خلائی سفر کی دوڑ

27دسمبر 2016ء چین کا چاند کے سفر کے بعد ایک اور ناقابل یقین منصوبہ منظر عام پرآیا۔نئی خلائی دوڑ شروع ہوتے ہوئے دکھائی دی۔چینی حکومت نے ملکی خلائی انڈسٹری کو ٹارگٹ دیاکہ وہ 2020ء تک ایسے خلائی سیٹیلائٹس کی تیاریاں مکمل کر لے‘ جنہیںچاند اور مریخ کے سفر پر روانہ کیاجا سکے۔ 3جنوری 2019ء کوعالمی معیاری وقت کے مطابق‘ رات ڈھائی بجے چین کا ”چینگ فور‘‘ طیارہ چاند کے قطب جنوبی ائیٹکن بیسن پر اترنے میں کامیاب ہوا۔

چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے لینڈنگ کو ”خلابازی کی تاریخ کا اہم قدم‘‘ قرار دیا۔چینی حکام نے روبوٹک طیارے سے بھیجے جانے والی چاند کی تصویر بھی ٹوئٹر پر جاری کی۔یہ پہلا موقع تھا جب کوئی جہاز چاند کی عقبی حصے میں گیا ہو۔ایسی خلائی گاڑیاں مختلف قسم کے آلات سے لیس ہوتی ہیں ‘جو علاقے کی ارضیاتی خصوصیات جانچنے کے علاوہ حیاتیاتی تجربہ بھی کرتی ہیں۔ابھی تک چین نے امریکی اور روسی خلائی مشنز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے‘ لیکن یہ مشن کسی بھی خلائی ادارے کی جانب سے پہلا قدم قرار دیا جانے لگا۔چاند کی دوسری جانب کی ناہموار سطح خلائی گاڑیوں کی لینڈنگ کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جغرافیائی قافلوں میں شامل ملک بھارت کیسے اس کو برداشت کرتا ؟چین کی ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر بھارت کیسے پیچھے رہتا؟ بھارت کی چین اور پاکستان کے ساتھ بغض اور لڑائیوں پر مبنی تاریخی کتب بھری پڑی ہیں‘مگر ابھی تک بھارت چینی ٹیکنالوجی کی برابری کرنے میں ناکام دکھائی دیا۔بھارتی خلائی ادارے کے سربراہ کے سیوان کا بیان سامنے آچکا اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ دسمبر 2020ء اور جولائی 2021ء کے درمیان خلائی مہمات روانہ کرے گا‘ جس کے بعد ان کا ہدف دسمبر 2021ء تک خلاء میں انسانی مشن بھیجنا ہے۔ ممکن ہے کہ خلاء میں بھیجے جانے والے بھارت کے پہلے مشن میں ایک خاتون خلا نورد بھی شامل ہو۔

منصوبہ بن چکا‘ خلابازوں کی ابتدائی تربیت بھارت میں جب کہ ایڈوانس ٹریننگ روس میں ہوگی۔ پچھلے سال بھارت کے یوم آزادی کے موقع پرنریندر مودی نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ بھارت 2022ء میں اپنے 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر خلا میں جو راکٹ بھیجے گا‘ اس میں بھارت کا ایک بیٹا اور بیٹی بھی سوار ہوگی‘ جو اس سفر میں قومی جھنڈا لے کر جائیں گے‘تاہم بعض حلقوں کی جانب سے اس بیان کو سیاسی بیان سے مشابہت دی گئی ۔

واضح رہے کہ بھارت کا پہلا مشن ”چندریان ون‘‘ 2008ء میں چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا تھا۔رواں ہفتے اس حوالے سے نئی خبر سننے کو ملی ہے کہ بھارت ایک مرتبہ پھر چاند پر اپنے دوسرے مشن ”چندریان ٹو‘‘ کو روانہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ خلائی جہاز گزشتہ ہفتے تکنیکی خرابی کے باعث روانہ نہیں ہوسکاتھا‘ تاہم بھارت کے خلائی ادارے” اسرو ‘‘نے کہا کہ چندریان ٹو‘ کو پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق دوپہر تین بجے کے قریب بھیجا جائے گا۔”اسرو‘‘ نے امید ظاہر کی کہ 15 کروڑ ڈالر کے خرچ والا ایسا مشن ہے‘ جو چاند کے جنوبی قطب پر اترے گا۔

اس سے قبل 15 جولائی 2019ء کو چاند کے لیے روانہ ہونے والا مشن مقررہ وقت سے 56منٹ قبل ‘لانچ وہیکل سسٹم میں تکنیکی خرابی‘ کے سبب روک دیا گیا تھا۔بھارتی میڈیا کے مطابق‘ بھارت اس منصوبے کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹیلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کر رہا ہے‘ جس کا وزن 640 ٹن ہے ‘جو کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا بنتا ہے ۔اور اس کی لمبائی کسی بھی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔اسرو کے سربراہ ڈاکٹر کے سیوان نے پہلی بار لانچ کرنے کی کوشش سے قبل کہا کہ جب بھیجا گیا خلائی جہازاپنا کام کرنے لگے گا تو بھارت چاند سے اپنی پہلی سیلفی کی امید کر سکتا ہے۔

دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہونے والے ملک بھارت کے لیے اس کا سپیس پروگرام ملکی ‘برانڈنگ‘ میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ جمعرات کے روز بھارتی وزیر اعظم نے بھی اس سیٹیلائٹ کو خلا میں بھیجے جانے پر فخر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا ”قوم کو نئی بلندیوں تک پہنچانے اور روشن مستقبل کی جانب لے جانے پر مجھے آئی ایس آر او پر فخر ہے۔‘‘ 2014ء میں بھارت کے نئے سیٹیلائٹ کو بھارتی خلائی پروگرام میں ایک اور بڑا قدم قرار دیا جا رہا تھاتاہم سیٹیلائٹ سے رابطہ کھو جانے کے بعد بھارتی خلائی پروگرام کے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہو ئے۔

بھارتی خلائی پروگرام کوامریکااور دیگر ممالک کے مہنگے پروگراموں کے مقابلے میں سستا اور قابل اعتماد بنا کر پیش کیا جا نے لگا۔ ناسا کے مریخ کے مدار میں بھیجے گئے سیٹیلائٹ پر671 ملین ڈالر صرف ہوئے تھے جب کہ اس کے مقابلے میں بھارتی منصوبے پر محض 73 ملین ڈالر کا خرچہ ظاہر کیا گیا۔گزشتہ برس فروری میں اسرو نے ایک ہی پروگرام کے تحت 104 مصنوعی سیارے خلا میں چھوڑے‘ جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی گاہکوں کے لیے تھے جب کہ اس کے بعد جون کے آغاز میں بھارت نے اپنے خلائی پروگرام کے تحت ‘ سب سے طاقتور راکٹ کو خلا میں بھیجا۔ اس راکٹ کو بھی تکنیکی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ذ ہن نشین رہے کہ پاکستان بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔گزشتہ برس 9 جولائی کو پاکستان نے خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں اس وقت اہم پیش رفت سامنے آئی‘ جب ملکی تاریخ میں پہلی بار چین کی مدد سے تیار کردہ سیٹیلائٹ پی آر ایس ایس ون اور پاکستانی انجینئرز کا تیار کردہ سیٹیلائٹ پاک ٹیسون خلا میں بھیجا گیا ‘ جنہیں چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیا گیا تھا۔چین کے خلائی تحقیقی ادارے ”سی این ایس اے‘‘ اور پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو مل کر چین پاکستان سپیس کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق ہوا‘ جس کی سربراہی دونوں ملکوں کے خلائی تحقیقاتی اداروں کے سربراہ کریں گے۔اس حوالے سے کئی معاہدوں پر دستخط بھی ہوچکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے