صحافی حکومت کے خلاف کیوں بول رہے ہیں؟

سنتے ہیں کہ تبدیلی کا دور دورہ ہے، کرپشن کرنے والوں کے خلاف خوب زور سے کاروائیاں جاری ہیں، ملک میں امن و امان بہترین صورتحال میں پنپ رہا ہے، جبکہ معیشت کے تو کیا ہی کہنے سب مزے میں ہیں. آئی ایم ایف ہمیں خودکشی کی شرط سے ہٹ کر قرضوں کی فراہمی میں جتا ہوا ہے بھئی تبدیلی کا دور دورہ ہے کسان خوشحال ہے مزدور تو اپنی ذاتی گاڑیوں میں کام کاج کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ پٹرول نہایت سستے داموں دستیاب ہے ملک میں تعلیم کی شرح اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عالمی تحقیقاتی ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں مگر یہ سب کچھ میڈیا دکھا نہیں رہا.

لکھاری تو عالم پناہ جناب عزت مآب عمران خان صاحب کو قلم کی نوک پر رکھ کر روز کے روز کچوکے دے رہے ہیں ہماری کشمیر پالیسی اس قدر تگڑی ہے کہ عنقریب سفارتی سطح پر معاہدے ہونے جا رہے ہیں جس میں کامیابی اس حکومت کو سر سے پاوں تک چومے گی لیکن ہ موئے صحافی کچھ اور ہی دکھا رہے ہیں روزانہ معصوم حکومت کے وزراء کو گھنٹوں ذلیل کرتے ہیں جس کا حل حکومت نے بھی صحیح نکالا ہے کہ انکے چینلز کو بند کرو پابندیاں لگا کر مزہ چکھاؤ انہیں، یہ اس قدر منہ زور ہو گئے ہیں کہ تعریف کا ایک لفظ لکھ کر نہیں دے رہے .

حالانکہ حکومتی وزرا اور ہمارے کنٹینر بادشاہ جناب خان صاحب نے کروڑوں نوکریاں ان درختوں پر اگا رکھی ہیں جو بلین ٹری پراجیکٹ کے نام پر لگائے گئے گھر تو ایسے شاندار بنا کے دئے ہیں غریب غربا کو کہ وینس اور سویٹزر لینڈ کے باشندے بھی حسرت سے تکتے ہیں.

لیکن شاید وینس اور سوئیٹزر لینڈ میں بھی حکومت کو نظر نہ لگ جائے اس خیال سے تمام ٹی وی چینلز نہ دکھائے جارہے ہوں. جیسا کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی ہو رہا ہے

تو قصہ یوں ہے کہ ہماری معصوم اور نونہالوں سے بھری حکومت نے پشاور بی آر ٹی کے پلوں اور انڈرپاسوں میں حجاموں کے لئے ایسے شاندار اوپن ائیر ہئیر سیلون کھولے ہیں کہ دیکھتے ہی دل پریشان اور نظر حیران ہو جاتی ہے گو کہ منصوبہ پورا ہو کر نہیں دے رہا مگر زبان تو آخر زبان ہوتی ہے نا ہر حال میں پورا کیا جانا چاہئیے. زبان سے نکلے اقوال کو یہ سارا سیاپا جو اب بیان کرنے جا رہا ہوں یہ کرپٹ سابق حکمران کی بیٹی مریم نواز کا ڈالا ہوا ہے نہ وہ منڈی بہاوالدین کے جلسے میں جاتے ہوئے اپنے ابا جی کی موٹروے پہ بغیر ٹول ٹیکس ادا کئے گزرتی نہ مراد سعید کو سلطان راہی جیسی اینٹری مار کر سود سمیت ٹیکس لینے کا نعرہ مارنا پڑتا اور نہ موئے چینل بند ہوتے نہ صحافی میڈیا پر پابندیوں کا رونا روتے نہ ہی عالمی میڈیا اس حکومت پر آوازیں کستا اور تو اور جج صاحبان کو بھی رسوا کرنے میں اس عورت نے مبینہ ویڈیو کے ذریعے کوئی کسر نہ چھوڑی حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی.

خیر یہ چینلوں وینلوں پہ پابندیوں سے معاملات آگے نکل رہے ہیں ملک کے بڑے بڑے صحافی جو اپنےصحافی بھائیوں کو چینلز سے بلا جواز نکالے جانے پر منہ اور لب سئیے بیٹھے تھے اب بول رہے ہیں کہ بھئی ہمارا گلا اور آواز دونوں دبائی جا رہی ہیں نا جانے کسے پکار پکار کر حامد میر کہہ رہے تھے کہ پکڑنا ہے تو آ کے پکڑ لو تنگ مت کرو بھائی

عاصمہ شیرازی بھی اس سب میں پیچھے نہیں ہیں کہتی ہیں نامعلوم افراد میرے گھر میں گھسے بغیر چوری کئے نکل گئے اور مختلف افراد کے ہاتھوں خط بجھوائے جا رہے ہیں کہ بچو جتنا بچ سکتے ہو بچو.

اپنے ندیم ملک نے مریم نواز کا انٹرویو کیا اور چند نامعلوم وجوہات پر وہ لائیو انٹرویو آن ائیر ہونے سے روک دیا گیا حامد میر نے بھی مفاہمت کے بادشاہ کا ایک انٹرویو کیا وہ بھی نہ چلایا جا سکا اب بھئی کوئی ٹیکنیکل فالٹ بھی تو ہو سکتا ہے نا حکومت یا تیسرے چوتھے بندے کو کیا پڑی ہے کہ صحافیوں کے معاملات میں ٹانگیں اڑاتے پھریں. لیکن مجھے کیا یار میں تو ایک چھوٹا سا صحافی ہوں جو کسی بھی لیول کا نہیں مجھ جیسے پچیس تیس ہزار کمانے والے صحافی بھی کوئی صحافی ہوتے ہیں بھلا جن کو نیب یا ایف بی آر اثاثوں کی پوچھ گچھ کے لئے بلا نہ سکے. بڑے صحافی تو وہ ہیں نا جو آجکل مجھ ایسے صحافیوں کا برین واش کر رہے ہیں آزادی صحافت پر قدغن کے نام پر .

لیکن !! اگر واقعی حکومت صحافیوں سے خار کھا رہی ہے تو اس بات کو سمجھ میں آجانا چاہئیے کہ عمرانی ٹولے نے آتے ہی ورکر صحافی سے دال دلیہ چھین کر ہزاروں کو بے روزگار کیا تھا اب بڑے صحافیوں کو چٹکیاں کاٹ رہے ہیں تو دال نیلی پیلی ضرور ہے. خیر یہ بڑوں کی باتیں ہیں یار صادق آباد ٹرین حادثے میں مجھ جیسے آج نیوز کے رپورٹر نے سی ای او سے حادثات کی بڑھتی شرح پر سوال کیا تو موصوف ڈائریکٹ بد تمیزی پر اتر آئے بلکہ وہاں موجود ریلوے پولیس کو آرڈر دیا کہ اٹھا کے باہر پھینک دو انہیں حالانکہ عمران خان یا بقیہ وزرا اتنے بد تمیز نہیں ہیں کہ سرکاری افسران کو کھلی چھٹی دے دیں کہ ان میڈیا والوں کا حشر کر دو. البتہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس سے پہلے اس معاملے پر احتجاج کے طور پر کوریج کا بائیکاٹ کرنے والوں سے کہا، جانا ہے تو جاؤ جس نے رکنا ہے رک جاؤ اور حکم دیا کہ دروازے بند کر دو اگر یہ لوگ باز نہیں آتے تو ریلوے والوں سے کہوں گا جو اپنی مرضی سے تشریف پہ لات ماریں گے تو اچھا نہ ہو گا. مطلب سعد رفیق سے حادثات پر استعفے طلب کرنے والے خود پر بنی تو دھونس دھمکیوں سے کام لینے لگے روس کا میڈیا بھی کچھ کم شرارتی نہیں ہے سیدھا ہی بتا دیا کہ ہم نے تو عمران خان کو بلایا ہی نہیں. جی جی روس کا!!

اچھا ہوا رانا ثنا اللہ بھی ڈھیر ساری ہیروئین کے ساتھ پکڑا گیا اتنی مقدار تھی کہ اے این ایف والوں سے ویڈیو تک نہ بن پائی اور شہریار آفریدی نے کمال پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے کزن کے خلاف منشیات برآمدگی کا سوال ہی فضول سا قرار دے دیا مطلب صحافیوں کی یہ جرات کہ شہد اور ٹیلکم پاوڈر پہ سوال کریں

اچھا ہو رہا ہے ان صحافیوں کے ساتھ لیکن حکومت میں موجود چند شرارتی عناصر شاید در پردہ بلاول اور مریم کو سیاسی ہیرو بنا کر ہی دم لیں گے یاد آیا 126 دن کے دھرنے میں خان نے کہا تھا بجلی کے بل زیادہ آرہے ہیں پھاڑ دو پر اس حکومت میں تو بل ہی اتنے کم ہیں کہ چار پانچ ماہ کا جرمانہ ڈال کر بھی سو روپے سے کم بنتا ہے . اوپر سے تاجر بلاوجہ ہڑتالیں کر رہے ہیں حالانکہ حکومتی بجٹ میں تو ریلیف ہی ریلیف ہے میرے اپنے شہر میں تاجروں کو یعنی ہڑتال کرنے والے تاجروں کو پولیس کے ذریعے کیمپ اکھاڑ کر جمہوری حکومت میں احتجاج جیسے قبیح فعل سے دور رکھنا پڑا . مگر یہ صحافی کس چیز کا رونا رو رہے ہیں انکو تو تنخواہیں بھی ملتی ہیں کوٹھیاں بنگلے ہیں انکے یہ بلا جواز حکومت پر سینسر شپ کے الزام کیوں لگا رہے ہیں.

پلیز کوئی حکومتی نمائندہ یا وزیر اس بات کی سمجھ دلا دے تاکہ مجھ جیسے چھوٹے صحافی سبق سیکھ سکیں اور قلم برداری کے اصل مقصد کو پا سکیں. فی الحال حکومتی کارنامے اتنے ہی یاد تھے آئیندہ دنوں میں مزید کارنامے اگلنے کی کوشش کروں گا اتنی محنت اور لگن والی حکومت اوچھے ہتھکنڈے شوق سے تھوڑا استعمال کر رہی ہو گی سینسر شپ بھی ملکی مفاد میں ضروری ہو گی . شاید!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے