’’ CREATIVITY اور CRIME‘

BEHIND EVERY GREAT FORTUNE THERE IS CRIME.”یہ محاورہ نما شہرئہ آفاق جملہ بنیادی طور پر HONRE DE BALZACکا ہے اور یاد رہے کہ بالزاک ایک فرانسیسی ناول نگار تھا لیکن اس جملے کو شہرت ملی MARIO PUZO کے ناول "THE GODFATHER” سے جو 1969ء میں منظر عام پر آیا اور اس پر بنی فلم کو بھی لازوال شہرت نصیب ہوئی۔یہ تو ہو گئی اس جملے کے بارے میں بنیادی بات لیکن میرا مسئلہ ذرا مختلف ہے اور وہ یہ کہ اس جملہ کا غلط استعمال مجھے بہت ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ جسے دیکھو اندھا دھند الٹے سیدھے انداز میں اسے استعمال کئے چلا جاتا ہے اور کوئی بھی یہ زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اسے تھوڑا سا EXPLAINبھی کر دے کیونکہ ہر "GREAT FORTUNE”کے پیچھے جرم ہی نہیں ہوتا، خاص طور پر جب سے ٹیکنالوجی کو پر لگے ہیں۔

صدیوں پہلے یہ صحیح تھا، اس میں زیادہ صداقت اور وزن بھی تھا کیونکہ مختلف زبانوں کے قدیم محاوروں میں بھی یہ خیال بہت عام تھا کہ ’’دنیا میں کبھی کسی شریف آدمی کو راتوں رات دولت مند بنتے نہیں دیکھا گیا‘‘ لیکن پھر وہی بات کہ ٹیکنالوجی نے اس تصور کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی ہیں مثلاًدنیا کا امیر ترین آدمی "AMAZON”کا مالک JEFF BEZOZہے جس کی دولت 157بلین ڈالر سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے تو اس "GREAT FORTUNE”کے پیچھے کون سا جرم ہے؟ سوائے ’’جرمِ ذہانت‘‘ کے جسے دنیا جرم نہیں سمجھتی۔یہی حال ایک عام سے وکیل کے یونیورسٹی ڈراپ (؟) صاحبزادے اور مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کا ہے جو 103 بلین ڈالر سے زیادہ کا مالک ہے اور اس نے کوئی ’’واردات‘‘ نہیں کی۔

نہ کبھی رشوت لی نہ کمیشن کک بیک کھایا نہ ٹی ٹیوں سے مال بنایا، البتہ ٹیکنالوجی کی بات علیحدہ ہے۔ واردات نہیں ایجادات!اب چلتے ہیں دانتوں کے گمنام ڈاکٹر کے بیٹے اور ’’فیس بک‘‘ کے بانی MARK ZUCKERBERGکی طرف جو 71بلین ڈالر سے زیادہ دولت کا مالک ایک معصوم اور بے ضرر سا آدمی ہے۔ یہی حال "UBER”کے بانی GARRETT CAMPکا ہے جو کمپیوٹر پروگرامنگ کا ماہر تھا۔THOMAS EDISONمیری پسندیدہ ترین شخصیات میں شامل ہے، بات بھی کچھ پرانی ہے، وہ بیچارہ گھروں میں اخبار پھینکا کرتا تھا لیکن 1093 ایجادات اس کے کریڈٹ پر ہیں اور واردات ایک بھی نہیں۔ زندگی میں اسے جو پہلا چیک پیش کیا گیا اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے اور اتنی دلچسپ کہ اسے پڑھتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔اسی طرح ’’گوگل‘‘ سے اپنے کیریئرز کا آغاز کرنے والوں میں ایک ہزار سے بھی زیادہ لوگ آج ارب پتی ہیں۔

یہ تو ہو گئیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی چند شرارتیں یا وارداتیں تو پہلی بار جب مجھے علم ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری سپورٹس یعنی کھیلوں کی ہے تو میں سکتے میں آگیا تھا اور اگر یہ غلط ہے تو پلیز! میری تصحیح فرمایئے۔ سپورٹس کا کوئی بھی سٹار راتوں رات ککھ پتی سے لکھ پتی ہو جاتا ہے اور اگر ڈالر روپے کا موازنہ کریں تو ان کا لکھ پتی ہمارے کروڑ پتیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ اسی طرح "GREAT FORTUNE”کیلئے کسی لکھاری کی ایک ہٹ کتاب، کسی سنگر کا ایک مقبول گیت اور کسی ایکٹر کی ایک بلاک بسٹر فلم ہی کافی ہوتی ہے جو اسے اربوں تک لے جاتی ہے۔مختصراً یہ کہ جدید دنیا کی جدید معیشت میں ایسی لاتعداد مثالیں ہیں کہ بندہ اوور نائٹ کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور کوئی اس پر انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ میں نے زندگی میں کبھی پرائز بونڈز نہیں خریدے کیونکہ نجانے کیوں مجھے اس تصور سے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے کہ بندہ کچھ کئے کرائے بغیر—– کچھ لے مرے۔

ہاسٹل کے زمانے میں شغلا ً ہلکا پھلکا جوا ہوتا، مجھے کہا بھی جاتا لیکن اس کام سے بھی نفرت ہی رہی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ کہ مجھے قطعاً معلوم نہیں کہ ہمارے پرائز بونڈز کی اوقات کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ ’’پرائز‘‘ کتنا ہوتا ہے لیکن پڑھ پڑھا اور سن سنا کر اس بات کا اندازہ ضرور ہے کہ مہذب متمول مغربی ملکوں میں ملینز کی لاٹریاں لگتی ہیں یعنی عہد حاضر میں "GREAT FORTUNE”کیلئے کرائم کے علاوہ بھی ایک ہزار ایک سو ایک راستے موجود ہیں جن میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں آج بھی یہ جملہ، محاورہ سو فیصد فٹ بیٹھتا ہے کہ یہاں آج بھی "GREAT FORTUNE”کیلئے "CRIME” بہت ضروری ہے اور جرائم کی مادر ملکہ ہے ہماری پیاری جمہوریت جس کا نام لے کر یا نقاب اوڑھ کر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ آغاز تو ہو چکا، اللہ کرے یہ سلسلہ اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچ سکے کہ جب GREAT FORTUNEکیلئے CRIME کے رستے بند ہو جائیں گے تو شاید فارچون ہنٹرز GREAT FORTUNEکیلئے CRIME کی جگہ CREATIVITYکے رستے تلاش کرنے کی کوشش کا آغاز کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے