ہم اذیت پسند کیوں ہو گئے؟

ہم اذیت پسند کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ لطیف انسانی جذبات دم توڑ رہے ہیں اور خانہ ویراں میں اہلِ دل اب درو دیوار پر اشک بہاتے ہیں ۔ وحشت کدے میں ہیجان ہے ، نفرت امڈ رہی ہے ، بے زاری ہے ، بد گمانیاں ہیں ، دل پتھر ہو گئے ہیں اور سوچیں سفاک ۔ لہجوں میں آتشِ دوزخ کی تپش ہے ۔ طنز ، تحقیر ، تذلیل ، تمسخر ، بستی میں سب کی فراوانی ہے بس ایک خیر خواہی ہے جو جنس نایاب ہوتی جا رہی ہے ۔ دیدہِ حیران سراپا سوال ہے : اس سماج کو کیا ہو گیا ؟ اس کی حسِ لطیف کیا ہوئی ؟ درد جب رگِ جاں میں اترتا ہے تو غالب یاد آتاہے : اب میں ہوں اور ماتم ِ یک شہرِ آرزو ۔

تدبیرِ رفو قصہ ماضی ہے ، اب تو جنگجو شمشیر بکف پھرتے ہیں ۔ کیا میڈیا ، کیا سوشل میڈیا ، کیا پارلیمان کیا حلقہ احباب ، نہ حسنِ ذوق بچا ہے نہ کہیں رعنائی خیال ہے ۔سخن آزردہ لبوں پر صرف سیاست ہے ۔ حریف کو تہس نہس کر دینے کی آرزو آنکھوں میں انگاروں کی صورت پنہاں ہے۔ عصبیتوں کا آزار ساون بن کر برس رہا ہے اور شگوفوں کی جگہ نفرت پھوٹ رہی ہے ۔ سب کو سیاست سوجھی ہے سبھی دانشور بن گئے ہیں ۔ پتھر لہجوں میں بجلیاں کوندتی ہیں۔ لُطفِ الفاظ ہے نہ حُسنِ معانی ۔ بزمِ ناز میں کوئی میر کو جانتا ہو تو اسے میر کی سنائیں : بلبل سے کوئی سیکھ لے انداز سخن کا۔

انسان کی فطرت میں بہت سے تقاضے رکھ دیے گئے ہیں۔ایک اس کا مادی وجود ہے ، ظاہر ہے اس کے لیے آسودگی بھی لازم ہے ۔ فکری وجود بھی ہے اور اس کے تقاضے بھی مقدم ہیں ۔ روحانی وجود کی بھی اپنی احتیاج ہے ۔ اس میں عصبیت کے آزار بھی ہیں اور افتاد طبع کے کمزور پہلو بھی ۔ ہستیِ موہوم مگر جمالیاتی وجود بھی رکھتی ہے۔جمالیاتی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو انسانی زندگی عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے ۔ جب یہ توازن بگڑتا ہے تو حادثے جنم لیتے ہیں ۔ یہ واردات انفرادی ہو تو انسانی وجود میں دھول اڑتی ہے اور یہ حادثہ معاشرے پر بیت جائے تو ہنستا مسکراتا نخلستان ، ریگزار بن جاتا ہے۔

آج ہم ایک ایسے ہی ریگزار میں کھڑے ہیں ۔ ہر سو دھول اڑ رہی ہے ۔ سبھی سینیئر تجزیہ کار ہیں سبھی کو سیاست لاحق ہو چکی ہے ۔ اخبار کے صفحہ اول پر سیاست ، ادارتی صفحے پر سیاست ، ٹاک شو میں سیاست ، شادی کی تقریب میں سیاست ، بزم یاراں میں سیاست ، دفتر میں سیاست ، جنازہ گاہ میں سیاست ، کیا زندگی صرف سیاست کا نام ہے؟ سماج کے مسائل بھی بے شمار ہیں اور تقاضے بھی ، سوال یہ ہے کہ ان سب سے اتنی بے اعتنائی کیوں ؟ کوئی شعرو ادب کی بات ہو ، کوئی سخن شناسی کی محفل آباد ہو ، کوئی علم و تحقیق کا گوشہ آباد ہو ۔ یہ کیا اودھم مچا ہے کہ ہر سو سیاست ۔ کیا اس ہیجان انگیز رویے کے ساتھ ایک متوازن سماج کی تشکیل ممکن ہے؟

چند روز استاد غلام علی خان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تو یوں محسوس ہوا کسی نے ریگزار سے اٹھا کر نخلستان میں لا کھڑا کر دیا ہے ۔ معلوم ہوا زندگی کا ایک رنگ یہ بھی ہے ۔ رنگ کیا ہے ایک قوس قزح ہے ۔ عرصے بعد کسی نے احساس دلایا حسن تخیل کیا ہوتا ہے اور رعنائی خیال کسے کہتے ہیں ۔ اردو ہماری تہذیب ہے اور استاد غلام علی اس کا ایک استعارہ ۔ غالب سے جو سفر شروع ہوا غلام علی پر آکر اپنے کمال کو پہنچا ۔ ’’آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک ‘‘ حسن تخیل کا ایک شاہکار ہے لیکن یہ استاد غلام علی ہیں جنہوں نے اسے امر کر دیا ۔ حسرت موہانی بڑے شاعر ہوں گے لیکن ’’چپکے چپکے رات دن ‘‘ جب غلام علی کے لبوں کو چھو کر نکلی تو ایک شاہکار تخلیق ہو گیا ۔ ابن انشاء کا قلم بھی زندگی کے رنگ بکھیرتا ہے لیکن یہ قوس قزح تب بنتا ہے جب غلام علی جادو جگاتا ہے ’ کل چودھویں کی رات تھی‘ ۔ اکبر الہ آبادی بھی میر سخن سہی لیکن ارتعاش تب پیدا ہوتا ہے جب استاد غلام علی سراپا سوال بنتا ہے : ’’ ہنگامہ ہے کیوں برپا‘‘۔ منیر نیازی کی برہمی کی سوغات اپنی جگہ لیکن یہ غلام علی خان ہے جو اس میں درد کا رس یوں انڈیل دیتا ہے جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترتی ہے۔

چاسر کی کینٹربری ٹیلز پڑھانے کے بعد سر رئوف جمال نے Sublimity پر طویل لیکچر دے کر پوچھا ۔ ایک لفظ میں بتائیے Sublimity کیا ہے ۔ ایک آواز آئی غالب ۔ سر جمال نے کہا : آصف تم بتائو۔ میں نے کہا غالب کا کلام اگر غلام علی کے منہ سے ادا ہو تو اسے Sublime کہیں گے ۔ روئوف جمال کہنے لگے Sublimity کی اس سے اچھی تشریح ممکن ہی نہیں۔

غلام علی کا کلام سننا بھی ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اقلیم سخن سے رہ و رسم نہ ہو تو اس کوچے میں آنا ممکن نہیں ۔ خود غلام علی کا ذوق ادب مجھے حیران کر گیا ۔ میں سوال پوچھتا گیا وہ جواب میں شعر سناتے چلے گئے۔ مجھے خود پہ بہت ناز تھا کہ شعر و ادب سے قدیم رہ و رسم ہے اور غالب کو میں نے سبق کی طرح پڑھا اور سمجھا ہے لیکن معلوم ہوا اپنامعاملہ تو ابھی طفل مکتب کا سا ہے۔ استاد غلام علی نے درجنوں شعر سنائے ، میرے لیے سب نئے تھے۔ یاد بھی صرف ایک رہا ، وہ بھی اس لیے کہ سنا تو لکھوا لیا۔

غلام علی کو لاہور روانہ کر کے ، میں خانس پور کی اس خاموش بستی کے کونے پر بیٹھا ہوں ، نیچے وادی میں شام کے سائے پھیل رہے ہیں ۔ خاموشی ہے ۔ کبھی کبھار صرف اس گوشے میں بیٹھنے کے لیے یہاں آ جاتا ہوں ۔ دوپہر سے سہہ پہر ہو جاتی ہے اور پھر وادی میں شام اتر آ تی ہے ۔ یہ خاموشی بھی شاید میرے وجود کی ایک احتیاج ہے ۔ میں پہاڑوں ، وادیوں سے دور نہیں رہ سکتا ۔ شعر و ادب اور موسیقی سے دور رہنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ۔ شاید فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ زندگی میں توازن قائم رکھا جائے ۔ افسوس ہم نے اپنی اجتماعی زندگی میں ، عرصہ ہوا، یہ توازن کھو دیا ۔ ہم حس لطیف سے دور ہو گئے ۔ رعنائی خیال روٹھ گئی ۔ ذوق لطیف نہ رہا ۔ شدت پسندی آ گئی ۔ مزاج تلخ ہوتے گئے۔ بد گمانیاں بڑھ گئیں ۔ دیدہِ حیران سراپا سوال ہے : اس سماج کو کیا ہو گیا ؟ اس کی حسِ لطیف کیا ہوئی؟ درد جب رگِ جاں میں اترتا ہے تو غالب یاد آتاہے : اب میں ہوں اور ماتم ِ یک شہرِ آرزو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے