پی ٹی آئی آزاد کشمیر کی تنظیم سازی،چند ضروری وضاحتیں

دنیا کی تاریخ گواہ ہے جب بھی کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس کے حق اور مخالفت میں بیانیے سامنے آتے ہیں جیسے انگلش کی ایک مشہور کہاوت کا ترجمہ ہے کہ آپ سب لوگوں کو ایک ہی وقت میں خوش نہیں کر سکتے۔

پی ٹی آئی آزادکشمیر کی حالیہ تنظیم سازی کے تاریخی فیصلے کے بعد جہاں اکثریتی تعداد نے جشن منایا، وہاں کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ سنجیدہ سیاسی کارکن کی یہ نشانی ہوتی ہے کے وہ جماعت کے اندرونی معاملات و تحفظات کو پبلک فورم پر زیر بحث نہیں لاتا بلکہ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اپنے نقطہ نظر کی حمایت کی جنگ لڑتا رہتا ہے۔ بھلا ہو سوشل میڈیہ کا جس نے ہر ایک فرد کے ہاتھ میں لاؤڈ سپیکر دے دیا اور پھر گھر کی لڑائیوں کے فیصلے بھی چوکوں اور چوراہوں میں ہونے لگے ہیں۔ چونکہ کچھ نادان سیاسی رفقاء نے تنظیم پر تحفظات کا اظہار کھلے عام میڈیا پر کیا تو مجھے پارٹی کے ذمہ دار کی حیثیت سے جواب بھی اوپن فورم پر دینا پڑ رہا ہے۔

چئیر مین عمران خان نے جب اپنے دیرینہ ساتھی سیف اللہ خان نیازی کو 20 سالہ پارٹی خدمات کے نتیجے میں مرکزی چیف آرگنائزر تحریک انصاف بنایا تو اس فیصلے کو جماعت کے اندر اتنی پذیرائی ملی کہ پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا اور جگہ کم پڑ گئی۔اس وقت بھی چند لوگ ضرور ایسے موجود ہوئے ہوں گے جن کو اس فیصلے پر تحفظات ہوں گے۔ انہوں نے اگلے مرحلے میں پورے پاکستان مع آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی تنظیم نو کرنی تھی۔

مجھے تنظیم نو کے عمل کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ چیف آرگنائزر نے اس عمل کی ابتداء ایک لفظ سے کی اور وہ لفظ تھا “مشاورت” اور اس لفظ کو پارٹی آئین کمیٹی کے انچارج ڈاکٹر ابوالحسن نے اپنے آئین میں ترجیحی بنیادوں شامل کیا اور اسے مرکزی اصول قرار دے دیا۔

سیف اللہ نیازی اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری

مشاورتی عمل لازم بنانے کے لیے پارٹی آئین میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور پھر میں نے دیکھا کے پارٹی کا مرکزی سیکرٹیریٹ ہر خاص و عام کے لیے کھول دیا گیا۔ پانچ ماہ میں آزادکشمیر کے طول و عرض سے آئے ہزاروں لوگوں کو چیف آرگنائزر نے بڑی دلچسپی سے سُنا، انہیں وقت دیا۔ آزادکشمیر کا شاید ہی کوئی ایسا سیاسی رہنما بچا ہو گا جس کو چیف آرگنائزر نے ملاقات کا وقت نہ دیا ہو۔ صبح 9 بجے سے ل لے کر شام دیر تک بیٹھ کر پورے پاکستان سے آئے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کرنا اور پارٹی امور پر مشاورت لینا معمول کا حصہ بن تھا۔ پارٹی کے اندر مختلف خیالات کے لوگوں کو ایک میز پر بٹھا کر معاملات کو سُلجھانا سیف اللہ خان نیازی کی خاصیت بن گئی۔

آزادکشمیر کی تنظیم سازی کے معاملے پر چیف آرگنائزر نے 41 حلقوں کے تمام اہم سیاسی کارکنان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور نہ صرف فِیڈ بیک لیا بلکہ اسے اہمیت بھی دی۔ اب آتے ہیں ان تحفظات پر جو آزادکشمیر کے چند افراد تنظیم پر لگا رہے ہیں اور ان کے جوابات بھی دیتے ہیں۔

[pullquote]پہلا اعتراض : میرپور ڈویژن کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے[/pullquote]

جواب۔ کُل 13 مرکزی عہدوں میں سے 5 میرپور ڈویژن 4 پونچھ ڈویژن 2 مظفرآباد ڈویژن 1 جموں اور ایک ویلی کو عہدہ ملا ہے لیکن چیف آرگنائزر کا ویژن اس معاملے میں دو ٹوک ہے اور وہ یہ ہے کے مرکزی ٹیم کے کھلاڑیوں کے چناؤ کا بنیادی معیار انفرادی صلاحیت اور پارٹی خدمات ہونا چاہیے نہ کہ علاقائی ، مذہبی اور برادری کے نمائندے کی بنیاد عہدوں سے نواز دیا جائے۔ ایک ہی گھر سے بھی دو بہترین فاسٹ باؤلر مل جائیں تو دونوں کو ٹیم میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں ، اگر وہ میچ جیتوانے میں اپنا کردار ادا سکتے ہوں۔ لہذا پی ٹی آئی کے تمام کارکنوں سے درخواست ہے اپنے اپنے علاقے اور برادری کی جنگ لڑنے کے بجائے عمران خان کے مشن کی جنگ لڑیں ، جس کا مقصد علاقائی تعصب اور برادری ازم کا خاتمہ ہے۔

[pullquote]دوسرا اعتراض : کئی الیکٹیبلز کو نظر انداز کر لیا گیا[/pullquote]

جواب:
کل عہدے 13 اور پچاس اہم امیدوار۔ یہ تو نہیں ہو سکتا 50 لوگوں کو مرکزی عہدے دے دیے جائیں کسی نے ڈویژن میں جانا ہے کسی نے ضلعی تنظیم میں جانا ہے اور اسی طرح پارٹی کے پاس ہزاروں عہدے ہیں ، سب کو ایڈجسٹ کیا جائے گا لیکن وہ کسی انفرادی شخص کی خواہش پر نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت کے عمل کے بعد میرٹ پر فیصلہ کیا جائے گا۔

اہم بات یہ ہے کہ ماسوائے ایک دو تبدیلیوں کے یہ تو تقریباً وہی پرانی تنظیم ہے، جس پر کسی کا اعتراض نہیں تھا۔ بیرسٹر سلطان پہلے بھی صدر تھے اب بھی صدر ہیں ، ظفر انور پہلے چیف آرگنائزر تھے ،اب وہ عہدہ ختم ہوا تو سینئر نائب صدر بن گئے۔ اظہر صادق پہلے بھی نائب صدر تھے ،اب بھی نائب صدر ہیں۔ راجہ خورشید پہلے بھی نائب صدر تھے ، اب بھی نائب صدر ہیں۔ مصدق خان پہلے چئیرمین پالیسی اینڈ پلاننگ تھے ، اب جنرل سیکٹری ہیں۔ میں (راجہ منصور) ڈپٹی جنرل سیکرٹری تھا ، اب ایڈیشنل جنرل سیکرٹری ہوں، قاضی اسرائیل پہلے بھی جوائنٹ سیکرٹری تھے ، اب ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں، چوہدری مقبول پہلے نائب صدر تھے ، اب ڈپٹی جنرل سیکرٹری ہیں۔

ایک تبدیلی سیکرٹری انفارمیشن میں اس لیے کی گئی کہ نئے آئین کے مطابق سیکرٹری انفارمیشن کے عہدے کو ایڈمنسٹریٹو عہدہ تسلیم کیا گیا ہے ، جس کا مطلب عہدیدار کے متعلقہ فیلڈ سے متعلق تجربے اور ڈگری کو ترجیح دی جائے گی۔ اسی دوران ایک ایسی شخصیت نے پارٹی کی ترجمانی کی ہامی بھری ، جو آزادکشمیر کی صحافت کی معتبر اور تجربہ کار شخصیت مانی جاتی ہے۔ ان کی رسائی نہ صرف قومی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک ہے بلکہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

سردار ارشاد محمود

سردار ارشاد محمود کا پارٹی کے لیے خدمات کی پیشکش کرنا اور اس ذمہ داری کو قبول کرنا پی ٹی آئی کے لیے نیک شگون ثابت ہے اور وقت ثابت کرے گا وہ پارٹی کا گراف بہت اوپر لےکر جائیں گے۔

آخر میں میری تمام پی ٹی آئی کے دوستوں سے درخواست ہے کہ آئیں ایک خاندان کی مِل کر سر جوڑتے ہیں کہ ہم نے آنے والے انتخابی مرحلے کو کیسے کامیابی سے عبور کرنا ہے۔ آئیں بیرسٹر سلطان محمود کی قیادت میں سیف اللہ نیازی کے دست و بازو بنتے ہیں۔ اپنے تحفظات اور خدشات کو پارٹی آئین کے مطابق پارٹی فورم پر زیر بحث لاتے ہیں ۔ آئیں مشاورت کے عمل کو وسیع کرتے ہوئے اجتماعی فیصلہ سازی کے کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پہچانیں ان مفاد پرست لوگوں کو جو اپنی ذات کے عہدوں کے لیے سیاسی کارکنوں کو پارٹی پالیسی سے منحرف کروا کر ان کا سیاسی قتل کرتے ہیں۔ آئیں آزادکشمیر کے وسائل ، مسائل اور ان کے حل پر مغز کھپاتے ہیں تاکہ ہم اس چھوٹے سے خطے کے لوگوں کے طرز زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

والسلام

آپ کا بھائی راجہ منصور خان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے