2 روز کے لیے سوشل میڈیا کے بائیکاٹ کی مہم

گزشتہ کئی ماہ سے سوشل میڈیا پر ’یوزر پرائیویسی‘سے متعلق مختلف خبریں زیرگردش ہیں اور تقریباً ہر صارف کا مطالبہ ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

سوشل میڈیا پر صارفین سے تبدیلی کے لیے قدم اٹھانے پر زور دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ 4 اور 5 جولائی کو صارفین مستقبل کی بہتری کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر SocialMediaStrike# کا ٹرینڈ بہت مقبول ہورہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ہڑتال کا مقصد صارفین کے ذاتی ڈیٹا پر کنٹرول کو بحال کرانے کے لیے نیٹ ورکس پر دباؤ بڑھانا ہے۔

48 گھنٹوں تک سوشل میڈیا ویب سائٹ استعمال نہ کرنے کی تجویز وکی پیڈیا کے شریک بانی ڈاکٹر لیری سینگر کی جانب سے آن لائن انسائیکلوپیڈیا پر دی گئی ہے۔

اس بائیکاٹ میں حصہ لینے والے لوگ 4 اور 5 جولائی کو سوشل میڈیا استعمال نہیں کریں گے تا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی جانب سے فراہم کردہ سروسز کے خلاف سنجیدہ برہمی کا اظہار کیا جاسکے۔

بائیکاٹ کی خبر کی مقبولیت بڑھتے ہی صارفین کی جانب سے مختلف سوالات بھی زیر گردش ہیں جن کا جواب میں ڈاکٹر سینگر نے بلاگ کے ذریعے دیا ہے۔

ڈاکٹر سینگر نے کہا کہ ’ہم اپنی اجتماعی طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور مطالبہ کریں گے کہ بڑی اور ساز باز کرنے والی یہ کارپوریشنز ہمارے ڈیٹا، پرائیویسی(نجی معلومات کے بارے میں رازداری) اور صارف کے تجربے کا کنٹرول ہمیں واپس لوٹا دیں۔‘

ڈاکٹر سینگر کا کہنا ہے کہ اس بائیکاٹ میں جتنے زیادہ افراد حصہ لیں گے، اس سے اتنا زیادہ ظاہر ہوگا کہ لوگ موجودہ صورتحال سے کتنے غیر مطمئن ہیں۔

ڈاکٹر سینگر کو امید ہے کہ اس بائیکاٹ کے ذریعے سماجی رابطوں کے نیٹ ورکس میں تبدیلی آئے گی اور لوگوں کو ان کے ذاتی ڈیٹا پر زیادہ کنٹرول دیا جائے گا۔

بائیکاٹ میں حصہ لینے والوں کو ڈاکٹر سینگر کی جانب سے تیار کردہ ڈیجیٹل آزادی کے اعلامیے پر دستخط کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

بائیکاٹ کا اعلان ریڈ اٹ، ٹوئٹر اور دیگر نیٹ ورکس پر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سینگر نے اپنے حامیوں کو فیس بک پر بھی یہ پیغام پھیلانے کی ہدایت کی ہے کیونکہ وہ خود فیس بک اکاؤنٹ نہیں رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے