انی کنت من الظّالمین سے عشائے ربانی تک

منیر نیازی نے کہا تھا، رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا، جاگنا/فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت۔ منیر نے اس اشارے سے روشنی پانے والوں کے لئے فکر کی شرط رکھی۔ ہم ایسے درماندہ تو تفکر کی استطاعت نہیں رکھتے، ہمیں تو فکر مندی کی صلیب بخشی گئی۔ درد کی سولی پر کھینچا گیا۔ اس نیند میں سونے والوں کا ملال بخشا گیا جو اب بیدار نہیں ہوں گے۔

گلی میں اس کی گیا، سو گیا، نہ پھر لوٹا

میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا

انور سجاد چلے گئے۔ پچاس کی دہائی میں نمودار ہونے والے ڈاکٹر انور سجاد کو ہماری نسل نے تب پہچانا جب وہ ضیا آمریت کے ابتدائی برسوں میں کوٹ لکھپت جیل جا پہنچے تھے۔ کوٹ لکھپت کا قید خانہ ہماری تاریخ کے زر و جواہر کا امین ہے۔ ہم تو تب نہیں ہوں گے لیکن یقین ہے کہ ایک روز لاہور کے جنوب مشرق میں واقع کوٹ لکھپت کے بندی خانے کو قومی آثار میں شمار کیا جائے گا۔ اگر ممکن ہو تو اس کے دروازے پر لکھوا دیجئے گا، دل جلے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے یار/خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا۔ چونا منڈی سے آنے والا انور سجاد بے پناہ شخص تھا۔ دھان پان سے قالب میں بجلیاں بھری تھیں۔

افسانہ، ناول، ڈرامہ، مصوری، رقص، اداکاری اور سیاست…اپنے عہد کے شعور اور اجتماعی ذمہ داری کا کونسا پہلو تھا جس پر طبیب درد مند نے ہاتھ نہیں رکھا۔ ’خوشیوں کا باغ‘ مختصر سا ناول ہے، شاید دو سو صفحات سے کم ہی ہوگا۔ مغربی مصوری کے ایک زندہ حوالے کو انور سجاد نے جس ہنرمندی سے پاکستان کے عصری حالات کا استعارہ بنا ڈالا، وہ کچھ انور سجاد ہی کا حصہ تھا۔ بوش کے جہنم کی جو تفصیل انور سجاد نے سلگتے ہوئے لفظوں میں نثر کی، اس کے بعد کیا تعجب کہ اردو تنقید میں ’خوشیوں کا باغ‘ اکرام اللہ کے ’گرگ شب‘ اور انورسن رائے کے ناول ’چیخ‘ ہی کی طرح اوجھل کر دیا گیا۔ انور سجاد نے بھرپور زندگی گزاری، اپنے چراغ کی لو کو کم ہوتے، لڑکھڑاتے اور پھر بجھتے ہوئے دیکھا۔ انور سجاد کا شخصی اور تخلیقی سفر ہمارے تاریخ کے زلزلہ پیما پر ڈوبتے ابھرتے ارتعاش کا عکس ہے۔

ابھی انور سجاد کی موت سے ہونے والے خسارے کا تخمینہ باقی تھا کہ عبدالرشید بھی رخصت ہو گئے۔ 1973ء میں ’انی کنت من الظالمین‘ کی اشاعت عبدالرشید کی آمد کا اعلان تھی۔ پھر انہوں نے ’اپنے لئے اور دوستوں کے لئے نظمیں‘ لکھیں۔ پھٹے ہوئے بادبان کی رفوگری کی۔ ’نیند، موت اور بارش‘ کو نظم کرتے رہے۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کا المیہ اردو شعر میں بیان کرنے کا ذمہ اٹھایا۔ محبوب خزاں اور عبدالرشید کی افتاد میں یک گونہ مماثلت پائی جاتی تھی۔ دونوں نوکر شاہی کا حصہ تھے لیکن دونوں کے لئے عقب نشینی کا فیصلہ اپنے تخلیقی شعلے کو حصار کرنے کا حیلہ تھا۔ ہمارے ملک میں تو اعلیٰ سرکاری ملازمت شعر و ادب کی شاہراہوں پر جلوس شاہی کا پروانہ راہداری سمجھی جاتی ہے۔ عبدالرشید اس خاموشی سے جیے اور یوں چپکے سے عازم سفر ہوئے کہ اپنے پیچھے اچھی نظموں کے سوا کوئی نشان نہیں چھوڑا۔ اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا…

چراغوں کے بجھنے کا ذکر ہے تو مجھے اس دوست کے لئے حرفِ خیر کی اجازت دی جائے جس نے پچاس برس تک انگریزی زبان میں پاکستان کے رہنے والوں کا دکھ بیان کیا۔ حکمرانوں کی چیرہ دستیاں بلا کم و کاست شائع کیں۔ اقتدار کی بالانشینی اور محروم لوگوں کی خاک نشینی کو دستاویز کیا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ انگریزی ماہنامہ ہیرلڈ کی اشاعت موقوف ہونے کا ذکر ہے۔ کراچی کے موقر صحافتی ادارے سے 1970ء کے برس میں نئے زمانوں کا نقیب بن کر نمودار ہونے والے ہیرلڈ کا آخری شمارہ اس مہینے شرمندۂ اشاعت ہوا ہے۔ صحافت میں حرف مطبوعہ کا زوال کچھ ہمارے ملک سے خاص نہیں۔

دنیا بھر میں وہ اخبارات اور جرائد بند ہو رہے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کا خبری منظر نامہ تشکیل دیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ وہاں صحافت ٹیکنالوجی کے نئے ذرائع دریافت کر رہی ہے اور ہم نے خبر پر قفل ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ماہنامہ ہیرلڈ کے بند ہونے کی خبر آئی تو مظہر علی خان اور ان کے ہفت روزہ ’ویو پوائنٹ‘ کا اختتام یاد آیا۔ ویو پوائنٹ نے نوے کی دہائی کے شروع میں آنکھیں بند کیں تو قوم ضیاءالحق کی موت کے بعد دور فاصلاتی آمریت کا تجربہ کر رہی تھی۔ مظہر علی خان فرماتے تھے کہ ’پیسہ کمانے کے لئے بہت سے کاروبار موجود ہیں، صحافت میں نفع نقصان کے پیمانے مختلف ہیں‘۔ صحافت میں سود و زیاں کے اعداد و شمار قوم کے عروج و زوال کے بہی کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔

ہم نے ایک نثر نگار، ایک شاعر اور ایک جریدے سے فرقت کا حال بیان لکھا۔ مارسل پراوست نے لکھا تھا کہ چہروں کی طرح گلی کوچے اور مکان بھی گزرتے چلے جاتے ہیں۔ اس پر شیکسپیئر نے کنگ لیئر میں حرف تشفی دیا تھا۔ لکھا کہ ’آنا جانا تو لگا رہتا ہے۔ منظر کی نمود پر نظر رکھنی چاہئے‘۔ ہمارے ملک میں منظر کے زوال ہی کا المیہ ٹھہر گیا ہے۔ چار دہائی پہلے بھی ہم ایک منقسم گروہ تھے لیکن خط تنصیف کے دونوں طرف قد آور لوگ تھے اور اختلافی بیانیوں میں اخلاقی توانائی موجود تھی۔ آج کا دکھ یہ ہے کہ ہم سب بالشتیے ہو گئے ہیں اور ہمارے مقدمے کی اخلاقی قامت گھٹ گئی ہے۔ خدا کے ایک پیغمبر نے مچھلی کے پیٹ سے تنہائی کے اندھیرے میں اعتراف کیا تھا ’انی کنت من الظالمین‘ (بے شک میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا)۔ اس میں کیا شک کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی عطا کی ہوئی سرزمیں پر ظلم کا بازار گرم کیا۔

ہم نے یہاں بسنے والوں کو تحفظ، آسودگی اور احترام سے محروم کیا۔ یسوع مسیح کے عشائے ربانی میں بارہ لوگ شامل تھے اور چاندی کے تیس سکوں کے بدلے مسیح سے غداری کرنے والا ان میں سے صرف ایک تھا۔ آج ہم پاکستان میں کسی فرد یا گروہ پر الزام رکھے بغیر سوال کر رہے ہیں کہ قوم کے دستر خوان پر کوئی باقی بچا ہے، جسے آنے والی نسلوں کو بلند کرداری کا استعارہ بنا کر سونپا جا سکے؟ اقبال نے کس دکھ میں لکھا تھا ’قافلہ حجاز میں ایک حسین ؓبھی نہیں‘۔ اس پر ن م راشد نے گرہ لگائی، ’جو نہیں ہیں قید ِ غنیم میں، وہ پکار دیں‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے