امن سب کے لیے

قطر اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد گزشتہ ہفتے دوحہ میں ہوا۔کانفرنس میں53رکنی افغان وفد اور طالبان کے 17رکنی وفد نے شرکت کی ۔ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا‘ جس کے مطابق افغانستان میں اسلامی اصولوں اور انسانی حقوق کے احترام‘ مذاکرات جاری رکھنے‘ فریقین کی جانب سے سخت بیانات نہ دینے‘ سرکاری اداروں پر حملے نہ کرنے کے ساتھ پرتشدد واقعات میں کمی پر اتفاق کیا گیا ۔

افغان وفد میں تین حکومتی نمائندے بھی شامل تھے ‘ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی شرکت انفرادی طور پر تھی۔ اس سے قبل دو بین الافغان مذاکرات بھی ہوئے ‘ لیکن اُن میں افغان حکومت کے نمائندے شریک نہیںہوئے۔

اعلامیے میں اس بات پر زور دیا گیاکہ افغانستان میں پائیدار امن صرف تمام شراکت داروں کے درمیان مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ افغانستان اسلامی ملک ہے ‘جس میں کئی قومیتیں آباد ہیں‘ جبکہ تمام افغان اسلام کی بالادستی‘ سماجی و سیاسی انصاف‘ قومی اتحاد اور علاقائی خود مختاری پر متفق ہوں گے۔اعلامیہ مختصر نہ تھا‘ اس بات پر بھی زور دیا گیاکہ افغان قوم نے تاریخ خصوصاًگزشتہ 40 سالوں میں اپنے مذہب‘ ملک اور کلچر کا بھرپور دفاع کیا ۔ فریقین نے بین الاقوامی برادری اور علاقائی و داخلی عناصر پر زور دیا کہ وہ افغان اقدار کا احترام کریں‘ جبکہ تمام فریقوں پر زور دیا گیا کہ وہ ”دھمکیوں‘ بدلوں اور متنازع الفاظ‘‘سے اجتناب کرتے ہوئے نرم الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال کریں‘ تاکہ تنازعات اور بدلے کی آگ نہ بھڑک سکے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت بے نتیجہ رہی‘ لیکن فریقین کا مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق یقینا نیک شگن ہے۔کہا جا رہا تھا کہ امریکا کے لیے اب افغان طالبان کے ساتھ کسی سیاسی تصفیہ تک پہنچنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔سیاسی اور جغر افیائی منظر بدلتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے‘اس وقت افغانستان میں طالبان کی مزاحمتی تحریک کے خلاف امریکا کی تباہ کن فضائی مہم تھم چکی ہے ۔طالبان‘ ان فضائی حملوں سے محفوظ ومامون ہیں اور اس کے علاقائی کنٹرول میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جبکہ افغان حکومت کی فورسز اور امریکا کی قیادت میں اتحاد طالبان پر قابو پانے کے لیے بھی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس بات سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ افغان حکومت مادی اور نفسیاتی دونوں لحاظ سے شکست سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس کا علاقائی کنٹرول رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے اور اس کی قانونی عملداری بھی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔موجودہ جوں کی توں صورتحال کوئی زیادہ دیر برقرار رہتی دکھائی نہیں
دیتی ۔ بحران کے سیاسی تصفیے کے امکان روشن ہو گئے ہیں۔اس امن معاہدے کے تانے بانے بُنے جائیں تونقصان کی بجائے فائدہ زیادہ ہوگا۔

القاعدہ اور طالبان کے درمیان تعلق داری تاریخ اور علامتی سطح سے ماورا ہے۔طالبان دوبارہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ ان کی ترجیحی حکمت عملی ہوگی۔طالبان افغانستان میں اپنی حکمرانی کے عرصے کو مثالی قراردیے ہوئے ہیں۔وہ معاصر تاریخ میں اس کو ”اسلامی نظام حکمرانی‘‘ کی درست مثال قرار دیتے ہیں۔حکومت کسی کی بھی ہو ‘ اسلامی ملک میں امن سب سے اہم ہے ‘امن نہ صرف افغانستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے بھی حق میں ہے ‘جس کے لیے پاکستان برسوں سے کوشش کرتا آیا ہے ۔ امن معاہدہ یقینا طالبان کو بہت کچھ دینے کے مترادف ہوگا‘لیکن فی الوقت جنگ بندی اور سکون کی فضا کو یقینی بنانا اولین ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے۔طالبان نے اپنے سرکاری بیانات میں کئی دفعہ اس امر کا اظہار کیا کہ وہ افغانوں کے مابین مکالمے کے حق میں ہیں اور ”اقتدار پر تنہا ‘‘ کنٹرول نہیں چاہتے۔ ایسے بیانات اور مذاکرات کی میز پر ایک ہونا سب فریقین کی طرف سے مثبت نتائج کااشارہ ہیں ۔

قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ طالبان کی سیاسی فوجی قیادت سخت گیر بھی ہوسکتے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ مطالبات کی شرائط پر اڑ سکتے ہیں۔ وہ زیادہ نہیں تو مذاکرات کے پورے عمل کے دوران میں ایک سخت گیر پریشر گروپ کے طور پر موجود رہیں گے۔وہ کوئی معاہدہ طے پا جانے کے بعد بھی اپنا یہ کردار برقرار رکھیں گے۔وہ طالبان کے لیے بھی آئینی تبدیلیوں اور شراکتِ اقتدار کے سمجھوتے کے حوالے مشکلات کھڑی کریں گے۔اس بات کا بھی خدشہ موجودتھا کہ ان میں سے منتشر گروپ جنم لے سکتے ہیں۔طالبان کی میدان جنگ میں قوت کے باوجود بین الاقوامی برادری نے اچھا قدم اٹھایا‘ انہیں ایک اچھے سیاسی تصفیے پر آمادہ کر رہی ہے۔ جو سب فریقین کے لیے بہتر ہے۔

طالبان کی اس وقت جن علاقوں میں بالادستی ہے‘ وہاں انہوں نے کوئی متبادل مکمل نظام پیش نہیں کیا گیا۔البتہ انہوں نے سرکاری سکولوں کو چلنے اور بین الاقوامی غیر سرکار ی تنظیموں (آئی این جی او) کو کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔طالبان کے پاس ایسی کوئی افسر شاہی نہیں جو ایک جدید ریاست کو برقرار رکھ سکے۔انہیں صلاحیت کار اور فنڈز کی شکل میں مدد کی بھی ضرورت ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی نظر میںدو چیزیں اہم ہیں‘ اوّل‘انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے دوسرا‘ انہیں غیرملکی مالی امداد اور ٹیکنوکریٹس کی معاونت مہیا کی جائے۔ 1990ء کے عشرے میں جب ان کی افغانستان کے بیشتر علاقوں پر حکومت تھی تو انہیں یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں تھیں اور بین الاقوامی برادری نے انہیں مجموعی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔افغانستان میں قیام امن کیلئے سمجھوتے کی اوپری سطح تو بہت ”اچھی‘‘ اور واضح ہے۔اس سے افغانستان میں گذشتہ 40 سال سے جار ی لڑائی کے خاتمے میں مدد بھی ملے گی۔ اس سے ایشیا کے غریب ترین ملک کو اپنے کھوئے ہوئے ماضی کو لوٹانے کا موقع فراہم ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے