لاہور منتقل ہوا۔ ایک دن تقریب کے دوران مشعلوں کو سلگاتے ہوئے شاہی قلعے میں آگ لگ گئی، آگ اس قدر پھیلی کہ شاہی خزانہ میں موجود ٹنوں سونا پرانے لاہور کی گلیوں میں بہنے لگا۔ لوگوں نے گندی نالیوں سے سونے کے ڈول بھر لئے، اسی اکبر کا نامور بیٹا جہانگیر اور دنیا کی پہلی خاتون بادشاہ (وہ آدھی سلطنت کی مالک تھی) نور جہاں لاہور میں دفن ہیں۔

مغلیہ خاندان کی مال و دولت اور جاہ و چشم کے باوجود ان کے مزاروں پر سکوت ہے، کوئی فاتحہ تک نہیں پڑھنے آتا۔ دوسری طرف حضرت سید علی بن عثمان ہجویریؒ داتا گنج بخش جو خالی ہاتھ دنیا سے گئے، نہ کوئی ان کا گھر تھا اور نہ کوئی اولاد یا جائیداد، بس خلق خدا سے محبت ان کا اثاثہ تھا، وہ آج بھی مرجع خلائق ہیں۔ مغل شہزادی نادرہ اور میاں میرؒ کے مزار ساتھ ساتھ ہیں مگر میاں میرؒ کے دربار پر رونق اور شہزادی کے مزار پر ویرانی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب دولت سے نہیں انسانوں سے محبت کرتے ہیں، اسی لئے ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہے جو مولو مصلّیوں کو گلے لگاتے ہیں اس لئے میں مولو مصلی بقلم خود ان سے اتنی ہی محبت کرتا ہوں۔

یاد رکھیئے کہ جب کسی انسان سے دولت، عہدے، رنگ، نسل یا عقیدے کی بنا پر تعصب برتا جاتا ہے، اس سے نفرت کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو اس کے احساسات مولو مصلّی جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ہر وہ آدمی مولو مصلّی ہے جسے معاشرہ دباتا ہے یا پھر اسے بولنے نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ہوں یا میں مولو مصلّی، ہم دونوں کی خواہش ہے کہ کاش ریاست پاکستان میں کوئی مولو مصلّی نہ ہو، سب کے حقوق یکساں ہوں، سب کی عزت ہو، مستری، ترکھان اور چوہدری سب ذاتوں سے نہیں اپنے کاموں سے پہچانے جائیں، اے کاش…

(ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب مولو مصلّی کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کی گئی تقریر)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے