جانور نامہ

میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کچھ جانوروں کے بارے میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ یہ کالم پڑھ کر بھولے ڈنگر نے کہا ’’تم نے سب سے بڑے جانور انسان کا تو ذکر ہی نہیں کیا، تم بیشک خود کو اس صف میں سے نکال کر الگ کھڑے ہو جاتے لیکن اپنے بھائی بندوں کے حوالے سے اتنی بڑی ڈنڈی تو نہ مارتے‘‘ لیکن میں خاموش رہا۔ ویسے بھی اسے اصل گرمی اس بات کی تھی کہ جہاں میں نے اتنی محبت سے دوسرے جانوروں کا ذکر کیا تھا، وہاں تھوڑا بہت کلمۂ خیر میں اس ’’ڈنگر‘‘ کے بارے میں بھی کہہ دیتا، تاہم میرے اس دوست کا اعتراض ٹھیک ہے، میں آئندہ کبھی آج کے جانور نما انسانوں کا تذکرہ ضرور کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ پرندوں چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کا بھی مجھ پر حق ہے اور میں اس فرض سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہوں، سب سے پہلے میں چھپکلی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔

آپ چھپکلی کی ہیت کذائی پر نہ جائیں، اسکی بدصورتی کو بھی دل سے نکال دیں اور آپ اس کی خود اعتمادی اور اپنے شکار کیلئے اُس کی قلابازیوں کو نظر میں رکھیں تو میری طرح آپ بھی اسکے قائل ہو جائیں گے۔ اپنے سے بڑوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور اس کی خود اعتمادی کو پنجابی کا ایک محاورہ پوری طرح واضح کرتا ہے۔ شاید آپ نے بھی سنا ہو اگر نہیں تو میں آپ کیلئے اسے اردو میں ٹرانسلیٹ کر دیتا ہوں یعنی ’’ذات کی چھپکلی اور چھت کے شہتیروں سے جپھے‘‘ اس محاورے میں ذات پات کا ذکر مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا لیکن اس کے بغیر بات واضح نہیں ہو سکتی تھی، ہم انسانوں میں بھی بہت سی چھپکلیاں پائی جاتی ہیں جو حکمرانوں اور ان کے لے پالکوں کو ’’جھپیاں‘‘ ڈالنے کیلئے ہمہ وقت بے قرار رہتی ہیں بلکہ یہ چھپکلیاں تو اپنے مقصد کے حصول کیلئے مادہ چھپکلیوں سے بھی کام لیتی ہیں۔

ایک دفعہ میں نے ایک ’’چھپکلے‘‘ سے پوچھا ’’میاں تم اپنی ذات کی نفی کرکے خواہ مخواہ شہتیروں سے جا چمٹتے ہو، اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟‘‘ بولا ’’یہ سب تم انسانوں کی ہم سے نفرت اور کراہت کا شاخسانہ ہے، تمہارے سامنے اگر کوئی ہمارا نام بھی لے لے تو تمہیں اُبکائی محسو س ہونے لگتی ہے۔ تم نے ہم چھپکلیوں کو ’’کوڑھ کِرلی‘‘ کا نام بھی دیا ہوا ہے، تم سمجھتے ہو کہ ہماری وجہ سے معاشرہ کوڑھ کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے، چنانچہ ہم زمین پر رینگ رہے ہوتے ہیں، تم جوتے سے ہمیں نشانہ بناتے ہو، تمہارا نشانہ خطا ہو جاتا ہے اور ہم دیوار پر چڑھ جاتے ہیں، تم دیوار کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہو تو یہ چھتوں کے شہتیر ہی ہیں جو ہمارے لئے محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوتے ہیں۔ تم انسانوں میں بھی تو بہت سی چھپکلیاں اور چھپکلے ہیں جو اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے معاشرے کو کوڑھ کے مرض میں مبتلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں“۔

میں لاجواب ہو گیا کیونکہ اس نے وہی بات کہی تھی جو میرے اپنے دل میں بھی تھی لیکن جب اس نے یہ کہا کہ کیا تمہارے کالم نگاروں میں کوئی چھپکلی نہیں ہے؟ تمہارے اینکر پرسنز میں کوئی کوڑھ کِرلی نہیں ہے؟ تمہارا کوئی لیڈر یا کوئی سیاسی جماعت معاشرے میں کوڑھ نہیں پھیلا رہا؟ تو مجھ سے اس چھپکلے کی یہ گستاخی اور زبان درازی برداشت نہیں ہوئی چنانچہ میں نے اپنی جوتی سے اس کا نشانہ لیا لیکن وہ برق رفتاری سے دیوار عبور کرتا ہوا اپنی محفوظ پناہ گاہ میں داخل ہوگیا اور اب مجھے شہتیر کے سوراخ میں سے اسکی صرف لمبی زبان نظر آ رہی تھی، جسے وہ باہر نکالتا تھا اور پھر قرب و جوار میں نظر آنے والے کیڑے مکوڑوں کو ہڑپ کر جاتا تھا، مجھے ان لمحوں میں یوں لگا جیسے وہ میری بے بسی پر دانت نکال رہا ہو!

بلی ایک بہت خوبصورت جانور ہے۔ یہ بہت Loving natureرکھتی ہے۔ کتا مالک کا وفادار ہوتا ہے اور بلی گھرکی وفادار ہوتی ہے۔ کتے کا مالک اسے کہیں بھی لے جانا چاہے وہ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے لیکن بلی جس گھر میں رہتی ہے اسے چھوڑنے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتی۔ گلزار وفا چوہدری مرحوم نے میرے چھٹی جماعت کے کلاس فیلو اور مشہور شاعر ناصر زیدی کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ناصر اپنی شہرت دور دراز مقامات تک پہنچانے کیلئے دور دراز مقامات کا سفر اختیار کرتے ہیں لیکن ان کی شہرت اس بلی کی مانند ہے جسے اس کا مالک بوری میں بند کر کے کہیں دور پھینک آتا ہے لیکن وہ مالک سے پہلے واپس گھر پہنچ جاتی ہے‘‘۔

ایک وقت تھا کہ بلی کبھی جنگل میں رہا کرتی تھی، ایک دن جنگل کے سناٹوں سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ بقول نیئرؔ شیر بن گئی مگر جو بلیاں جنگل کی دہشت کا مقابلہ نہ کرسکیں وہ شہروں میں آباد ہو گئیں اور ان کی آرام طلبی نے انہیں شیر نہیں بننے دیا، چنانچہ میں نے دیکھا کہ یہ گرمیوں کے موسم میں ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں مالک کی گود میں جا بیٹھتی ہیں اگر کہیں ایئر کنڈیشنر نہ ہو تو آپ انہیں ریفریجریٹر کے پاس براجمان دیکھیں گے کہ اس کا دروازہ کھلنے پر انہیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میسر آتے ہیں، سردیوں میں یہ آپ کے لحاف میں گھس جاتی ہیں، گھروں میں رہنے کی وجہ سے انہیں چھیچھڑے وغیرہ ملتے رہتے ہیں، چنانچہ انہیں شکار میں زیادہ دلچسپی نہیں رہتی جس کی وجہ سے گھر میں چوہے دندناتے پھرتے ہیں۔ ایسی بلیاں کبھی کبھار محض خون گرم رکھنے کیلئے کسی چوہے پر جھپٹتی ہیں اور اسے پنجہ مار کر زخمی کر دیتی ہیں، تاہم اسے بھاگنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی جاتا ہے کہ ایک بار پھر اس پر جھپٹتی ہیں اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔ یہ ان کا کھیل بھی ہے اور گھر کے مالک کو دلاسا بھی کہ ہم اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ پولیس اور اس نوع کے دوسرے اداروں کو آسائش و آرام کا اتنا عادی نہیں بنانا چاہئے کہ گھر میں ’’چوہے‘‘ دندناتے پھریں۔

[pullquote](جاری ہے)[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے