بے یقینی کے موسم میں

امریکا نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرائے‘ یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی تھی‘ سوادولاکھ لوگ مارے گئے‘ ڈیڑھ لاکھ زخمی ہوئے اور اڑھائی کروڑ ایکڑ زمین بنجر ہو گئی‘ عمارتیں‘ سڑکیں‘ پل ‘ ٹرین کے ٹریک ‘ فیکٹریاں‘ دفتر‘ اسکول‘ بجلی کا نظام‘ پانی اور خوراک کے ذخائر دھواں بن کر فضا میں تحلیل ہو گئے۔

جانور‘ پرندے اور مچھلیاں بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور جاپان کے دونوں شہروں کی فضا میں کینسر نے بھی دو سو سال کے لیے جڑیں پکڑ لیں لیکن اس تباہی کے باوجود دونوں شہروں میں صرف ایک جان دار ایساتھا جس پر ایٹم بم کا کوئی اثر نہیں ہوا‘ یہ مکمل محفوظ رہا‘ وہ جان دار تھا کاکروچ‘ جہاں ریل کی پٹڑیاں پانی بن کر بہہ گئی تھیں وہاں کاکروچ ملبے پر دندناتے پھر رہے تھے‘ یہ حیران کن تھا چناں چہ سائنس دانوں نے کاکروچ پر ریسرچ شروع کر دی‘ پتہ چلا یہ انتہائی خطرے کے عالم میں اپنے خلیات کی رفتار منجمد کر لیتا ہے۔

یہ اپنے خول میں چلا جاتا ہے اور یوں یہ تاب کاری میں بھی سروائیو کر جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس تمام جان دار سروائیول کے لیے ساز گار ماحول کے محتاج ہوتے ہیں‘ ماحول میں تھوڑی سی گڑ بڑ سے کروڑوں جان دار صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں‘ یہ ایک دل چسپ انکشاف تھا‘ سائنس دانوں نے مزید ریسرچ کی تو پتہ چلا آسمانی آفات اور بیماریوں کے بعد خوف‘ غیر یقینی اور جبر زندگی کے لیے خطرناک ہوتے ہیں‘ ریسرچ ہوتی رہی‘ گتھیاں سلجھتی رہیں یہاں تک کہ یہ تحقیق انسان اور انسانی معاشرے تک پہنچ گئی۔

انکشاف ہوا بے خوف معاشروں اور آزاد ملکوں میں ہر چیز تیزی سے ترقی کرتی ہے‘ وہاں لٹریچر بھی پنپتا ہے‘ شاعری بھی‘ موسیقی بھی‘ مصوری بھی‘ کھیل بھی‘ آرکی ٹیکچر بھی‘ سیاست بھی‘ تجارت بھی‘ صنعت بھی‘ تعلیم بھی‘ صحت بھی‘ سائنس بھی‘ اسٹاک ایکسچینج بھی‘ فوج بھی‘ بیورو کریسی بھی اور انصاف بھی‘یہ بھی پتہ چلا دنیا میں جس ملک نے معاشرے میں بے خوفی پیدا کر لی وہ ترقی کرنے لگا اور جس میں خوف‘ جبر اور غیر یقینی آئی وہ تیزی سے گر کر تباہ ہو گیا اور یہ بھی پتہ چلا دنیا میں سب سے کم وسائل یورپ میں ہیں لیکن یہ دنیا کا ترقی یافتہ ترین خطہ ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے سونا ہو یا ہیرے‘ جنگل ہوں یا دریا‘ پٹرول اور گیس دنیا کے تمام بڑے وسائل افریقہ کو دے رکھے ہیں لیکن یہ انتہائی پسماندہ براعظم ہے‘ کیوں؟

کیوں کہ یورپ میں آزادی‘ بے خوفی اور یقین ہے‘ لوگ وہاں ہر صبح اس یقین کے ساتھ اٹھتے ہیں ہمیں ٹرین بھی ملے گی‘ بس بھی‘ ٹیکسی بھی‘ کافی بھی ‘ کیش مشین بھی‘ کام بھی‘ عزت بھی‘ علاج بھی‘ انصاف بھی اور آگے بڑھنے کا بھرپور موقع بھی‘ امریکا میں بچے یہ سوچتے ہیں ہم کتنی دیر میں بل گیٹس‘ وارن بفٹ اور سٹیو جابز بن سکتے ہیں یا ہم اگر باراک حسین اوباما کی طرح امریکا کا صدر بننا چاہیں تو ہمیں کیا کرنا ہو گا؟

یورپ میں مائیں بچے پیدا کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچتیں میں اپنے بچے کو دودھ کہاں سے پلائوں گی‘ اس کا علاج کہاں سے ہو گا‘ اسے تعلیم کیسے ملے گی اور یہ بڑا ہوگا تو اسے نوکری کون دے گا؟ وغیرہ وغیرہ‘یہ اس یقین کے ساتھ بچے پیدا کرتی ہیں انھیں ہر وہ حق ملے گا جو زمین پر انسانوں کو ملنا چاہیے جب کہ پسماندہ ملکوں میں لوگ روز بے یقینی میں سوتے ہیں اور خوف میں جاگتے ہیں‘یہ کسی دن یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے ہمیں آج پانی‘ بجلی‘ پٹرول اور نوکری ملے گی‘ یورپ کی ترقی کے پیچھے یہ یقین ہے جب کہ پسماندہ ملک بے یقینی کی وجہ سے پسماندہ ہیں۔

ہم اب اپنے ملک کی طرف آتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘کیا اس ملک میں کوئی ایک ایسی چیز ہے جس پر ہمیں مکمل یقین ہو؟ کیا ہمیں یقین ہے ہم سوئچ آن کریں گے تو اس میں واقعی بجلی ہو گی‘کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں ہمیں آج گیس مل رہی ہے اور یہ کل بھی ملے گی‘ ہم پٹرول پمپ پر جائیں گے تو ہمیں ہر صورت پٹرول ملے گا‘ ہم جو معاہدہ کر رہے ہیں ریاست اور دوسرا فریق دونوں اس پر پورے اتریں گے اور ہم آج نوکری‘ بزنس اور عزت کے جس زینے پر ہیں یہ ہم سے کوئی نہیں چھین سکے گا‘ مجھے یقین ہے چپڑاسی سے لے کر صدر تک ہم میں سے کوئی شخص پورے یقین کے ساتھ ہاں نہیں کر سکے گا۔

ہم لوگ شاور میں داخل ہونے سے پہلے ٹونٹی چلا کر پانی چیک کرتے ہیں اور پٹرول پمپ پر گاڑی کا ٹینک کھولنے سے پہلے پٹرول بوائے سے پوچھتے ہیں ’’بھائی صاحب پٹرول ہے‘‘ ہمیں یہ یقین بھی نہیں ہوتا ہمارا بینک ہمارے پیسے دے دے گا یا ہمارا وزیراعظم کل بھی وزیراعظم ہو گا‘ یہ بے یقینی‘ یہ خوف افریقہ میں ہم سے بھی زیادہ ہے چناں چہ وہاں حالات ہم سے بھی برے ہیں‘ افریقہ میں بے یقینی اور خوف کے ساتھ ساتھ جبر بھی موجود ہے اور جبر خوف اور بے یقینی سے بھی بڑی بیماری ہوتا ہے‘ اس میں کاکروچ بھی سروائیونہیں کر سکتے۔ہمیںاب دل بڑا کر کے یہ مان لینا چاہیے ہم خوف‘ بے یقینی اور جبر کا مارا ہوا معاشرہ ہیں۔

ہماری مائیں پیدائش کے بعد ہمیں دیکھتی ہیں تو یہ بے اختیار کہتی ہیں ’’ہائے پتا نہیں میرے بچے یا میری بچی کا کیا بنے گا‘‘ ہم اپنے بچپن میں اپنے والدین کے منہ سے ’’یا اللہ خیر‘ یا میرے پروردگار میرے بچوں کو محفوظ رکھنا‘‘ یہ سن سن کر جوان ہوتے ہیں اور باقی زندگی اپنے بچوں اور اپنے خاندان کو یہ دعائیں دیتے رہتے ہیں‘ ہم میں سے کون ہے جس کی گردن پر بے یقینی کی تلوار نہیں لٹک رہی‘ جو بے خوف ہو کر زندگی گزار رہا ہے اور جسے اپنی ناک پر جبر کا شکنجہ محسوس نہیں ہو تا‘ ہم ایک ایسے ملک میں زندہ ہیں جس میں چیف جسٹس اور آئی جی کو بھی یہ یقین نہیں ہوتا یہ اپنی مدت پوری کر سکے گا۔

ہمارے ملک میں یقین کی حالت یہ ہے ملالہ یوسف زئی نے نوبل پرائز ملنے کے بعد کہا تھا‘ میں وزیراعظم بنوں گی اور پورے ملک نے اس پر قہقہہ لگایا تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم ایک ایسے بے یقین معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جس میں نوبل انعام کے بعد بھی وزارت عظمیٰ کا خواب لطیفہ محسوس ہوتا ہے‘ یہ وہ بے یقینی ہے جس کی وجہ سے ہم بڑے دماغ یا بڑی شخصیات پیدا نہیں کر پائے‘ ہم نے صرف فوج میں بڑے بڑے نام پیدا کیے‘ یہ نام کیسے پیدا ہو گئے؟

اس کی وجہ یقین ہے‘ ہماری کاکول اکیڈمی میں داخل ہونے والے ہر کیڈٹ کویہ یقین ہوتا ہے میں اگر محنت کروں گا‘ میں اگر اپنی استطاعت بڑھاتا رہوں گا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مجھے دنیا کی بہترین فوج کا سپہ سالار بننے سے نہیں روک سکے گی‘یہ وہ یقین ہے جس کی وجہ سے ایوب خان رسال دار میجرکا بیٹا ہونے کے باوجود فیلڈ مارشل بنا‘ جنرل ضیاء الحق پرائمری اسکول ٹیچر کا بیٹا تھا‘ جنرل مشرف کا والد فارن سروس میں نان کمیشنڈافسر تھااور جنرل کیانی کا والدجے سی اوتھا‘ یہ لوگ اس بیک گرائونڈ کے ساتھ وہاں تک پہنچے جہاں یہ بادشاہوں اور سپر پاورز کے صدور کے ساتھ بیٹھے‘ دنیا ہمارے وزراء اعظم اور صدور کو اتنی وقعت نہیں دیتی جتنا پروٹوکول یہ آرمی چیف کو دیتی ہے‘کیوں؟

یقین! یہ فوج کا وہ یقین ہے جس کے نتیجے میں لارڈرز میں بھی کرکٹ میچ کے دوران پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگ جاتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا ہماری بیورو کریسی‘ کیا عدلیہ‘ کیا سیاستدان اور کیا بزنس کمیونٹی میں یہ یقین ہوتا ہے‘ کیا سول سروس کو جوائن کرنے والا نوجوان یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے میں سیکریٹری تک جائوں گا یا ہمارا سیاستدان یہ سوچ سکتا ہے میں وزیراعظم بنوں گا یا بزنس مین یہ دعویٰ کر سکتا ہے میں پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنی بنائوں گا؟ نہیں ہرگز نہیں۔

ہمیں تسلیم کرنا ہوگا ہم میں سے ہر شخص بے یقینی کے ساتھ پروان چڑھتا ہے‘ یہ سمجھتا ہے میں اگر زندہ رہنا چاہتا ہوں توپھر مجھے کاکروچ بننا ہو گا‘ خطرہ آئے اور میں اپنے تمام خلیات کو منجمد کر لوں‘ میںآہستہ ہو جائوں‘ ہمارے جونیئر افسروں کو سینئر افسر متحرک (ایفی شینٹ) نہیں بناتے اسمارٹ بناتے ہیں‘ یہ ان کو منافقت‘ چاپلوسی‘ ناں کو ہاں اور ہاں کو ناں میں تبدیل کرنے اور پرانی تصویر کی جگہ نئی تصویر لگانے کا طریقہ سکھاتے ہیں‘ ہم ٹیکس کیوں نہیں دیتے اور ہم من حیث القوم کرپٹ کیوں ہیں؟

ہم نے کبھی وجہ تلاش کی! وجہ صاف ظاہر ہے ہم خوف اور بے یقینی میں زندہ ہیں اور بے یقینی اور خوف کے شکار لوگ خرچ کم کرتے ہیں اور جمع زیادہ‘ یہ چیونٹی کی طرح اپنے وجود سے بڑا دانا اٹھا کر بل کی طرف دوڑتے ہیں‘ ہم میں سے جس شخص کو اپنی ترقی اور سسٹم پر یقین ہوتا ہے وہ کبھی غلط نہیں کرتا‘ وہ کبھی اپنی بیلنس شیٹ خراب نہیں کرتا لیکن جس کی ترقی کا عمل رک جاتا ہے‘ جس کو سسٹم اور اپنی محنت پر اعتبار نہیں رہتا یا جو یہ سمجھتا ہے یہ پوزیشن‘ یہ کرسی عارضی ہے اور یا جو یہ سمجھ لیتا ہے یہ بزنس مزید نہیں چل سکتا وہ کرپٹ ہو جاتا ہے‘ وہ ٹیکس بھی نہیں دیتا‘ وہ لوگوں کے پیسے بھی مار لیتا ہے اور وہ اپنی پوزیشن کابھی جی بھر کر فائدہ اٹھاتا ہے اور ہمارے ملک میں یہ ہو رہا ہے۔

ہم نے پورے ملک کو بے یقین بنا دیا ہے‘ ہم نے سب کو کاکروچ بنا دیا ہے اور یہ کاکروچ اپنی اپنی سروائیول میں جت گئے ہیں ‘ ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے ’’میں خود کو زندہ رکھ لوں‘‘ اور بس چناں چہ نتیجہ یہ نکل رہا ہے ہم 22 کروڑ لوگ ہیں لیکن ہم میں ایک بھی بین الاقوامی سطح کا شاعر‘ ادیب‘ سائنس دان‘ پروفیسر‘ بزنس مین‘ لیڈر‘ اکانومسٹ اور صحافی نہیں‘ ہم بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر نہیں بنا سکتے‘ ہمیں اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف دیتا ہے‘ ہماری بیورو کریسی کو پڑھانے اور چلانے کی ذمے داری بھی عالمی بینک اٹھا تا ہے اور ہماری معیشت بھی سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر اور چین کی ذمے داری ہو جاتی ہے۔

بس ایک کسر باقی تھی‘ ہم نے اس بے یقین‘ خوف زدہ زمین پر جبر کا موسم بھی مسلط کر دیا‘ ہم نے ہر چیز پر پابندی لگانا شروع کر دی‘ ہم منہ اور انگلیوں پر بھی تالے لگا رہے ہیں اور سوچ کو بھی بند کر رہے ہیں‘ ہم نے سوچا اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہم سب مزید کاکروچ بن جائیں گے‘ ہم سب چھپ جائو اور زندہ رہو کی پالیسی پر چلے جائیں گے اور ہم یہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے