عمران خان کے امریکی دورہ میں فوجی شمولیت

عمران خان اپنی ذات کے حوالے سے بھی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہے – کرکٹ کی دنیا سے لے کر شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی کامیابی اس کی اعلیٰ کردگی کا عملی ثبوت ہے – سیاست کی دنیا میں بھی اس نے انتھک محنت سے ایک مقام بنایا اور بالآخر ہم عصر اور ماقبل پاکستانی سیاست دانوں کی طرح پاکستان کے پاور بروکرز کی حمایت سے وزیر اعظم بننے کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا – ان کا ایم کیو ایم کی دہشت گرد سیاست کو اس وقت للکارنا جب اس کا ستارہ اوج ثریا پر تھا اور کرپشن کے خلاف مہم اور لوگوں کا شعور بیدار کرنے نے ان کو باقی سیاست دانوں سے منفرد بنایا – عمران خان کی جوانی گوروں میں گزری ہے، وہ ان کی عادتوں، طرز تکلم اور اس زبان کو جانتے ہیں جس کو وہ سمجھتے ہیں – بے ساختہ گفتگو کرتے ہیں – سوائے اقتدار کے ان کا اور کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہے ،اس لئے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے بغیر لگی لپٹی بات کر سکتے ہیں –

طرز عمل

ان سب خوبیوں کے باوجود سیاست اور حکومت میں عمران خان کا طرز عمل گورے لیڈروں جیسا نہیں بلکہ مخاصمانہ ، ہوسٹائل اور اشتعال انگیز ہے ، جس نے پاکستان میں ایک نئے کلچر کو فروغ دیا – میرا خیال تھا وزیراعظم بننے کے بعد اس میں فرق آئے گا، جیسا کہ الیکشن کا بخار اور بالخصوص زمام اختیار سنبھالنے کے بعد دنیا بھر میں ہوتا ہے- لیکن ان میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ پہلے سے زیادہ اشتعال انگیز ہے ، جس کا مظاہرہ ملک کے اندر اور ابھی امریکی دورہ کے دوران سامنے آیا ہے –

ملکی سیاست اور سیاست دانوں پر بیرون ملک تنقید اور الزامات کا کوئی تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا – اپنے گندے کپڑے اپنے ملک میں ہی دھوتے ، جیسا وہ کرتے ہیں تو بہتر تھا – یہ ان کے منصب اور ملک کی عزت کا سوال تھا – ملک کے اندر تو دنیا بھر کے اکثر سیاست دانوں کا طرز عمل ایسا ہی ہوتا ہے ، بیرون ملک کم از کم سیاسی حکمران ایسا نہیں کرتے – احتساب کا عمل درست ، لیکن یہ انتقام نظر نہیں آنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاست دان اس بے پناہ دولت کی کوئی وضاحت (Explanation )نہ دیں جو ان کے نام پر ہے-اگر ماضی میں سیاست کرنے والے فوجی حکمرانوں اور ان کی اولاد کا احتساب بھی ایسے ہی کیا جاتا جیسے فی الوقت سابق سیاسی حکمرانوں کا ہو رہا ہے ، وہ بھی اس بے پناہ دولت اور اثاثوں کی وضاحت نہیں کر سکیں گے-

ہمارے ملک کے سابق سیاسی اور فوجی حکمرانوںکی جانب سے مہذب دنیا کا وتیرہ اپنانے اور ترقی کی ضامن اصلاحات کے بجائے ، مصلحت اور مصالحت سے کام لیا جاتا رہا (جو فی الحال عمران خان کرتے نظر نہیں آرہے)- اداروں کی سمت درست اور غلط کاروں کی باز پرس اور گرفت کرنے کے بجائے معاملات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ، جس سے طوائف الملوکی کی کیفیت نے جنم لیا- سیاسی حکومتیں اپنی مدت گزارنے کا دفاع اور حزب مخالف حکومت کو گرانے پر سر گرداں رہے ، اس طرز عمل نے رشوت کو فروغ دیا اور عام لوگ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑے گئے – ادارے حدود سے تجاوز اور کچھ نے وہ خلاء پر کرنے کی کوشش کی جو حکومت نے پیدا کیا-

عمران خان کا حکومتی طرز عمل ان سے پہلے کے حکمرانوں سے مختلف ہے -عمران خان کی حکومت نے ویلفئیر کے نام پر ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے ابتداء احتساب اور ملک کی معاشی ، اقتصادی اور مالی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا، بہت اچھا عمل ہے ، لیکن لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ نا قابل برداشت ہو گیا ہے اور ان اصلاحات کے نتائج نظر نہیں آرہے جن کا دعویٰ کیا جارہا ہے –

احتساب اور اصلاحات ہر حکومت کی ذمہ داری ہے – جس چیز کی اس حکومت نے ابتداء کی وہ مہذب دنیا میں رائج ہے اور دل و جان سے اس پر عمل ہوتا ہے کیونکہ اس کے فوائد عوام تک پہنچ رہے ہیں ، اس لئے لوگ مطمئن ہیں – پاکستان میں ایسا کچھ کبھی نہیں ہوا – ٹیکس چور اور دولت کا حساب نہ دینے والا ہر قانونی، اخلاقی اور دینی معیار کے کسوٹی پر بے ایمان اور نا قابل معافی ہوتا ہے – اس کا احتساب نا گزیر ہے لیکن اس عمل کو عوامی حمایت ، شفاف اور بلا امتیاز ہونے کے بغیر اخلاقی جواز نہیں مل سکتا اور اخلاقی جواز کے بغیر اصلاحات اور قانون کا اطلاق دیرپا اور قابل قبول نہیں ہوتا –

اس ملک میں صرف بیس لاکھ کے لگ بھگ ٹیکس گزار ہیں، ان میں سے بھی نصف سے زیادہ سرکاری تنخواہ دار اور باقی اربوں کے اثاثوں کے باوجود چند ہزار ٹیکس دیتے ہیں – جبکہ ان کے اثاثے کروڑوں ، اربوں اور کچھ کے کھربوں میں ہیں – اگر لوگوں کے صرف محلات، گاڑیوں اور بچوں کی سکول کی فیس اور بیرون ملک دوروں کا ہی کا ہی حساب لیا جائے ، تو نصف سے زیادہ عوام قابل تعزیر ثابت ہوگی – اس عمل کو تدبر اور دور اندیشی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے -ہر ذی شعور شہری کو ہر طرح کی کرپشن کے خلاف شعور بیدار کرنا چاہیے-

امریکی دورہ

عمران خان کو وزیراعظم کی حیثیت سے امریکی صدر کی دعوت ملنا خوش آئند امر ہے – امریکی صدر نے عمران خان کا والہانہ استقبال کیا ، کشمیر کے مسئلہ کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کا واضع اظہار کیا جہاں مودی کی درخواست کا بھی اعادہ کرکے ہندوستان کے اس مسئلے کے حل کے لئے پریشانی واضح ہو گئی ، (گوکہ ان کے فارن آفس نے اس کی تردید کی )

افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے کردار کی غیر مبہم الفاظ میں تعریف اور اعتراف کرکے پاکستان سے اس کی تکمیل کے لئےعملآ ترلے کئے – امریکی امداد بحال کرنے کا بھی عندیہ دیا-عمران خان نے چین کے ساتھ تعلقات کی تقویت کا برملا اظہار کیا اور ایران کے ساتھ تعلقات سنوارنے کی بھی پیشکش کی-

امریکہ بھی اپنے مفاد کی خاطر ہی سب کچھ کرتا ہے- صدر اوباما نے بھی کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے پر زور الفاظ میں اعاداہ کیا تھا لیکن پھر کبھی نام تک نہیں لیا- ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز مغلظات تک کہے ، لیکن اب ترلے کر رہا ہے – اس ٹیمپو کو بحال رکھنے کی ضرورت ہے ، جس کے لئے ملک کے اندر سیاسی استحکام ، اقتصادی ترقی اور سفارت کاری کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے- ہمسائیوں کے ساتھ تنازعات کا زمینی حقائق کی روشنی میں حل ملکی سلامتی ، ترقی اور خوشحالی کے لئے نا گزیر ہے –

کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی امریکی پیشکش کو کیش کرنے کی ضرورت ہے – ہندوستانی آئین بھی بین الاقوامی معاملات کے حل کے لئے ثالثی کی گارںٹی ہے – پاکستان کو کشمیریوں کو اعتماد میں لے کر کشمیر کے مسئلے کا زمینی حقائق کی روشنی میں حل اخذ کرنے کی ضرورت ہے اس کا کوئی آئیڈیل یا 1947 کے حالات کا حل ممکن نہیں ہے –

عمران خان کی امریکہ میں کارکردگی بہترین رہی،تاہم پاکستان کی اندرونی سیاست اور سیاست دانوں کا تذکرہ نامناسب عمل تھا -ٹرمپ کا کشمیر پر مودی کے حوالے سے ثالثی کرنے کی درخواست بہترین انکشاف تھا، جس سے بھارت کی پریشانی اور مسئلہ کی سنگینی دنیا پر واضح ہوئی-اب پاکستان کو غیر معمولی محنت اور سفارت کاری کرنا پڑے گی، کیونکہ امریکہ میں بھارتی لابی بہت مضبوط اور با اثر ہے ، اوباما نے بھی بڑے طمطراق سے اس کا وعدہ کیا تھا ، لیکن ان کی صدارت کے سارے عرصہ میں ان کی زبان پر تالا لگ گیا – اسی طرح ٹرمپ کو بھی خاموش نہ کرا دیں-

ٹرمپ یوں بھی کہہ مکرینوں کا بادشاہ ہے – لیکن اگر یہ بات چل پڑی، جس کا مجھے یقین نہیں ، توایسی صورت میں پاکستان کو غیر معمولی محنت اور سفارت کاری کرنا پڑے گی جس کو بھر پور محنت سے نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑیں – ثالثی کی صورت میں زمینی حقائق کو سمجھ کر ہوم ورک کر کے ، ثالث اور اس کی ٹیم کو بریف کرنے کے لئے مسلسل پیچھا کرنے کی ضرورت ہے –

افغانستان میں امن بحال کرنے پر پاکستان کی اہمیت اور ستائش بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے، لیکن اس کو ٹرمپ نے نرم الفاظ میں اس دھمکی سے جوڑا کہ “ یہ مسئلہ دس دن میں حل ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے دس لاکھ لوگوں کی جان جائیگی جن کو پاکستان بچا سکتا ہے -“ افغانستان امن عمل کو کشمیر کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے، کیونکہ افغانستان امریکہ کی اور کشمیر ہماری مجبوری ہے ، یہ ایک پیکیج میں رکھنے کی ضرورت ہے-امریکہ کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنا کام نکال کے آنکھیں دکھا تا ہے، اس بٹیر کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں –

دورہ میں فوجیوں کی شمولیت

کچھ لوگ اس دورہ میں ٹاپ فوجی بیوروکریسی کو ہمراہ لینے پر معترض ہیں – فوجی اور سول بیوروکریسی کے ساتھ وہاں جانا دانشمندانہ اقدام تھا — یہ سب لوگ ریاست کے کار پردازوں کی حیثیت سے وزیر اعظم کی خواہش اور حکم پر گئے ہیں اور امریکہ — پاکستان تعلقات کی نوعیت کے پیش نظر ان سب کا وہاں ہونا نا گزیر تھا کیونکہ حکومتی پالیسی کو چلانے کے اسرار و رموز یہی لوگ جانتے ہیں جو حکو متی تسلسل کی کڑیاں ہیں – بالخصوص فوجی سربراہوں کا ساتھ ہونا ، سول اور سیاسی بیوروکریسی سے زیادہ اہم ہے –

ہر ریاست کا ہر عمل قومی سلامتی سے جڑا ہوتا ہے اور قومی سلامتی کے اسرار ورموز سلامتی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی بہتر جانتے ہیں ، بالخصوص پاکستان کے سیاسی اور جغرافیائی پس منظر ، خطہ میں افغانستان کے حالات اور ہندوستان پاکستان کے کشمیر کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے فوج کا کردار کسی مرحلہ پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا- دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی بین الاقوامی عمل یا ملک کے اندر کسی بھی بڑے پالیسی شفٹ کے لئے جب تک فوج کی حمایت نہ ہو اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں، کیونکہ پاکستان کی ملکی اور بین الاقوامی تاریخ ہی ایسی ہے-

یہی کچھ دنیا میں بھی ہوتا ہے فرق اتنا ہے کہ باقی دنیا میں کھلے بندوں نہیں ہوتا جبکہ پاکستان میں بالواسطہ اور بلا واسطہ نظر آتا ہے- پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک ان کی توثیق کے بغیر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں آگے نہیں بڑھتا -یہ اچھا ہے یا برا لیکن حقیقت یہی ہے –

یہ کسی طور جمہوریت کے بھی خلاف نہیں- جمہوریت کا دنیا میں عملی نفاذ ایک جیسا نہیں- کئی ملکوں میں پارلیمنٹ کے باوجود اختیارات صدر کے پاس ہیں ، جبکہ کئی دوسرے ملکوں میں پارلیمنٹ کے باوجود بادشاہت بھی قائم ہے، جن میں سر فہرست جمہوریت کی ماں باپ برطانیہ ہے – جمہوریت سوچ سمجھ کر اتفاق رائے یا کثرت رائے سے نظم و نسق چلانے کا نام ہے اور اس کے لیے اس شعبے کے ماہر ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں –

واشنگٹن میں پاکستانیوں کا جوش و خروش

واشنگٹن میں پاکستانیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا – اپنے لیڈر اور پاکستانی وزیر اعظم کا استقبال بہت خوش آئند ہے – میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کو اس بات کا ادراک نہیں کہ اس دور میں پاکستان کے لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں ، ورنہ وہ لوگ عمران خان کے سیاسی حریفوں پر تیر داغ کے عمران خان کو مشتعل کرنے کے ساتھ یہ سوال بھی ضرور اٹھاتے – البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ نہ صرف عمران خان بلکہ ہر پاکستانی لیڈر استقبال کے لئے آنے والوں کو وہاں رہ کر ملکی سیاست کے بجائے ان ملکوں کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی تلقین کریں ، اپنی نسلوں کو پڑھا کر ان ملکوں کے پالیسی اور فیصلہ ساز اداروں میں داخل ہونے کی طرف راغب کریں ، ، جیسا ہندوستان کر رہا ہے –

ان کے جذبات کو دیکھ کر عمران خان نے امریکہ میں وہ زبان استعمال نہ کی ہوتی جو کی ہے ، بلکہ اس چارجڈ انبوہ کی سمت تعمیر و ترقی، تعلیم و تربیت، سائنس و ٹیکنالوجی ، مثبت سیاست اور سفارت کی طرف مبذول کی ہوتی تو پاکستان آئندہ چند برسوں میں دنیا بھر میں ان لوگوں کے زریعہ اپنی سفارتی اور اقتصادی برتری کی اعلیٰ ترین منزل پہ پہنچ جاتا – اب بھی ہو سکتا ہے،لیکن جذبات سے پاک اور تدبر سے بھر پور کردار سے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے