جب صوفی محمد جیل میں تھے ؟؟؟

آج سے 14سال قبل 2005ءمیں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدیہ کے سربراہ مولاناصوفی محمد سے ملا تھا تو وہ انتہائی قدامت پسند اور سخت گیر رویے کے مالک تھے جو کسی بھی طورپر جمہوری نظام اورریاست پاکستان کو تسلیم نہیں کررہا تھا۔ 2005ءمیں سرکاری اہلکار کی حیثیت سے جب راقم کی تقرری ڈیرہ اسماعیل خان کے جیل میں ہوئی تو ان دنوں مولانا صوفی محمد کو بی کلاس کاقیدی تھا۔ بی کلاس عمومی طور پر سیاسی قیدیوں کےلئے مختص کیا ہوتا ہے، پرویز مشرف کے زمانے میں مختلف سیاسی قیدی بھی ڈی آئی خان جیل میں موجود تھے۔

[pullquote]صوفی محمدکون تھا ۔۔۔[/pullquote]

1993ءمیں ملاکنڈ ڈویژن کو بلاک کرکے نفاذشریعت کامطالبہ کرنےوالے صوفی محمدکاتعلق لوئردیرکے علاقے میدان سے تھا سیاسی طور پر جماعت اسلامی کے متحرک کارکن تھے 1985میں ڈسٹرکٹ کونسلربھی بنے تھے تاہم 1985کے انتخابات کے دوران انہیں اندازہ ہوا کہ جمہوری طریقوں سے شرعی نظام کانفاذ ممکن نہیں جسکے بعد انہوں نے جماعت اسلامی سے اپنی راہیں جداکرلیں اورمیدان میں ایک بڑے مدرسے کی بنیاد رکھ دی 1992ءمیں تحریک نفاذ شریعت محمدیہ کے نام سے تنظیم قائم کی جنہوں نے1993ءمیں ملاکنڈڈویژن کو مکمل طور پر بلاک کرکے شریعت کامطالبہ کیا۔حکومت نے اس وقت شریعت کے نفاذ کے لئے سول جج کوقاضی اورنظام عدل ریگولیشن کا نفاذکرکے یہ احتجاج ختم کیاتھا۔

[pullquote]مولاناصوفی محمدکیوں ڈی آئی خان جیل میں موجودتھا۔۔۔[/pullquote]

2001ءمیں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد صوفی محمدنے دیرکے راستے سے دس ہزارافرادکاایک لشکرافغانستان میں داخل کرایاتھا انکاکہناتھاکہ وہاں جاکرامریکی افواج کامقابلہ کیاجائے گا کہاجاتاہے کہ امریکی طیاروں کے حملے اوربعدازاں افغانستان میں موجود شمالی اتحادکے ہاتھوں اس لشکرکابری طرح قتل عام ہواتھااوردس ہزار کے لشکرمیں صرف چندسوافرادپاکستان دوبارہ پہنچنے میں کامیاب ہوسکے تھے جس کی پاداش میں سکیورٹی اداروں نے مولاناصوفی محمدکوڈی آئی خان جیل میں رکھاتھا.

ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں مولانا صوفی محمد کو بیشتر مقامی لوگ کالی پگڑی (تور پٹکے) ملا کہا کرتے تھے اور جیل میں انہیں قیدی صوفی محمد یا تو پٹکے ملا کے نام سے پکارتے تھے۔ ڈی آئی خان جیل میں معمول کے دفتری کارروائی میں مصروف تھا کہ ڈیوٹی پر معمور سنتری نے اطلاع دی کہ ایک پچاس سالہ خاتون مولانا صوفی محمد سے ملنا چاہتی ہے لیکن مولانا ملاقات سے انکار کررہے ہیں۔ خاتون سے ملنے کے بعد میں نے جب مولانا صوفی محمد سے ان کے بیرک میں ملاقات کی تو صوفی محمد نے کہاکہ میں نے زندگی بھر کسی غیر خاتون سے ملاقات نہیں کی۔

خاتون کا تعلق دیر سے تھا اور وہ دو دن کی مسافت طے کرکے ڈی آئی خان آئی تھی ، ان کا موقف تھاکہ 2001ءمیں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد صوفی محمد نے جس 10ہزار سے زائد افراد پر مشتمل لشکر کی قیادت کی تھی ان میں خاتون کا 23سالہ بیٹا بھی شامل تھا۔ مولانا مجھے صرف یہ بتائے کہ میرے بیٹا زندہ ہے یا شہادت کے مرتبے پر فائز ہوچکا ہے لیکن صوفی محمد اس انفرادی کیس سے مکمل طورپر انکاری تھے۔

صوفی محمد آنےوالے بیشتر صحافیوں سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے تاہم کبھی کبھار دیر کا کوئی دوسرا کالی پگڑی والا مولانا آتا تو صوفی محمد ضرور ملاقات کرتے۔ صوفی محمد کو دوسرے قیدیوں کی طرح باہر سے آنیوالے لوگوں کے ساتھ جال سے ملاقات نہیں ہوتی تھی انہیں جیل کے داخلے دروازے کے قریب ایک کمرے میں باہر سے آنیوالے لوگوں سے ملاقات کروائی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ دیر کے ایک مولانا ملاقات کے کمرے میں صوفی محمد کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک صوفی محمد نے کمرے میں داخل ہونے کے بعد ملاقات سے انکار کردیا۔

سنتری دوڑتا ہوا راقم کے پاس آیا ، میں نے جب مولانا صوفی محمد سے انکار کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہاکہ کمرے میں قائد اعظم کی تصویر اویزاں ہے اور جہاں تصویر لگی ہو وہاں فرشتے نہیں آتے اس لئے وہ ملاقات نہیں کرینگے۔

راقم نے مولانا صوفی محمد سے استفسار کیاکہ کرنسی نوٹ پر بھی تو قائداعظم کی تصویر ہے اس سے آپ کیوں جیب میں رکھیں ہیں ؟ مولانا صوفی محمد نے دھیمے انداز میں کہاکہ شریعت اس کی بھی اجازت نہیں دیتا لیکن با امر مجبوری سور کے گوشت کی طرح اس کو استعمال کیاجاسکتا ہے۔ دوسری جانب دیر سے آئے ہوئے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ملاقاتی نے منت سماجت کی کہ صوفی محمد سے ملاقات لازمی ہے اب راقم کمرے میں موجود قائد اعظم کی تصویر تو نہیں ہٹا سکتا تھا۔

ملاقاتی شخص نے تجویز پیش کی کہ اگر اس تصویر کو کسی کاغذ سے کور کیاجائے تو پھر کوئی ممانعت نہیں ہوگی۔ کمرے میں موجود کلینڈر کو تصویر کے اوپر اویزاں کیاگیا جس کے بعد صوفی محمد نے ملاقات کی۔ صوفی محمد اپنے بیرک سے بہت کم باہر آتے تھے لیکن جب جماعت کا وقت ہوتا تو پورے بیرک کی بجائے وہ چند مخصوص افراد کی الگ جماعت کا اہتمام کرتے۔ راقم نے دوران تعیناتی صوفی محمد سے کئی ملاقاتیں کیں ، صوفی محمد جمہوری اور ریاستی نظام کو کفر سے بھی بدتر سمجھتے تھے۔ مصالحت سے متعلق مولانا کا خیال تھاکہ یہ منافقت کا دوسرا نام ہے اور جدید نظام کےلئے تاویلیں ڈھونڈنے والے دراصل اسلامی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد راقم کاڈی آئی خان جیل سے تبادلہ ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے