ہیجان کب ختم ہو گا؟

بے نظیر حکومت سنبھالتی ہیں تو نواز شریف اسے گرانے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، نواز شریف کو اقتدار ملتا ہے تو عمران خان ڈی چوک میں دھرنا دے ڈالتے ہیں اور عمران خان کو حکومت ملتی ہے تو اس کے خلاف تحریک کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ ہر دور میں ہر ایک کے پاس اپنے ہر اقدم کے درجنوں دلائل ہوں گے ۔ ہو سکتا ہے ان دلائل میں وزن بھی ہو ۔ لیکن ایک عام شہری کے طور پر میرا سوال یہ ہے کہ یہ ہیجان کب ختم ہو گا؟ ایک عام آدمی ، اس کے مسائل اور اس کی محرومیوں پر کب بات ہو گی؟ یہ پتلی تماشا کب تک جاری رہے گا؟

حکومت کا کام عوام کی فلاح و بہبود ہے لیکن یہاں جو بھی اقتدار میں آتا ہے اس کی ساری توانائی اپنے اقتدار کو بچانے میں برباد ہو جاتی ہے ۔ وہ جب تک اقتدار میں رہتا ہے اسی جمع تفریق میں رہتا ہے کہ اقتدار کی مدت کو عدت سمجھ کر کیسے مکمل کیا جائے ۔ حکومت کو ایک ہفتہ نہیں گزرتا اسے گرانے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ کوئی ارشاد فرماتا ہے مارچ میں مارچ ہو گا ، کوئی گیانی اعلان کرتا ہے ستمبر ستم گر ہو گا، کوئی قلندر خبر دیتا ہے قربانی سے پہلے قربانی ہو گی ۔

دوسری جانب سے جواب آں غزل شروع ہو جاتا ہے ۔ حکومت مدت پوری کرے گی ، سب ایک پیج پر ہیں وٖغیرہ وغیرہ اور وغیرہ ۔ اسی کھینچا تانی میں کوئی پانچ سال پورے کر جاتا ہے اور کوئی بیچ میں ہی کھیت رہتا ہے ۔ ہمارا شعور اجتماعی اسی جاوے ای جاوے اور آوے ای آوے کی بیچ جھولے لیتا رہتا ہے ۔ ایک کو گھر بھیج کر اپنے تئیں ہم انقلاب عظیم برپا کر ہی چکے ہوتے ہیں کہ آنکھوں کی نمی احساس دلاتی ہے اللہ بخشے کفن چور کا باپ تو بہت نیک آدمی تھا صرف کفن چوری کرتا تھا ۔ میدان سیاست میں ہماری جملہ اچھل کود کا حاصل یہی ہے ۔ تین ساون آوے ای جاوے اور چاڑ جاڑے جاوے ای جاوے ۔ سوال یہ ہے کہ دائروں کا یہ سفر کب ختم ہو گا؟

پارلیمان میں ، ٹاک شوز میں ، گلی محلے میں ایک ہیجان کا عالم ہے ۔ سیاسی وابستگیاں نفرت اور دشمنی میں ڈھل چکی ہیں ۔ جسے ہم سیاسی شعور کہتے ہیں دیہی معاشرے میں یہ سیاسی نفرت کی بنیاد پر قائم دھڑے بندی کے سوا کچھ نہیں اور اب شہروں میں بھی قریب قریب یہی عالم ہے ۔ شعلہ بیان سیاسی قیادت جو زبان و بیان کے اسلوب کو پامال کرنے پر تلی بیٹھی ہے ہر شام اپنے طرز کلام سے اس نفرت کو فروغ دے رہی ہے ۔ اقدار ، حفظ مراتب ، عزت ، احترام ، وضع داری سب قصہ ماضی ہوا ۔ جو قیادت خلق خدا سے ہاتھ ملانے کی روادار نہیں اس قیادت کی محبت میں دوستیاں تو کیا یہاں رشتوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی ہے ۔ ایک قائد کے حصے کے بے وقوف دوسرے قائد کے حصے کے بے وقوفوں سے الجھتے رہتے ہیں اور لڑتے لڑتے ہو گئی گم ، ایک کی چونچ اور ایک کی دم تک جب معاملہ پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے اپنے قائد کو دوسرے کے قائد سے گلے ملتے دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے ۔

زبان و بیان ٓالودہ ہو گئے ۔ ہر گروہ میں اب وہی معتبر ہے جو زبان دراز ہے ۔ وہی قابل احترام ہے جس کی زبان سے کسی کی عزت محفوظ نہ ہو ۔ کارپوریٹ میڈیا کو سر شام ایسے ہی عالی ہمت مہمانوں کی تلاش ہوتی ہے جو تہذیب ، اخلاق اور اقدار کو پامال کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی نہ ڈگمگائیں ۔ کارپوریٹ میڈیا میں اسے ریٹنگ کہا جاتا ہے ۔ عوام کے لیے یہ تفریح ہے ۔ دنگل اب قانونی طور پر ممنوع ہے ، لوگوں نے اس کا متبادل ڈھونڈ لیا ۔ سر شام اب اکھاڑہ سجتا ہے ، میدان اسی کے نام رہتا ہے جو زیادہ اونچا بول لے اور دوسری کی زیادہ دلجمعی سے تذلیل کر لے ۔ جو یہ کام نہ کر سکے قیادت کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔ رستم وہی ہے جو ایک ہی لمحے میں اخلاقیات اور اقدار کو چاروں شانے چت کرا دے ۔ سماج میں تفریح کے مواقع ویسے ہی کم ہیں ۔ تفریح اب یہی ہے کہ کس کے ہاتھ میں کتنے گریبانوں کی دھجیاں ہیں ۔ مذہب ہو یا دھیما پن اور شائستگی سماج کو راس ہی نہیں آتا، یہاں آج بھی شعلہ بیان مقرر ہونا ندمات کی نہیں فخر کی علامت ہے ۔

آسودہ حال چند لوگ سیاست کے برہمن ہیں ۔ شودر سارا دن اس برہمن طبقے کو موضوع بنائے رکھتے ہیں ۔ دکھ بھی ہیں تو سیاسی برہمن کے ، خوشیاں بھی ہیں تو ان کی ۔ مسائل بھی ان کے اور حقوق بھی ان کے ۔ شودر کو صرف اتنی آزادی ہے کہ وہ اچھل کود کے لیے اپنی مرضی کا ایک برہمن چن لے ۔ یہ مرضی بھی بسا اوقات محض برائے وزن بیت ہی ہوتی ہے ۔ ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی اپنے مسائل اور اپنے دکھوں کی بات ہی نہیں کرتا ۔

یہاں پینے کو صاف پانی نہیں ۔ یہاں صحت کی سہولیات نہیں ، یہاں تعلیم ایک کاروبار بن چکا، روزگار کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں ، خالص خوراک نہیں ملتی ۔ آئین نے جو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں ان کا کوئی سراغ نہیں ۔ یہاں آئین کی بالا دستی کا مطلب صرف وہ دو چار شقیں ہیں جو برہمن طبقے کے انتقال اقتدار کا طریقہ وضع کرتی ہیں ۔ آئین کی بالادستی کی تشریح میں عام آدمی غیر متعلق ہے ۔ یہاں لوگ پینے کے پانی کے لیے گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے ہیں اور اس عذاب سے گزرتے وقت بھی ان کی پریشانی یہ نہیں ہوتی کہ یہ سہولت ان کے گھر کی دہلیز تک کیوں نہیں پہنچ سکی بلکہ وہ دھوپ میں کھڑے بلاول اور مریم کے سیاسی مستقبل کے لیے پریشان ہوتے ہیں یا اس بات پر نازاں کہ ان کا لیڈر بڑا ا ہینڈ سم ہے ۔ جن کے گھر میں پڑی بیمار ماں کے لیے کسی سرکاری ہسپتال میں ایک کمرے تک کی سہولت دستیاب نہیں وہ بھی کولہوں پر ہاتھ رکھے بحث کر رہا ا ہوتا ہے کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک کیوں نہیں جانے دیا جاتا ۔

یوں لگتا ہے کہ سماج کو ایک منصوبے کے تحت ہیجان میں مبتلا کر دیا گیا ہے تا کہ یہ انہی نان ایشوز سے جی بہلاتا رہے ۔ انہیں معلوم ہے جس روز یہ ہیجان ختم ہو گیا اس روز عوام اپنا حق مانگیں گے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے