’’مسلم ہے تو مسلم لیگ (ن) سے جا‘‘

بدھ کی رات وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب نے ایک ٹویٹ لکھ کر عوام کو خوش خبری پہنچائی کہIMFنے پاکستان کے لئے 6ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ اس پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر فوری طورپر فراہم کردئیے جائیں گے۔ بقیہ رقم مختلف اقساط میں آئندہ تین برسوں کے دوران ادا کی جائے گی۔طے شدہ اقساط کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کو ہر تین مہینوں کے بعد IMFکو یقین دلانا ہوگا کہ اس کے ساتھ طے ہوئی شرائط پر مکمل عملدرآمد ہورہا ہے۔ گھریلو صارفین کو پہنچائی بجلی اور گیس کی کم از کم اتنی قیمت وصول کی جارہی ہے جو حکومت ان کی خرید کے لئے فی یونٹ خرچ کرتی ہے۔امریکی ڈالر کی قدر کو حکومتی دخل اندازی سے پاکستانی روپے کے مقابلے میں کھلی مارکیٹ کے تقاضوں سے کم نہیں رکھا جارہا۔ حال ہی میں پاس ہوئے بجٹ میں لاگو ہوئے محاصل تن دہی سے وصول کئے جارہے ہیں۔سرمایہ کاروں کو بینک سے قرضے لینے کے لئے IMFکی طے شدہ شرح سود ادا کرنا یقینی بنادیا گیا ہے۔

IMFکا اصرار ہے کہ اس کے تیار کردہ نسخے پر آئندہ تین برسوں میں لگن اور ثابت قدمی سے عمل کیا گیا تو ہماری معیشت میں استحکام آجائے گا۔ ہم خسارے سے بجٹ تیار کرنے کی علت سے نجات پالیں گے۔ IMFکا تیار کردہ نسخہ یقینا بہت ہی کڑوی گولیوں پر مشتمل ہے۔ ان گولیوں کا تین سال تک مسلسل استعمال بھی اشد ضروری ہے۔ وگرنہ مرض مزید شدت کے ساتھ لوٹ آئے گا۔اس صورت میں شاید جانبر ہونے کی ا مید بھی جاتی رہے گی۔

مذکورہ نسخے کے مسلسل تین سال تک استعمال کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ عمران حکومت کو اس کے سیاسی مخالفین دھرنوں یا ہنگاموں کے ذریعے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش نہ کریں۔عوام کی اکثریت سرجھکائے کڑوی گولیاں نگلتی رہے اور اچھے دنوں کا انتظار کرے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب نے ٹویٹ کے ذریعے خوش خبری سنائی تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک حامی بہت خوش ہوئے۔

مبارک سلامت کے شور کے دوران کئی افراد نے ڈاکٹر صاحب سے عاجزاََ یہ بھی معلوم کرنا چاہا کہ IMFسے معاہدہ ہوجانے کے بعد ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی یا نہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ان کو تسلی بخش جواب فراہم کرنے سے گریز کیا۔ ویسے بھی وہ اپنے کام میں مگن آدمی ہیں۔مجھ جیسے فارغ لوگوں کی طرح سوشل میڈیا پر وقت ضائع نہیں کرتے۔ خوش خبری سنانے کے بعد شاید سوگئے ہوں گے یا اپنے گھر کے تہہ خانے میں جاکر تھوڑی ورزش یا گالف کی پریکٹس میں مصروف۔تحریک انصاف کے دل وجان سے حامیوں کے مقابلے میں چند افراد عمران خان صاحب کی شخصیت اور ان کی حکومت کے خلاف اپنے دلوں میں بغض بھرے غصے کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہیں۔

ان میں سے کئی ’’جل ککڑے‘‘ نہایت معصومیت سے یہ استفسار کرتے پائے گئے کہ IMFسے قرضہ لینے کے بعد وہ ’’خودکشی‘‘ کب ہورہی ہے جس کا تواتر سے دعویٰ کیا جارہا تھا۔نہایت دیانت داری سے ایسے سوالات کو میں بچگانہ اور احمقانہ شمار کرتا ہوں۔پاکستان جیسے بے تحاشہ آبادی اور وسائل کے اعتبار سے کمزور ممالک میں ریاستی گلشن کا کاروبار چلانے کے لئے سو طرح کے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ عمران حکومت کے پاس IMFسے اس کی طے شدہ شرائط کے مطابق امدادی پیکیج لینے کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں تھا۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی IMFسے رجوع کرلیا جاتا تو شاید اس کی طے کردہ شرائط ذرا نرم ہوتیں۔اسد عمر کا اصرار ہے کہ IMFسے مذاکرات کو طول دیتے ہوئے دراصل انہوں نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی تھی۔

دریں اثناء سعودی عرب،یو اے ای،قطر اور چین جیسے برادر اور دوست ممالک کی مدد سے پاکستانی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش ہوئی۔ یہ مدد میسر نہ ہوتی تو IMFکی طے شدہ شرائط مزید جان لیوا ہوتیں۔اپنے گھر تک محدود ہوئے اور علم معاشیات کے بارے میں قطعی نابلد مجھ ایسے دوٹکے کے رپورٹر کو ان ٹھوس حقائق تک ہرگز رسائی حاصل نہیں جن کی بنیاد پر دعویٰ کرسکوں کہ IMFسے مذاکرات کو طول دینا بہتر تھا یا حکومت سنبھالتے ہی اس کے درپر کشکول لے کر چلے جانا۔

ویسے بھی IMFسے معاہدہ اب بالآخر طے پا گیا ہے۔ آمدنی میرے اور آپ جیسے لوگوں کی محدود سے محدود تر ہورہی ہے۔ بجلی اور گیس کے بل اس مہینے سے جب ہمارے ہاں آنا شروع ہوں گے تو بلڈپریشر اور دل کی دھڑکن پر قابو پانے کی حاجت محسوس ہو گی۔ دو یا تین ماہ گزر جانے کے بعد مگر ہم کڑوی گولیاں نگلنے کے عادی ہو جائیں گے۔ ہماری پریشانی سے توجہ ہٹانے کے لئے ورلڈ کپ کے میچز پاکستان کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے امکانات معدوم ہو جانے کے بعد اب کسی بھی نوعیت کا مداوا فراہم نہیں کر پائیں گے۔ ہماری تسلی کے لئے ضروری ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران حکومت میں باریاں لینے والے ’’چور اور لٹیرے‘‘ گرفتار ہوتے رہیں۔

اگر وہ اراکین قومی اسمبلی ہیں تو انہیں سپیکر کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈر کے ذریعے ایوان میں دھواں دھار بھاشن دینے کی سہولت میسر نہ ہو۔ نیب کے زیر حراست یا عدالتوں سے سزا یافتہ ملزمان اور مجرموں کو خصوصی مراعات نہ ملیں۔ان کے ساتھ عام ملزموں یا قیدیوں والا برتائوہو۔ قانون سب کے لئے برابر نظر آئے۔تین برس کی سختی کے بعد بالآخر اچھے دن لوٹ ا ٓنے کی امید ہر صورت جگائے رکھنا ہوگی۔امیدکی اس لوکو جلائے رکھنے کے لئے مناسب ہوگا کہ 2018کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر قومی اور پنجاب اسمبلی میں آئے نیک طینت افراد اپنے ماضی کے رویے پر غور کریں۔’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی ذہنی غلامی سے نجات پائیں۔قیام پاکستان سے قبل یوپی کے شہر لکھنؤ میں نعرہ ایجاد ہوا تھا:’’گلی گلی کشکول پھرا-مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔دورحاضر میں شاید اب کوئی نیا مصرعہ اوّل ایجاد کرنے کے بعد پکارنا ہوگا کہ :مسلم ہے تو مسلم لیگ (نون) سے جا‘‘۔’’سندھ تک سکڑی‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو اب مراد علی شاہ کے جیل جانے کا انتظار کرنا ہوگا۔ آصف علی زرداری پہلے ہی نیب کے شکنجے میں جکڑے جاچکے ہیں۔ جیل میں مراد علی شاہ کی قربت مہیا ہوجانے کے بعد وہ سندھ حکومت پر اپنا کنٹرول کھودیں گے۔

سندھ کے گورنر عمران اسماعیل کو فواد چودھری ’’جادوگر‘‘ قراردے چکے ہیں۔وہ چھڑی گھمائیں گے تو اس صوبے میں بھی چند ہفتوں بعد ’’گڈگورننس‘‘ کا آغاز ہوجائے گا۔کئی برسوں تک جب کسی حکومتِ وقت کے حامی مجھے اپنے لئے ستے خیراں بتانے والے مذکورہ بالانوعیت کے سیناریوزسناتے تو میرا خبطی ذہن ہمیشہ ’’دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے‘‘ والا شعر پڑھنا شروع ہوجاتا۔گزشتہ کئی مہینوں سے مگر بجلی اور گیس کے بلوں نے ایک اور شعر میں بیان کردہ ’’کس بل‘‘ نکال دئیے ہیں۔محدود سے محدود تر ہوتی آمدنی کے ساتھ دُعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ ربّ کریم مجھے IMFکا تیار شدہ نسخہ مسلسل تین برس تک استعمال کرنے کے بعد اچھے دن دیکھنے کے لئے زندہ رکھے۔مجھے حوصلہ دینے کے لئے آپ صدقِ دل سے آمین کہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے