محبت کی جیت مگر پون صدی کا غم تازہ!!

یہ چند دن ، ہفتوں یا برسوں کی نہیں بلکہ پون صدی کی دوری کی بات ہے۔ ایک نہیں دو نسلیں دل میں ملاقات کی آس لئے گزر گئی ، تیسری نسل بھی تمنا لئے جوانی سے بڑھاپے تک پہنچی اور چوتھی نسل یہی آرزو لیے جوان ہورہی ہے مذہب ایک ، زبان ایک ،ثقافت ایک! لیکن پون صدی کی جدائی بیچ میں حائل ہے۔ اولاد ماں باپ سے، بھائی بھائی سے، بہن بھائی سے سے جدا۔ خوشی غمی میں شرکت تو دور کی بات ہے، چہرے کے نقوش بھی محو ہوچکے ہیں۔ یہ کیسے جدائی ہے ؟ اس کا سبب کیا ؟ ۔۔ جدائی کا سبب بننے والی اس خونی لکیر کو لائن آف کنٹرول (ایل اوسی ) کہتے ہیں۔ دیوار برلن گرگئی مگر خونی لکیر باقی ہے۔۔دنیا سمٹ کر ایک گائوں کی شکل اختیار کر گئی مگر اس لکیر کے آر پار آج بھی 1947ء رکا ہوا ہے۔ سمٹتے فاصلوں کے اس دور میں یہ خلیج سات سمندروں جیسی ہے۔۔ زمینی فاصلہ چند کلومیٹر مگر جدائی کا فاصلہ پون صدی کا ۔۔اس پون صدی میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔۔ رشتوں کی تلاش ایک امتحان ہے۔۔ دو ممالک کی دشمنیاں کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو مگر رابطوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، لیکن یہاں تو اظہار آرزو بھی جرم ہے۔

ایسے میں مایوسی کے سوا اورکیا بچتا ہے؟ خونی لکیر نے جیتے جی سب کو ماردیا۔۔ منقسم خاندانوں کی داستانیں سنیے تو پتھروں سے چشمے پھوٹ پڑیں۔۔ ہر گھر کی ایک درد ناک داستان ہے۔۔ ایسے میں پاکستان کے زیر انتظام وادی گریز (قمری منی مرگ)تحصیل شونٹر ضلع استور گلگت بلتستان کا ایک 8 سالہ معصوم بچہ عابد شیخ والد نزیر شیخ 8 جولائی 2019ء کو اسکول سے گھر جاتے ہوئے دریائے کشن گنگا میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ پھول 9 جولائی کو خونی لکیر کی دوسری جانب گائوں سے تقریباً 20 کلومیٹر دور وادی گریز اچھورامیں کشن گنگا کے کنارے ملتا ہے،دستِ قضا جس کا رنگ و بو چرا لے گئی۔۔

اس سانحے نے پھر اس خطے کے افتادگان خاک کا غم تازہ کردیا۔ دونوں اطراف ایک نئی فضا بن گئی۔۔ ایک جانب سے لاش واپسی کی اپیل اور دوسری جانب سے لاش ورثاء تک پہنچانے کا مطالبہ۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ منقسم وادی گریزبالخصوص بھارتی زیر انتظام کشمیر گریز کا ہر فرد عابد شیخ کا وارث ہے۔ عابد شیخ ان کا اپنا بیٹا ہے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر زبان پرایک ہی نوحہ تھا ’’عابد ہمارا ہے ، ہم وارث ہیں ، ہم والدین تک پہنچادیں گے، ہم سب نزیر شیخ ہیں‘‘۔۔ایک طرف یہ عالم دوسری طرف والدین اور عوام اپنے مرحوم بچے کے آخری دیدار سے ناامید ، ایک نہ ختم ہونے والے کرب سے دو چار تھے۔

قدرت نے ایک ایسا راستہ نکالا جس کا تصور بھی نہیں تھا۔۔ سوشل میڈیا میں دو طرفہ آواز اٹھی اور وہ آواز اتنی توانا ہوئی کہ شرق و غرب تک اس کی گونج سنائی دی۔۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو رحم آیا۔۔ دونوں ممالک کے قوانین ، بارود ، توپیں، خوف ، دہشت الغرض ہر خطرہ محبت و پیار کے سامنے بے بس ہوا۔۔ 10جولائی 2019ء کو لاش کی واپسی کی تیاری مکمل کی گئی اور وادی گریز کے مرد وزن لاش کے ہمراہ پاکستانی زیر انتظام علاقےکے آخری گائوں دودگئی اور بھارتی زیر انتظام علاقے کے آخری گائوں سنڈیال (سنیال) کے درمیاں خونی لکیرتک بھی پہنچے مگر کچھ پیچیدگیوں کی وجہ سے ممکن نہ ہوا اور ایک بار پھر لاش آہوں اور سسکیوں میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے سب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر داور پہنچادی گئی ۔۔وادی گریزمیں ایک قیامت صغرا کا سامنا منظر تھا ، ایک ہی صدا کہ ناکامی کیوں ؟؟ کیا جبری قوانین انسانیت سے زیادہ محترم ہیں؟۔۔ایک بار پھر اس نوحہ گری کی گونج دنیا تک پہنچی ۔۔دونوں حکومتوں کوبھی شدت کا اندازہ ہوا تو قدم پیچھے ہٹے۔

11جولائی 2019ء کی صبح ہی سے دونوں جانب ایک عجیب ماحول تھا۔ ایک طرف انتظار کا غم اور دوسری طرف جدائی کا احساس دو چند ہوچکا تھا۔ مائوں بہنوں نے اپنے سیکیورٹی اداروں کو انتباہ کیا کہ ہم لاش لیکر جائیں گے۔

عابد شیخ کو اس کی ماں تک پہنچائیں گی ۔۔رکاوٹ نہ بننا !۔۔صبح پونے 10بجے داور سے قافلہ روانہ ہوا اور پھر دونوں اطراف کی افواج کے حکام ملے۔۔ ایک عجیب منظر تھا۔ قریب کھڑی مائیں بہنیں رورہی ہیں اور مرد لاش کے ہمراہ پرنم آنکھوں کے ساتھ خونی لکیر کے قریب کھڑے تھے۔

پھول جیسے جنازہ جب ایک جانب سے اٹھ کر دوسری طرف روانہ ہوا تو دونوں ممالک کا شاید ہی کوئی اہلکار ایسا ہو جو جس کی آنکھیں بھر نہ آئی ہوں۔۔ بم بارود، بندوق اور عداوت کچھ دیر کے لیے ہی سہی، محبت اور ہمدردی کے لطیف جذبوں کے سامنے سرنگوں ہوگئے۔

۔یہ منظر 1947ء کے بعد اس فضا نے پہلی بار دیکھا۔۔یہ مقام قدیم تاریخی سلک روٹ پر واقع ہے ،جو خونی لکیر کے باعث بند ہے۔۔ وادی گریز کا یہ راستہ وسطی ایشائی ریاستوں اور چین کے تجار اور عازمین حج صدیوں استعمال کرتے رہے۔۔معصوم عابد شیخ کے جسد خاکی کو والدین نے آخری دیدار کے ساتھ 11 جولائی کی شام سپرد خاک کردیا۔۔عابد شیخ اپنے رب کے حضور پہنچ گیا مگر دونوں اطراف پون صدی کا غم تازہ کرگیا۔۔اس غم کے خاتمے کا عارضی حل وہی ہے جو پاکستان اور بھارت یا آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے مابین اختیار کیا گیاہے۔۔عارضی کراسنگ پوائنٹ قائم کیا جائے تاکہ پون صدی کے بچھڑے نہ مل سکے تو کم سے کم اپنوں کی قبروں پر فاتحہ تو پڑھ لیں گے۔ تیسری اور چوتھی نسل کے عزیزو اقرباء کو تلاش تو کرسکیں گے ۔۔

آئیے جس انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ عابد شیخ کے جسد خاکی واپسی کے لئے آواز بلند کی اسی جذبے کے ساتھ بچھڑوں کو ملا نے کے لئے پر امن کوشش کریں۔۔آج خونی لکیر کے عارضی خاتمے کی کامیابی کا کریڈٹ بھارتی زیر انتظام وادی گریز کے ہرمرد و زن ، بھارتی حکومت ، فوج ، سول انتظامیہ ،مقامی سول سوسائٹی ، پاکستانی حکومت ، عوام ، پاک فوج ،گلگت بلتستان کی حکومت، دونوں اطراف کے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا(چند ہی)۔۔سوشل میڈیا کے ایکٹویسٹ ، صحافیوں اور ہر اس شخص کو جاتا ہے جس نے اپنا کردار ادا کیا ہے ،وہ دنیا کے چاہئے کسی بھی کونے میں ہو۔۔یہ کامیابی ہر انسان دوست کی ہے۔۔عابد شیخ ہمیں یہ پیغام دے گیا کہ شاخ سے ٹوٹا پھول بھی خزاں کو شکست دے سکتا ہے اور اس کی خوشبو بارودو کی بو کو پس پا کرسکتی ہے۔
یہ خون جو ہے مظلوموں کا ضایع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے