دلچسپ معلومات

تمہید:اسلام کے بعض احکام اِباحت اور جواز کے لیے ہیں ‘ہر صورت میں لازمی نہیں ہوتے ۔ احکام میں یہ لچک اس لیے رکھی گئی ہے کہ مختلف زمان ومکان کے اعتبار سے اشخاص کے احوال مختلف ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1) ”تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہے ‘وہ نکاح کرلے ‘کیونکہ یہ نگاہوں کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا سبب ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا‘وہ روزہ رکھے‘کیونکہ اس سے شہوت ٹوٹتی ہے‘ (ابودائود:2046)‘‘۔ (2)”جب بندہ نکاح کرلے تواس نے آدھے دین کو مکمل کرلیا ‘ بقیہ کے لیے اللہ سے ڈرتا رہے‘ (المعجم الاوسط:7647)‘‘۔ (3)”زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے دینے والی عورت سے شادی کرو ‘ کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ( ابودائود:2050)‘‘۔

ان احادیث میں نکاح کے یہ مقاصد بیان کیے گئے ہیں: (1) توالد وتناسُل‘ جو بعض مستثنیات کے سوا ہر انسان کی فطری خواہش ہے ‘ یہاں تک کہ وحشی اورپالتوجانور بھی اپنے بچے پالتے ہیں اور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں ‘ سو یہ فطرتِ سلیم کا تقاضا ہے ۔افزائشِ نسل بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے ‘اگریہ فطرتِ انسانی کا مسلّمہ تقاضا نہ ہوتاتو انسانی آبادی اس قدر نہ بڑھتی ‘ شرحِ افزائش کے فرق کے باوجود یہ سلسلہ مغربی ممالک میں بھی جاری وساری ہے ‘نیز مرد اور عورت ایک دوسرے کیلئے پردہ پوش اور باعثِ سکون ہیں‘ کیونکہ جنسی خواہش بھی فطری تقاضا ہے‘ نکاح سے اُسے حُرمت مل جاتی ہے اور نسب محفوظ ہوجاتا ہے ‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وہ (اللہ ہی) ہے ‘جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ‘پھر اُسی سے اُس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے ‘ (الاعراف:189)‘‘۔ (2):”وہ تمہارے لیے اور تم اُن کے لیے لباس ہو‘(البقرہ:187)‘‘۔ حضرت ا بن عباسؓ نے کہا: ”وہ تمہارے لیے اور تم اُن کے لیے سکون کا سبب ہو ‘‘۔

(2)نکاح کے ذریعے انسان کی فطری خواہش شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے پوری ہوتی ہے ‘اسلام نے تو اسے ایمان کا حصہ قرار دیا ہے‘حدیثِ پاک میں فرمایا:(1)”حیا ایمان میں سے ہے‘ (بخاری:24)‘‘۔(2)”ایمان کے ساتھ اور کچھ شعبے ہیں اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ‘(بخاری:9)‘‘۔ (3)”اور جب تم میں حیانہ رہے ‘تو جو چاہو کرو‘ (بخاری:6120)‘‘،یعنی حیا بدی کے راستے میں ایک فطری رکاوٹ ہے ‘بے حیا انسان کے لیے بدکاری عیب نہیں رہتی۔ آزاد خیال لوگ نکاح کی راہ میںرکاوٹیں حائل کرنا چاہتے ہیں ‘ انہیں صرف جبرپر اعتراض ہے ‘ زنا بالرضا پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنادیا گیا ہے ‘جبکہ زنا بالرضا نہ قانوناً جرم ہے اور نہ عیب ‘اس لیے وہاں بِن بیاہی دوشیزائیں ملازمت کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔حال ہی میں ایمازون کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو کو طلاق کے تصفیے کے نتیجے میں اپنی مطلَّقہ بیوی کو اڑتیس ارب ڈالر دینے پڑے اور اسے عالمی میڈیا میں دنیا کی مہنگی ترین طلاق قرار دیا گیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اشخاص کے احوال کی رعایت کرتے ہوئے تعدُّدِ ازدواج کی اجازت کوانصاف کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ لبرل حضرات علما پر کثرت سے شادیاں کرنے اور ترغیب دینے کا طنزکرتے ہیں ‘ یہ خلافِ واقع بات ہے ‘اگر سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ علماکے مقابلے میں اشرافیہ میں یہ رجحان زیادہ ہے ‘آزاد خیال طبقات میں آئے روز شادیاں کرنا اور طلاقیں لینا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔یہ تمہیدی کلمات اس لیے بیان کیے کہ سینیٹ نے ایک پرائیویٹ بل ”نابالغ بچوں کی شادی کے امتناع کے قانون میں ترمیم‘‘کے عنوان سے پاس کیا ہے۔ اس بِل کی دفعہ نمبر3میں قانون شکنی کی سزا بڑھا کر زیادہ سے زیادہ تین سال قید بامشقت اور زیادہ سے زیادہ تین لاکھ جرمانہ رکھی گئی ہے۔

اس قانون کے تحت شادی کے لیے مرد کی کم از کم عمر اٹھارہ اور عورت کی عمر سولہ سال مقرر کی گئی ہے ۔ جنابِ اعتزاز احسن نے اس کے حق میںاخبار میں ایک آرٹیکل لکھا اور اُس میں اس بِل کے حق میں قائد اعظم کاتائیدی حوالہ دیا‘حالانکہ اُن کی پہلی شادی اپنی چچازاد ایمی بائی سے 14سال کی عمر میں ہوئی ‘اُس وقت مسٹر جناح کی عمر 16سال تھی‘اصول ہے: ”اگر کسی راوی کا اپنا فعل اُس کی روایت کے خلاف ہو ‘تو وہ روایت اُس کے نزدیک واجب العمل نہیں ہے‘‘۔ لبرل حضرات نکاح کے وقت شوہر اور بیوی کی عمر میں تفاوُت کو بھی طنز کا نشانہ بناتے ہیں‘ حالانکہ مسٹر جناح کی دوسری شادی بیالیس سال کی عمر میں اٹھارہ سالہ رتن بائی سے ہوئی تھی ‘ مفتی سید عدنان کاکا خیل نے اعتزاز صاحب کا اچھا تعاقب کیا ہے‘ اُن کاکالم اخبارات میں چھپ چکا ہے ۔

لبرل ازم کی شریعت مغرب سے درآمد ہوتی ہے ‘لبرل حضرات اسلامی تعلیمات کو توہدفِ تنقیدبنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘نہ خوفِ خدا اُن کے آڑے آتا ہے اور نہ انہیں مسلمانوں کی ناراضی کی پروا ہوتی ہے ‘البتہ مغربی افکار اُن کے نزدیک مقدس قرار پاتے ہیں ‘ مغرب کی حمایت یافتہ اور وسائل سے مالا مال این جی اوز ان افکار کی آبیاری میں مصروف رہتی ہیں ۔

20جون سے یکم جولائی تک امریکہ کے دورے کے دوران مجھے ”النور اسلامک سینٹر آف ہیوسٹن‘‘ میں ”النور انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سائنسز ‘‘کے جلسۂ تقسیمِ اسناد میں شرکت کا موقع ملا۔ میں چند سالوں سے امریکہ جارہا ہوں اور وہاں کے اہلِ فکر ونظر اور اسلامی مراکز کے منتظمین اس ضرورت کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ امریکن مسلمانوں کی دوسری یا تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور مساجد میں جمعہ کے اردو خطابات اوردروس سے استفادہ نہیں کرپاتے ‘کیونکہ اردو زبان اب اُن کے لیے اجنبی بنتی جارہی ہے ۔میں نے مشورہ دیا: ”اس کا حل یہ ہے کہ آپ اپنا ادارہ قائم کریں اور اس میں امریکہ میں پیدا شدہ بچوں کو دینی تعلیم دیں تاکہ وہ انگریزی زبان اور لب ولہجے میں دین کا ابلاغ کرسکیں ‘‘۔ اسی مقصد سے مندرجہ بالاادارہ قائم کیا گیا اور اُس کے دوسرے بیچ کا جلسۂ تقسیمِ اسناد تھا‘ ظفر ہاشمی ‘اختر عبداللہ اور ڈاکٹر سلیم گوپلانی صاحبان اوردیگر احباب اس ادارے کی انتظامیہ میں ہیں ‘ علامہ مفتی قمر الحسن اور علامہ ضیا المصطفیٰ اعظمی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں۔

یہ تجربہ ماشاء اللہ اچھا ثابت ہوا اور اب یہ مقامی فضلا مختلف اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ اسی طرح نیو یارک میں علماء ومشایخِ اہلسنت کی جانب سے ایک استقبالیے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ‘ اس کی تفصیلات الگ سے رقم کروں گا۔ امریکہ کے ہر دورے کے موقع پر ٹینیسی سٹیٹ کے شہر جانسن سٹی میں ڈاکٹرز ‘پروفیسرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ ڈاکٹر شہرام ملک صاحب کے دولت خانے پر ایک انتہائی مفید مجلس ہوتی ہے ‘مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے ‘ جناب ڈاکٹر خالد اعوان صاحب سے نہایت مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں ‘ میں ماضی میں قارئین کو ان سے آگاہ کرتا رہا ہوں ۔اس مجلس میں ‘میں نے وہاں کے باخبر اہلِ علم سے معلوم کیا کہ آیا امریکہ میں سولہ یا اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی قابلِ تعزیر جرم ہے ‘ جو ہمارے ہاں تجویز کیا گیا ہے ‘ تو مجھے حیرت انگیز معلومات دستیاب ہوئیں ‘جن کا خلاصہ یہ ہے:

1۔امریکہ کی تمام ریاستوں میں شادی کرنے کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے‘ مگر اڑتالیس ریاستوں میں والدین کی اجازت سے اس سے کم عمر بچے بھی شادی کرسکتے ہیں‘بظاہر یہ عمر 16یا 17 سال بتائی جاتی ہے‘ مگر سترہ ریاستوں میں ایسا کوئی واضح قانون موجودنہیں ‘ جس میں شادی کے لیے والدین کی اجازت سے لڑکے یا لڑکی کی کم سے کم عمر کا تعین کیا گیا ہو‘(2)ان ریاستوں میں ایساکوئی قانون نہیں کہ والدین نابالغ بچوں کی شادی زبردستی نہیں کراسکتے حتیٰ کہ اگر ایک نابالغ بچی کی شادی والدین زبردستی کر رہے ہوں اور حکومتی افسر کے سامنے والدین کے شادی کی درخواست پر دستخط کرنے کے وقت وہ بچی سسکیاں لے رہی ہو تو پھر بھی سرکاری افسر کو اُس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہے‘(3)دنیا میں اٹھاسی فیصدملکوں میں شادی کی قانونی عمر 18سال ہے ‘مگر ان میں سے باون فیصدممالک میں اس امر کی اجازت ہے کہ والدین چاہیں تو اس سے کم عمر بچیوں کی شادی کراسکتے ہیں‘(4)دستیاب اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک عورت کی شادی بلوغت سے پہلے ہوئی ہے اور ان میں کافی تعداد امریکیوں کی ہے۔

امریکی ریاستوں میں شادی کے لیے عمر کی حد کے بارے میں ایک قانون نہیں ہے ‘ بعض جگہ والدین کی رضامندی سے بارہ سال تک کی عمر میں شادی ہوسکتی ہے ۔واشنگٹن سمیت بعض ریاستوں میں شادی کی عمر سترہ سال ہے ‘ الباما ‘الاسکااور ایریزونامیں بعض شرائط کے ساتھ سولہ سال سے کم عمر میں شادی ہوسکتی ہے ۔ٹیکساس اور نیویارک میں والدین کی رضامندی اور عدالت کی اجازت سے سولہ سال سے کم عمر جوڑوں کی شادی ہوسکتی ہے ‘ان میں لڑکے کی عمر چودہ اورلڑکی کی عمر تیرہ سال سے کم نہیں ہونی چاہیے ۔ ہوائے اور مسوری میں والدین کی رضامندی سے شادی کی عمر کی حد پندرہ سال ہے ‘نیو ہمشائر میں لڑکے کی عمر چودہ ‘جبکہ لڑکی کی عمر کی حد تیرہ سال ہے۔ میساچوسٹس میں لڑکے کی عمر چودہ سال جبکہ لڑکی کی بارہ سال ہے ‘ کیلی فورنیا اور مسی سیپی کی ریاستوں میں شادی کے لیے عمر کی کوئی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی حد مقرر نہیں ہے ۔ پچاس میں سے چالیس ریاستوں میں شادی کے لیے کامن لانہیں ہے ‘ان میں سے چھ میں پہلے تھا ‘ لیکن بعد میں ختم کردیا گیا ‘ جبکہ دس ریاستوں میں موجود ہے ۔

اگر لڑکی زنا سے حاملہ ہوجائے ‘مردوزن کے اختلاط کی وجہ سے اس کے شواہد امریکہ میں دستیاب ہیں‘تواس لڑکی کی کم عمر میں شادی ہوسکتی ہے ‘آج کل امریکہ میں دس سال کی عمر کے بچے بھی زنا کرنے لگے ہیں‘ کیونکہ عورت مرد کا اختلاط عام ہے۔جن ریاستوں میں شادی کی کم از کم عمر قانوناً مقرر نہیں ہے‘ وہاں پر عام طور پر مرد کے لیے 14 سال اور عورت کے لیے 12سال قبول کی جاتی ہے۔ 23 ریاستوں میں 16سال سے چھوٹے بچے نکاح کرسکتے ہیں‘ مثلاً: پچھلے15سالوں میں امریکہ میں دولاکھ نابالغوں کی شادیاں ہو ئیں۔ ٹینیسی ریاست میں 10سال کی بچی شادی کرسکتی ہے‘یہ معلومات 2018 کی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے