’’کون جیتا کون ہارا ‘‘

برادرِ عزیز عباس تابش کا ایک شرارتی مگر خیال افروز مصرعہ:

عشق کا کھیل برابر بھی تو ہو سکتا ہے

ورلڈ کپ 2019 کے اختتامی مرحلوں سے لے کر اب تک اس مصرعے میں کہی گئی بات مختلف حوالوں سے اپنی تازگی اور معنویت کا اظہار کر رہی ہے۔ جن رُولز کے تحت یہ فائنل کھیلا گیا شائد اُن کے بنانے والوں کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح کی صورتِ حال میں جو آخری حل انھوں نے تجویز کیا ہے وہ عملی طور پر کتنا متنازعہ اور ناپسندیدہ اور بے انصافی کا ایک مظہر بن سکتا ہے؟ اس ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل انگلینڈ کی ٹیم کو آسٹریلیا کو بھار ت کے ساتھ متوقع فاتحین کی صف میں رکھا جا رہا تھا جب کہ نیوزی لینڈ ، سائوتھ افریقہ اور پاکستان کا شمار دوسری قطار میں کیا جا رہا تھا ۔ سری لنکا، بنگلہ دیش ، ویسٹ انڈیز اور افغانستان آخری چار نمبروں پر تھے۔

ہر ٹیم نے سیمی فائنل میں رسائی کے لیے تو میچ کھیلنے تھے لطف کی بات یہ ہے کہ سات سات میچوں کے خاتمے پر انگلینڈ کی ٹیم اس دوڑ سے تقریباً باہر ہو چکی تھی جب کہ پاکستان کی پرفارمنس اُس کی 1992 کے ورلڈ کپ کی واحد جیت کے ساتھ ایک عجیب طرح کی مماثلت میں مبتلا تھی کہ اُس کے ساتوں میچوں کے نتائج ہو بہو 27 برس قبل کی یاد دلا رہے تھے مگر پھر ہم نے دیکھا کہ اصل مماثلت کہیں اور تھی کہ انگلینڈ کی ٹیم جو 1992 کے فائنل میں پاکستان سے ہاری تھی بالکل اُسی انداز میں آگے بڑھی جس سے خود فاتح یعنی پاکستان کی ٹیم گزری تھی ۔ دوسری غیر متوقع مگر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پوائنٹس ٹیبل پر موجود پہلی دونوں ٹیمیں بھی آسٹریلیا اور بھارت سیمی فائنل کے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکیں اور یوں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ فائنل کے لیے آمنے سامنے آگئیں۔

نیوزی لینڈ نے اپنی باری کے پچاس اوورز میں 241 رنز بنائے جو بظاہر کسی بھی معیار اور اعتبار سے چیمپیئن ٹیم کے شایانِ شان نہیں تھے لیکن دوسری طرف انگلینڈ کی پرفارمنس بھی اچھی ہونے کے باوجود غیر معمولی نہیں تھی ہاں اتنا ضرور تھا کہ اُس کی بیٹنگ لائن اپ کی عمومی کارکردگی کے حوالے سے 241 کوئی بہت پریشان کن ٹارگٹ نہیں تھا لیکن ہوا یہ کہ پہلے بیس اوورز کے بعد اس ٹارگٹ کی بلندی مائونٹ ایورسٹ جیسی نظر آنے لگی کہ اُن کے چاروں بہترین بیٹسمین پویلین میں واپس پہنچ چکے تھے۔ اسٹوکس اور جوزبٹلر کی غیر معمولی کارکردگی کے باوجود 49 ویں اوور کے اختتام تک جیت کا پلڑا نیوزی لینڈ کی طرف ہی جھکتا نظر آ رہا تھا ۔

اب اسکور کس طرح لیول ہوا، سپر اوور میں کیا ہوا، یہ سب باتیں اس میچ کے دیکھنے والوں کے ذہنوں میں تا عمر جوان رہیں گی کہ ایسے اُتار چڑھائو اور اس قدر سانس روک دینے والے مناظر کرکٹ کے میدانوں میں بالعموم اور ورلڈ کپ مقابلوں میں بالخصوص پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے جب کہ آخری نتیجہ جس Justice کے تحت طے کیا گیا وہ اصل میں Poetic Justice کا طالب اور حقدار تھا یعنی یا تو اس سپر اوور کو اُس وقت تک جاری رکھا جاتا جب تک کوئی ایک ٹیم جیت نہ جاتی یا پھر اس ٹرافی کو مشترکہ کی حیثیت دے دی جاتی کہ دونوں ٹیمیں یکساں طور پر اس کی مالک اور حقدار ٹھہرتیں۔

گرنے والی وکٹوں یا لگنے والی بائونڈریز کی تعداد کی بنیاد پر ہارجیت کا فیصلہ ایک طرح کا حل تو یقینا ہے مگر یہ کوئی بہتر یا تسلی بخش حل نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے اتفاق کی بات ہے کہ اس طرح کے حل کے حوالے سے کرکٹ کے کھیل کی ایجاد سے بھی کچھ پہلے میر تقی میرؔ نے ایک راستہ نکالا تھا مگر اُس کی تمام تر Logic شاعرانہ یا فلسفیانہ تھی جب کہ ’’امر واقعہ‘‘ شاعری یا فلسفے کی گرفت سے عام طور پر باہر ہی رہتا ہے ۔ میر صاحب نے کہا تھا۔

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

کھیل ہو یا زندگی دونوں ہی جیت اور ہار کے معنی تمام تر اشتراک کے باوجود کبھی کبھی بدل جاتے ہیں جیسا کہ اس میچ میں ہوا جس کی تفصیل میں نے اُوپر بیان کی ہے ۔ ہم آپ اپنی اپنی زندگیوں میں جو فیصلہ اور عمل کرتے ہیں ان کا حساب دنیاوی زندگی کی حد تک یا تو وقت اور معاشرہ لیتے ہیں یا ہمارا ضمیر اور اندر کی عدالت ۔ ان دونوں احتسابوں کے اپنے اپنے معیارات ہیں جن پر الگ سے بحث ہو سکتی ہے مگر مجموعی پرفارمنس کا آخری فیصلہ کسی ٹاس نما طریقے سے کرنا غالباً کسی بھی طرح درست یا مبنی پر انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں اس طرح کی کسی صورتِ حال میں ’’برابری‘‘ کے طریقہ کار کو اپنا لیا کریں اور وہ حق دوسرے کو بھی اُسی طرح سے دیں جس طرح ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں ۔

ایسے موقعوں پر مجھے وہ فرمانِ ربی بھی بار بار یاد آتا ہے کہ ’’عدل کرو مگر احسان کے ساتھ‘‘ جیت کی خوشی اور ہار کا غم زندگی کا حصہ سہی اور ان کی یہ تفریق بھی بلاشبہ اپنے اندر ایک معنویت رکھتی ہے کہ محنت کے معاوضے اور حقوق کی تقسیم کے لیے بہرحال کچھ اصول متعین کرنے پڑتے ہیں مگر جہاں معاملہ اصول کے ساتھ ساتھ کسی طرح کے استثنیٰ کا آ جائے تو وہاں عدل اور احسان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہی زیادہ احسن طریقہ ہے، کسی دوسرے کے غم کی نوعیت اور شدّت کو سمجھنے کا بہترین طریقہ بھی شائد یہی ہے کہ آپ اس کو ’’اپنا غم‘‘ اور ’’اپنا مسئلہ‘‘ سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کریں، اگر اس فیصلے میں نیوزی لینڈ کی جگہ پاکستان ہوتا تو ہم اسے اسی طرح سے دیکھتے جیسے اب دیکھ رہے ہیں؟ یقینا نہیں ۔ تو آیئے زندگی میں باہمی خوشیوں کو مل بانٹ کر جینا سیکھیں اور کبھی کبھی ہار جیت کی رستہ کاٹتی ہوئی لکیر کو درمیان سے ہٹا کر بھی دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے