زندگی کا لینز

پچھلے دنوں الف کو ایک عجیب و غریب تجربہ ہوا۔ ایک رات کتاب پڑھتے ہوئے اسے یوں محسوس ہوا جیسے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہوں، اس نے لیمپ کی روشنی درست کی اور دوبار ہ پڑھنا شروع کیا مگر کچھ دیر بعد الفاظ پھر دھندلا گئے ، الف نے آنکھیں پھاڑ کر پڑھنے کی کوشش کی مگر بے سود، الف کو اندازہ ہو گیا کہ اُس کی نظر کمزور ہو چکی ہے۔اگلے روز الف نے ڈاکٹر سے وقت لیا اور اپنی نظر ٹیسٹ کروانے پہنچ گیا، ڈاکٹر نے اسے ایک موٹی سی عینک کا فریم لگا یا اور اُ س میں مختلف لینز ڈال کر چارٹ پر لکھی عبارت پڑھنے کو کہا، جب بھی ڈاکٹر لینز تبدیل کرتا چارٹ والی عبارت الف کے لیے واضح ہو جاتی یا مزید دھندلا جا تی ، تین چار لینز تبدیل کرنے کے بعد بالآخر الف نے ایک لینز منتخب کر لیاجسے لگانے سے عبارت بالکل واضح ہو گئی ۔کلینک سے باہر نکلتے ہوئے ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح الف کے دماغ میں لپکا۔

الف کا اپنے بارے میں خیال تھا کہ وہ ایک شریف آدمی ہے جسے اچھے برے کی تمیز ہے، وہ حقائق کو پرکھنا جانتا ہے ،اسے سچ اور باطل کا فرق بھی معلوم ہے او ر وہ اپنے تھوڑے بہت علم اور تجربے کی روشنی میں یہ بھی بتا سکتا ہے کہ کون نظریاتی اعتبا ر سے درست ہے اور کون غلط۔مگراس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جس لینز سے وہ اچھے برے کی تمیز کرتا ہے یا حق و باطل کا فرق معلوم کرتا ہے وہ لینز ٹھیک بھی ہے کہ نہیں ، یہ بھی تو ممکن ہے کہ جو لینز اُس نے لگا رکھا ہو دنیا میں اُس سے بہتر لینز موجود ہو ںجن سے حقائق کو بہتر انداز میں پرکھا جا سکے ، جن سے نظریات کی دھندلی تصویر واضح ہو جاتی ہواور زندگی کے چارٹ پر لکھی عبارت صاف پڑھی جائے ۔الف نے جوں جوں اس بارے میں غور کر نا شروع کیا تو ں توں اسے احساس ہوا کہ زندگی میں اُس نے کئی مرتبہ لینز بدلا اور ہر مرتبہ اسے ایک نیا تجربہ ہوا۔

الف کویاد آیا کہ جس اسکول میں وہ پڑھتا تھا اُس کے بارے میں اُس کا خیال تھا کہ یہ شہر کا بہترین اسکول ہے ، شہر کے جدید اور مہنگے اسکولوں کو وہ ہیچ سمجھتا تھا، اسی طرح جب اُس کا داخلہ گورنمنٹ کالج میں ہوا تو اسے لگا کہ اِس سے بہتر کالج شاید پورے ایشیا میں کوئی نہیں کیونکہ جو لینز اُس نے لگا رکھا تھا وہ لینز اتنی محدودطاقت کا تھا کہ وہ الف کو دکھا ہی نہیں سکا کہ ایشیا میں بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں ، جاپان ، سنگا پور اور چین بھی شامل ہیں۔الف جب اپنے محبوب شہر کی مرکزی شاہراہ سے گذرتا تو خواہ مخواہ گردن اونچی کرکے دس بارہ منزلہ عمارتوں کو یوں دیکھتا جیسے یہ ’’اسکائی اسکریپرز ‘‘دنیا میں کہیں او ر نہیں ، اِس شہر کو جب وہ اپنی محبت کا لینز لگا کر دیکھتا تو اسے لگتا جیسے یہ دنیا کا وہ تاریخی شہر جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ، الف کا لینز اسے روم، فلورینس، لندن، پیٹرا یا بغداد دکھانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔

آج ایک ایک کرکے الف کو وہ تمام باتیں یاد آرہی تھیں جن کے بارے کبھی اسے یقین تھا کہ وہ آفاقی سچائیاں ہیں ۔وہ ایک سنی العقیدہ مسلمان خاندان میں پیدا ہوا تھا، اس کاگھراناایک روایتی مشرقی مذہبی گھرانا تھا ، وہ لوگ تنگ نظر تو نہیں تھے مگر قدامت پسند ضرور تھے۔

اِن حالات میں الف نے زندگی کو جس لینز سے دیکھنا شروع کیا وہ ایک راسخ العقیدہ سنّی مرد مسلمان کا لینز تھا، اِس لینز کے پار اُسے مخالف عقیدے کے لوگ دھندلے نظر آتے تھے، اقلیتوں کا مطمح نظر اسے سرے سے دکھائی ہی نہ دیتا تھاجبکہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کے بارے میں اُس کا خیال تھا کہ یہ لوگ مادر پدر آزادی چاہتے ہیں ، اِس مادر پدر آزاد ی کا مطلب البتہ الف کو خود بھی معلوم نہیں تھا۔الف کی آنکھوں پر لگے نظریاتی لینز نے اسے زندگی کے چارٹ پر یہ عبارت پڑھائی تھی کہ عورت کو اگر بآ امر مجبوری ملازمت کرنی پڑ جائے تو سوائے استانی یا ڈاکٹر بننے کے کوئی دوسرا شعبہ ٹھیک نہیں ۔الف کی آنکھوں پر کچھ دوسرے لینز بھی چڑھے ہوئے تھے جن کے پار دیکھنے کے بعداسے لگتا تھا کہ جس سیاسی نظریے کی وہ حمایت کرتا ہے اُس نظریے کے مخالف نقطہ نظر کے لوگ اگر ملک دشمن نہیں تو کم از کم احمق ضرور ہیں ، اِن لوگوں کے بارے میں الف کو یقین تھا کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں اور یہ لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں ۔

ایسا نہیں تھا کہ الف کو کبھی کسی نے دلیل سے قائل کرنے کی کوشش نہ کی ہو یا الف کو کسی نے یہ بات ہی نہ سمجھائی ہو کہ دنیا میں کوئی دوسرا نقطہ نظر بھی درست ہو سکتا ہے ۔ الف کو چند لوگ ایسے ضرور ملے جنہوں نے دلیل سے اسے قائل کرنے کی کوشش کی ، اعداد و شمار سے سمجھایااور تجرباتی ثبوتوں کی مدد سے بتایا کہ فلاں معاملے پر اُس کا موقف ٹھوس نہیں ،دنیا میں اس بارے مختلف رائے پائی جاتی ہے مگر الف کو یہ باتیں نہ بھائیں اور وہ اپنے خیالات پر قائم رہا، البتہ اتنا فرق ضرور پڑا کہ تنہائی میں الف نے اِن معاملات پر سوچ بچار شروع کر دی ۔

دراصل الف کا اتنا قصور نہیں تھا۔کبھی کسی نے گھر، اسکول یا کالج میں اسے یہ بات سکھائی ہی نہیں تھی کہ بنیادی طور پر ہم انسان کتنے لا علم ہیں اور ہمارا علم کس قدر محدود ہے ، الف کو شروع سے جو بھی سکھایا گیا اُس میں ایک قطعیت تھی، حتمی دلیل تھی، اس ماحول میں اسے اپنے جیسے لوگ ملے جن کے نظریات الف سے مطابقت رکھتے تھے ، سو ہمہ وقت ایک دوسرے کے خیالات کی تصدیق ہوتی چلی گئی اور الف کے نظریات کو کسی نے سنجیدگی سے چیلنج ہی نہیں کیا۔ جب کبھی کسی نے اعداد و شمار یا حقائق کی مدد سے تصویر کا دوسرا رُخ دکھانے کی کوشش کی تو الف کو یہ بات پسند نہیں آئی ،الف کو جب کوئی کہتا کہ تمہارا موقف غلط ہے تو اسے اچھا نہ لگتا، کسی بھی انسان کی طرح الف کی انا کو بھی ٹھیس پہنچتی۔

آج جب الف پر یہ آشکار ہو چکا ہے کہ زندگی کو دیکھنے کے لیے مختلف لینز کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی ایک لینز سچی تصویر کشی نہیں کر سکتا تو الف کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی ہے کہ وہ اُن لوگو ں کو بھی اپنا لینز تبدیل کرنے کا مشورہ دے جن کے ہاتھ میں طاقت ہے ، جو لوگو ں کی تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں اور جنہیں خدا نے اس دنیا میں اختیار دے رکھا ہے۔ الف کی نظر میں طاقت اندھی ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ دنیا کو سچائی کے لینز سے نہیں صرف طاقت کے لینز سے دیکھتا ہے ، ایسے طاقتور شخص کے ارد گرد لوگ اسے کبھی سچائی کی تلاش میں مدد نہیں کرتے جو دور کہیں بکھری پڑی ہوتی ہے بلکہ لوگ اسے وہ مشورہ دیتے ہیں جو وہ سننا چاہتا ہے اور جوخود ایسے لوگوں کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔

الف کا زندگی میں غلط یا صحیح جو بھی نقطہ نظر رہا اُس کا تعلق صرف الف کی ذات سے تھا ، مگر با اختیار لوگو ں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے ،یہ لوگ معاشرے خرابی یا بہتری کے براہ راست ذمہ دار ہوتے ہیں ، ان کی زندگی کا لینز بالکل درست نمبر کا ہونا چاہیے ،آج کی تاریخ میں تمام صاحب اختیار لوگوں کو اپنا لینز تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں وہ دنیا بھی دکھائے دے جو ان کی نظروں سے اوجھل ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے