دیس کا پردیسی۔

ہمارے بہت سے دوست احباب جو پردیس میں بسلسلہ روزگار ہوتے ہیں انکے مسائل دیس میں رہنے والے کبھی سمجھ نہیں پائیں گے۔ ایک تو گھر والوں سے دوری پھر پردیس کی مشقت اوپر سے روزگار کے مسائل کے کمانا اور صرف گھر والوں کو ہی نہیں بھیجنا بلکہ اپنے گزارے کا بھی سامان کرنا ہے۔ رہنا کھانا پینا سفر سب خرچے تو اپنی جگہ اگر بندہ بیمار پڑجائے تو مفلسی میں آٹا گیلا والی بات ہوتی ہے۔ اوپر سے گھر والوں کی فرمائیشیں الگ ۔ اگر فرمائیشیں نہ ہوں تو یہی نخرہ جان کو آجاتا ہے کہ کب واپس آؤگے۔ اوپر سے والدین کی ضد کے بس آجاؤ ۔ بیگم کی رٹ کے کم میں رہ لیں گے ___ بس اب بہت ہوا آہی جاؤ۔

اور جناب پانچ سات سال کی مشقت اٹھاکر حالات سے لڑتا بھڑتا اور پردیس کے پرسکون خاموش ماحول کا عادی مرد جب واپس دیس پدھارتا ہے تو وہی گھر والے جو ملنے کو بےچین تھے اب وہی بات بے بات طعنہ مارتے ہیں ۔

کچوکے لگاتے ہیں۔ بیوی الگ سسرال کی زیاتیوں اور اپنی مظلومیت کا رونا رو رو کر شوہر کو چڑچڑا اور بےسکون کردیتی ہے۔ وہی باپ اور بڑے بھائی بڑے زور پر بلالیتے ہیں کہ بس سب چھوڑ چھاڑ آجاؤ ہم دیکھ لیں گے اور تمہارا کاروبار لگادیں گے۔ لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ہے بلکہ دیس لوٹ کر حالات مزید ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ اور مرد کو اپنے ہاتھ پاؤں کٹنے جیسا احساس ہوتا ہے۔ بس ایک سہولت کہ فیملی ساتھ ہوتی ہے اور بغیر ہاتھ ہلائے پکا پکایا بیوی یا ماں کے ہاتھ کا مل جاتا ہے۔ ورنہ جو مرد ڈالرز پونڈ یا یورو میں کماچکے ہوں انکے لئے روپے میں کوئی برکت نہیں۔ کیونکہ روپے کمانے والے ڈالرز کے ریٹ پرخرچ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ مہنگائی کا جن انکی رہی سہی ہمت بھی توڑنے کے درپر ہوتا ہے۔

اب یا تو یہ مرد حالات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں کہ بس جیسے تیسے گزررہی ہے گزرہی جائے گی۔ کہ کم از کم کھانے کے اور چھت کے لالے تو نہیں پڑرہے۔ جبکہ بعض کیسیز میں بہت بدترین صورت تک دیکھنے کو ملی ہے۔

واپس جا نہیں سکتے کہ گھر والے جانے نہیں دیں گے اور جانے دیں بھی تو کیسے۔کہ بقول گھر والوں کے کہ باہر بھی کوئی بہت بڑا تیر مارکر نہیں آئے۔

بسا اوقات باپ یا بیوی پاسپورٹ تک ضبط کرلیتے ہیں۔

گھر میں ویلیو صفر برابر — کے نہ ہی کوئی اسٹیبلش کاروبار ہے نہ ہی پردیس سے مال بناکر لوٹا ہے ، اولاد سے تعلق —- اگر چھوٹی ناسمجھ ہوتو دل کے بہلاوے جیسا اور اگر سمجھدار ہو تو اسکی ضرورتوں اور فرمائیشوں کے آگے خود کو ہارا ہوا محسوس کرنا ، نفسیاتی الجھاؤ کہ کبھی بیوی سے بنتی تو کبھی بگڑتی ہے کہ وہ غریب بھی بسااوقات حالات کی ماری ہوتی ہے تو بسااوقات باہر کے پیسوں کی اسکو عادت لگ چکی ہوتی ہے اور دیس واپسی پر دیوارنی جٹھانی کی چبھتی نظریں اسکو محسوس ہوتی ہیں … ساتھ ہی اگر شوہر خوبصورت ہو اور بیوی شوہر سے خوبصورتی میں کافی کم ہو اور اتفاق سے ان کی لو میرج بھی ہوگئی ہو تو ایسے میں بیوی خطرناک حد تک شکی ہوجاتی ہے کہ اتنے سال جو باہر رہا تو یقیناً کوئی نہ کوئی گل کھلایا ہی ہوگا یا جس طرح میری جھولی میں پکے پھل کی طرح گرا ہے تو بس اب یہ گرا پڑا ہی ہے۔ ان سب حالات سے تنگ مرد چڑچڑا جسمانی و نفسیاتی بیمار ہوجاتا ہے.

[pullquote]مشورہ :[/pullquote]

ایسے مرد کو سب سے پہلے اپنی اسپیشلٹی ڈسکور کرنی چاہیے اور پھر چاہیے کے زیرو سے شروع کرے لیکن مستقل مزاجی اور لگن کے ساتھ کام کرے….ان شاء اللہ چھ ماہ اندر حالت بدل جائے گی۔

…سب سے اہم چیز اپنی فیلڈ کا انتخاب کرنا اور پھر اپنی جیب کی حیثیت کے مطابق اس کو شروع کرنا ہے۔

فیلڈ کی اسپیشلٹی اسی چیز کو کہتے ہیں کہ متعلقہ آئٹمز کے بارے میں مکمل معلومات ہو کہ اسٹور کیسے کرنا ہے…کتنا کرنا ہے….سردی میں سیل کیا ہوگی اور گرمی میں کیا ہوگی۔

کاروبار شروع کیا اوراگر ڈیمانڈ کم ہے اور مال کے خراب ہونے کا خطرہ ہے تو نو لاس نو پرافٹ پر اس مال کو بیچ دیں اور وہ مال خریدیں جس کی اس وقت موسم کے حساب سے ڈیمانڈ ہے۔

ایک بہت بڑا مسلہ جو اکثر مردوں کو درپیش ہوجاتا ہے کہ جو پیسے لیکر آتے ہیں کاروبار میں لگاتے ہیں یا تو گھاٹا ہوجاتا ہے یا پھر کوئی اپنا سگا جو پارٹنر ہو وہ دھوکہ دے جاتا ہے۔

گھر پر الگ طعنہ پڑتا ہے کہ باہر کیا کیا۔ اور اب جو واپس آگئے ہو کیا کررہے ہو کوئی کام ہوکر نہیں دیتا۔ ایسے میں مرد سوچتا ہے کہ کیا کرے۔

ایسی سیچؤیشن کا حامل مرد واپس آ کر کاروبار نہ کرے. جو کاروبار کرنا ہے اس میں ملازمت کرے اور حالات سمجھے. واپس آنا عملی زندگی کا تسلسل نہیں ہوتا بلکہ اسےازسر نو شروع کرنا ہوتا ہے..

اور جو کاروبار میں پیسہ لگا چکے ہوں اور انکا سرمایا ڈوب چکا ہو یا ڈوب رہا ہو اور والدین بیوی اور بھائیوں سے طعنے پڑتے ہیں، ایسے لوگ یا تو جاب کر لیں … کسی بھی قسم کی. چار آنے بھی گھر لا سکیں گے، گھر سے کچھ وقت دور بھی رہ سکیں گے اور کچھ متبادل سوچنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ یا پھر کسی مخلص بھروسے مند کاروباری ذہنیت و تجربہ رکھنے والے دوست کے ساتھ انویسٹمینٹ کریں تاکہ نقصان کے چانس کم سے کم ہوں۔

ایک بہت اہم بات کہ اصل سمجھداری کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ مرد گھر میں اپنی اصل دل کی بات نہ بتائے جیسے کہ اصل تنخواہ گھر پر کبھی نہ بتائے۔ اپنے پلانز نہ بتائے۔

پاکستان جائیں ضرور جائیں لیکن دماغ کو ہر طرح پلان کرکے کہ مجھے کیا اور کیسے کرنا ہے۔

دوسرا یہ کہ گھر والوں کو ہرگز نہ بتائیں اگر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آنے کا ارادہ ہے تو —– بلکہ انکو یہی تاثر دیں کہ میں ملنے آیا ہوں۔ اس دوران اپنا کام تلاشیں اگر بات بن جائے تو ویل اینڈ گڈ اگر نہیں بنتا تو واپس جانے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔ اور بیٹا یا میاں واپس چلاجائے گا یہ احساس گھر والوں کی نظر میں آپکو مہمان رکھے گا اور قدر بنی رہے گی۔ جب کام بن جائے تو جزباتی سین بناکر بول دیں کہ اب تم لوگ کے بغیر کیسے رہوں گا سوچتا ہوں رہ ہی جاؤں۔ اس وقت گھر والوں کی اصلیت اپنے فیس ایکسپریشن کے ساتھ سامنے ہوگی۔
اور ہاں باہر سے آئیں تو تمام دروازے بند کرکے کبھی مت آئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے