جن کی قسمیں گھر والے نہیں دیتے!

ابھی سٹوری پڑھ رہا تھا کہ کینیا کے وزیرخزانہ کو پولیس نے کرپشن الزامات پر گرفتار کر لیا ہے ۔ تفصیل پڑھی تو ہنس پڑا۔ انسان بھی کیا چیز ہے ‘چاہے آپ کا کوئی رنگ ہو‘ آپ کہیں پیدا ہوئے ہوں ‘ اپ کا کوئی بھی ملک یا معاشرہ ہو‘ لیکن انسان جب کرپشن کرتا ہے تو طریقۂ واردات حیران کن طور پر ایک ہی ہے۔

میں خود رپورٹر ہوں اور ان برسوں میں کئی سکینڈلز بریک کیے ہیں‘ لہٰذا جب کینیاکے وزیرخزانہ کی پوری سٹوری پڑھی تو مجھے یوں لگا کہ یہ سب کچھ پاکستان کے بارے میں پڑھ رہا ہوں۔ اس خبر کے مطابق‘ کینیا کے وزیر خزانہ نے خود گرفتاری دے دی جب چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے۔ ساری کہانی اس وقت شروع ہوئی جب کینیا میں دو ڈیم بنانے کا منصوبہ شروع ہوا اور اس کے لیے چار سو ملین ڈالرز کا کنٹر یکٹ اٹلی کی ایک پارٹی کو ایوارڈ کیا گیا ۔ جب اس سکینڈل کی خبر نکلی تو وزیرخزانہ نے ایک اخبار میں اشتہار دیا‘ جس میں اس نے ان تمام الزامات سے انکار کیا ۔ اب یہ الزامات کیا تھے‘ جن میں کل بیس لوگوں کی گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے‘ جن میں اس کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہیں ۔

پہلا الزام یہ لگا کہ یہ کنٹریکٹ موصوف نے ایک سو ستر ملین ڈالرز زیادہ مہنگا ایوارڈ کیا تھا ۔ اس طرح ڈیم کے سامان کی خریداری اور ادائیگیوں میں بھی بہت بے ضابطگیاں پائی گئیں ۔ بعض چیزیں تو ایسی خریدی گئی ہیں ‘جن کا تعلق ڈیم سے نہیں تھا‘ اور اس پر اڑتیس ہزار ڈالرز خرچ کیے گئے ۔ اس سے کمبل‘ کپڑے‘ اور بستر کی چادروں کی خریداری دکھائی گئی ہے۔ ڈیم کے نام پر دو سو ملین ڈالرز خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی تک ڈیم کا نام و نشان نہیں ۔

آپ کو یقینا اس پر کوئی حیرانی نہیں ہورہی گی۔ آپ کو یہ سب کچھ سنا سنا اور پڑھا پڑھا لگ رہا ہے۔ آپ کو لگ رہا ہے کہ یہ تو کسی پاکستانی پراجیکٹ کی بات ہورہی ہے یا پاکستانی لیڈروں کی یا پاکستانی منصوبوں کی۔ اور تو اور قرضے لے کر شروع کیے گئے منصوبے جو صرف فائلوں میں بنائے جاتے ہیں وہ بھی ایک جیسے ہیں۔

آج کل حکومت نے ایک کمیشن بنایا ہوا ہے‘ جس کا کام یہ دیکھنا ہے کہ پچھلے دور میں جو قرضے لیے گئے وہ کہاں استعمال ہوئے ؟ یہ بھی دنیا کا عجیب قرضہ ہوگا کہ لاہور میں صرف چھبیس کلو میٹر ٹرین کے لیے اڑھائی ارب ڈالرز کا قرضہ چین سے لیا گیا اور ٹرین نے جو لاہور کا حشر کر دیا ہے‘ وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں آپ کو صاف پانی پراجیکٹ یاد ہے ‘جس بارے میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ چار ارب روپے خرچ ہوگئے ہیں ‘لیکن پانی کی ایک بوند تک نہیں ملی۔ سب پیسہ پاکستانی شریفوں اور ان کے بیوروکریٹس پر خرچ ہوگیا ۔ پاکستانی بابوز نے چھپن کمپنیاں بنا کر ان سے اربوں روپے لوٹے اور سب پراجیکٹس صرف فائلوں کی حد تک زندہ رہے۔

پراجیکٹ بہاولپور میں چلنا تھا ‘لیکن دفاتر لاہور میں بنائے جارہے تھے‘ مہنگی گاڑیاں لاہور میں خریدی جارہی تھیں۔ صاف پانی کا ایک دفتر شہباز شریف کے داماد علی عمران کے پلازہ میں کروڑوں روپوں کی ادائیگی کر کے بنایاگیا۔ پتا چلا نئے بابوز کو وہ نیا دفتر پسند نہیں آیا تو ان کی فرمائش پر نیا دفتر لیا گیا‘ جہاں پھر کروڑوں روپے ایڈوانس دیے گئے۔ علی عمران جو گوالمنڈی میں ایک عام سی دکان چلاتے تھے‘ انہیں امیر بنانے کا منصوبہ تھا‘ لہٰذا اسے کروڑوں روپے کرایہ کے نام پر دے کر وہ دفتر بھی خالی کر دیا گیا ۔ ویسے آپ بھول نہ جائیں‘ یہ علی عمران وہی ہیں ‘جنہوں نے ایرا کے اکرم نوید کے ساتھ مل کر ڈاکے مارے اور اکرم نوید کے اعترافی بیان کے مطابق ‘اس نے بیس کروڑ روپے سے زائد ادائیگیاں علی عمران کو کیں ۔جعلی دستاویزات بنا کر یہ ادائیگیاں کی گئیں ۔

یہی ایک پراجیکٹ نہیں ‘جو پیسے بنانے کے لیے استعمال کیا گیا‘ ملتان میٹرو یاد ہے جب ایک چینی کاروباری نے چین جا کر سب کو حیران کر دیا کہ اسے ملتان میٹرو پراجیکٹ میں تین ارب 75 کروڑ روپے کا ایک چھوٹا سا کام کرنے کا کنٹریکٹ ملا۔ اس نے75 کروڑ روپے خرچ کیے اور اسے تین ارب روپے کا منافع ہوا ہے‘چینیوں نے پاکستان کو لکھ کر بھیجا کہ پتا کرو اتنا بڑا ڈاکہ کیسے پڑگیا؟ ہمارے شہباز شریف اور ان کے صحافی طبلچی میدان میں کود پڑے اور چینیوں کو جھوٹا ثابت کر کے چھوڑا۔ وہ چینی پیٹتے رہ گئے کہ جناب آپ کے گھر ڈاکہ پڑ گیا ہے۔ ہم پھر بھی نہ مانے‘ کیونکہ مان لیتے تو بڑے بڑے پھنس جاتے‘ جنہوں نے ملتان میٹرو‘ ملتانیوں کی محبت میں نہیں ‘بلکہ اپنا مال بنانے کے لیے شروع کی تھی‘ ورنہ جا کر ملتان دیکھیں کہ میٹرو بسوں میں کتنے لوگ سفر کررہے ہوتے ہیں؟ جس روٹ پر بنائی گئی ہے‘ وہ روٹ اتنا بیکار ہے کہ اس پر شہری سفر ہی نہیں کرتے۔ وہی بات کہ مقصد پیسہ بنانا تھا میٹرو تو بہانہ تھا۔

آپ حیران ہورہے ہوں گے‘ بھلا75 کروڑ روپے خرچ کرنے پر تین ارب روپے کا منافع کوئی کیسے کما سکتا ہے تو پھر آپ ایل این جی ٹرمینل کنٹر یکٹ کو بھول گئے‘ جو شاہد خاقان عباسی نے اینگرو کمپنی کو دیا تھا ۔ اگر‘ آپ تیرہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کے عوض دو سو ارب روپے کا منافع کما سکتے ہیں تو پھر75 کروڑ پر تین ارب روپے منافع پر حیرانی کیوں؟ اب آپ کو پتا چلا کہ یہ سب بڑے پراجیکٹ کیوں لانچ کئے جاتے ہیں‘ کیونکہ دنیا بھر میں اس میں لمبا مال کمانا مقصود ہوتا ہے۔ چھوٹے منصوبوں میں مال بنانے کا مارجن کم ہوتا ہے۔ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے بیوی بچے ٹرانسفر پوسٹنگ پر پیسہ لگانے پر لگ گئے ۔ یہ شریف لوگ زیادہ سمجھدار ہیں یہ ٹرانسفر پوسٹنگ کی بجائے بڑے پراجیکٹ شروع کرتے ہیں اور لمبے ہاتھ مارتے ہیں۔

اور سنیں‘ ایک دوست کے گھر دعوت تھی‘ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صدر زرداری کے دوست تھے اور زرداری صاحب نے سی ڈی اے ان کے حوالے کیا ہوا تھا کہ خود بھی کمائو اور ہماری چونچ بھی گیلی کرو۔ وہ تو بعد میں پتا چلا ان کا اصل کام تو زرداری صاحب کے صاحبزادے کو اسلام آباد کی پہاڑیوں میں سینکڑوں کنال زمین ٹرانسفر کرانا تھا ۔ان کا دوسرا کام یہ تھا کہ پہلے سی ڈی اے سے بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیمز کا اعلان کرائو‘ تین چار ارب روپے اکٹھے کرلو اور اتنی دیر میں ان کے دوست اس جگہ کے سامنے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی لانچ کر کے قیمت آدھی رکھ کے سب پلاٹ بیچ کر اربوں اکٹھے کر لیتے۔ سی ڈی اے کے وہ سیکٹر ڈیویلپ نہ ہوئے۔ مقصد ان امیروں کے پلاٹ بیچوانا تھا ۔

خیر وہی موصوف میرے سامنے ایک اور بندے سے کہنے لگے: جناب کوئی پارٹی ڈھونڈو‘ سندھ میں کوئی کام ہو تو بتائیں ۔ بولے: بڑا کام ہو‘ کوئی آئی پی پیز یا پاور پلانٹ ٹائپ‘ اس میں زیادہ کمیشن ملتا ہے۔ وہ بندہ مجھے دیکھ کر کچھ گھبرا گیا اور اشارہ کیا‘ کیا بات کررہے ہیں؟ مطلب تھا کہ صحافی کی موجودگی میں ایسی بات کررہے ہیں۔ موصوف نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولے :کوئی بات نہیں یہ سب جانتے ہیں کہ پیسے انہی کاموں سے ہی بنتے ہیں۔

یہ توصرف دو تین چھوٹی موٹی مثالیںہیں ‘ورنہ آپ جو بھی اینٹ اٹھائیں‘ نیچے سے ایک سکینڈل نکلتا ہے اور سکینڈل بھی ایسے کہ جن پر ہاتھ ڈالو تو فوری جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے اور پارٹی ورکرز کے نام پر اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بھرتی کرائے گئے صحافیوں کے ٹولے حملہ آور ہوجاتے ہیں ۔ ویسے کسی دن پتا کرالیں‘ جس کو سادہ اور ایماندار ثابت کیا جارہا ہے اس کے بیٹے کی جب شادی ہوئی تو وزیراعظم ہاؤس میں ان کی بہو کا کتنے گھنٹے تک ایک ایک کمرے اور راہداری اور باہر لان میں فوٹو شو ہوتا رہا ؟ ایک سرکاری افسر نے مجھے بتایا :ایک دن اسے وفاقی سیکرٹری نے بلایا ‘وہاں دو نوجوان بیٹھے تھے۔ اس نے پوچھا :آپ ان کو جانتے ہیں ؟

یہ ہمارے سب سے سادہ اور ایماندار وزیراعظم کے صاحبزادے ہیں ۔ سرکاری فنکشنز اور سیمینارز کے لیے کیٹرنگ کا ٹھیکہ ان سے پوچھ کر دینا ہے۔وہ سرکاری افسر افسردہ ہوکر بولا: اب بات کیٹرنگ کے ٹھیکوں تک پہنچ گئی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ جن کی اپنے گھر والے قسمیں نہیں دیتے‘ کیونکہ انہیں سب پتا ہے کہ کس کس بچے کے نام پر کیا مال کمایا گیا ہے اور کہاں کہاں پیسہ رکھا گیا ہے‘ ان کی قسمیں ہمارے صحافی دوست دے رہے ہوتے ہیں ۔ کیا انقلابات ہیں زمانے کے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے