قبائلی انتخابات : خواتین کا 360 سے گیارہ لاکھ تک کا سفر

[pullquote]خواتین نے کتنے ووٹ پول کئے ۔۔۔[/pullquote]

ملک کی تاریخ میں پچاس سال تک بالغ حق رائے دہی سے محروم قبائلی خواتین کو 1997 ءمیں پہلی بار ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا . اس وقت سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز میں مردوں کے 78 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز کے مقابلے میں صرف 360 خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ ہو سکے .

دو دہائیاں گذرنے کے بعد 2019 ءکے انتخابات میں قبائلی اضلاع کے کل 28 لاکھ ووٹوں میں خواتین ووٹرز کی تعداد گیارہ لاکھ 30 ہزار سے زائد تھی. قبائلی اضلاع بننے کے بعد تاریخ کے پہلے صوبائی انتخابات میں 2 لاکھ پندرہ ہزار سے زائد یعنی 17 فیصدخواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا. ان انتخابات میں پول کئے گئے سات لاکھ 30 ہزار ووٹوں میں مردوں نے پانچ لاکھ 20 ہزار یعنی 26 فیصدووٹ پول کیے ۔ قبائلی اضلاع کی سولہ نشستوں میں سے کسی بھی حلقے پر خواتین ووٹوں کی شرح دس فیصد سے کم نہیں تھی ، 2017 ءکے الیکشن ایکٹ کے مطابق کسی بھی حلقے میں پول کئے گئے ووٹوں میں کم از کم دس فیصد لازمی طور پر خواتین کی ہونی چاہیے ۔

قبائلی اضلاع میں خواتین ایک عرصے سے حق رائے دہی سے محروم رہی ہیں . ملک میں 1970 کے انتخابات میں بالغ رائے دہی کا طریقہ کار اپنایا گیا جس کے بعد 1977 ء، 1985 ، 1988 ، 1990 اور 1993 ءانتخابی عمل کے دوران قبائلی اضلاع میں بالغ رائے دہی کی بجائے صرف پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کے منظور نظر سفید ریش ملکان ہی حق رائے دہی کا استعمال کرتے تھے اس دوران قبائلی اضلاع میں کسی بھی خاتون کا ووٹ رجسٹرڈ نہیں تھا اور صرف مرد ملکان ہی ووٹ کاسٹ کرسکتے تھے۔

1997 ءمیں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں بالغ حق رائے دہی کا طریقہ متعارف کرایاگیا جس میں 78 ہزار مردوں کے مقابلے میں صرف 360 خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ تھے . الیکشن کمیشن کے مطابق 20 جولائی کے انتخابی عمل کے دوران قبائلی اضلاع کی سولہ نشستوں پر خواتین کے ووٹوں کی شرح 17 فیصد تھی ، پاڑہ چنار کے حلقہ پی کے 109 پر 45 فیصد خواتین یعنی 33 ہزار پانچ سو سے زائدخواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا، شمالی وزیرستان حلقہ پی کے 111 پر خواتین کی شرح سب سے کم 16.90 فیصد یعنی 6244 خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا۔

[pullquote] خواتین کو حق رائے دہی سے کون محروم رکھتا تھا ؟[/pullquote]

قبائلی اضلاع میں مقامی ملکان اور مشران کے مابین معاہدوں کے ذریعے 1997 ءسے 2013 ءتک خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا تاہم 2017 ءکے الیکشن ایکٹ میں کم ازکم دس فیصد خواتین کے ووٹ ہر صورت میں پول کرنے کے باعث قبائلی ملکان کے معاہدوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

بادام زری کی توڑتی روایات کو ناہید بیگم اور ملاسہ بی بی نے جاری رکھا . 2013 ءکے انتخابات میں باجوڑ کے بادام زری نے روایات کو توڑتے ہوئے براہ راست قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور ایک لاکھ 85 ہزار40 ووٹوں میں صرف 142 ووٹ حاصل کئے .

2019 ءمیں قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کیلئے نشستوں پر انتخابات کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کی ناہید بیگم نے حلقہ پی کے 106 پر براہ راست الیکشن لڑ کر 194 اور پی کے 109 پاڑا چنار سے جماعت اسلامی کی ملاسہ بی بی نے 17 ووٹ حاصل کئے ۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پی کے 100 میں خواتین نے 24 فیصد، پی کے 101 میں 25 فیصد، 102 اور103 میں 31 فیصد، پی کے 104 میں 25 فیصد، پی کے 105 میں 34 فیصد، ، پی کے 106 چوبیس فیصد، پی کے 107 میں سترہ فیصد، پی کے 108 میں 35 فیصد، پی کے 109 میں پینتالیس فیصد، پی کے 110 میں پینتیس فیصد، پی کے 111 میں 16.90 فیصد، اور پی کے 115 میں 33 فیصد خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے