ترکی میں گزرے چند ایام کی حسین یادیں (قسط اوّل)

دنیا کو دیکھنا ، مخلوق خدا سے ملنا ، اس سے سیکھنا اور لوگوں تک پہنچانا میرا جنون رہا ہے ، مجھے اپنے ذاتی خرچ پر،( تحریک آزادئ کشمیر کے نام پر نہیں) ایشیا یورپ، امریکہ ، مڈل ایسٹ ، سارک، جنوب مغربی ایشیا کے کئی ملکوں کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کی اکثر علاقے دیکھنے کا موقعہ ملا – اللہ کی ذات کا شکر ہے، اتنا کچھ پڑھنے سے نہیں سیکھ سکتا تھا جتنا دنیا کی سیر کرنے سے سیکھا – یہ بھی اللہ کا شکر ہے میں نے تقریبآ ہر سال کسی ملک یا اپنے ملک کے کسی علاقے کی سیر کی ، جس کی تفصیل کا حال بھی نظر احباب کیا ہے تاکہ وہ بھی میرے ہم راہ رہیں- اکثر میرے بچے بچیاں بھی ساتھ ہی رہے ، اس لئے گھر جیسا ماحول اور خدمت گزار بھی ساتھ ہی رہے- عمومآ لوگ گھر کے ماحول سے بچنے کے لئے گھر سے باہر جاتے ہیں تاکہ کچھ دن سکون سے گزار دیں لیکن میری کیفیت اس کے برعکس ہے –

اس سال میرا خیال روس ، چین ، ملائشیا یا انڈونیشیا جانے کا تھا لیکن بچیوں اور نواسوں ، نواسیوں کے کہنے پر ترکی جانے پر اتفاق ہوا گوکہ میں اس ملک کو ایک بار دیکھ چکا تھا – اس ملک کی تاریخ اور بچوں نے ترکی ڈرامے دیکھ کر جنون سر چڑھا لیا تھا کہ ترکی دیکھنا ہے – میں بچے بچیوں بالخصوص ان کے بچوں کی بات ٹال نہیں سکتا- میری چھوٹی بیٹی نویدہ جگہوں ،چیزوں اور دنیا کو انٹرنیٹ پر ایکسپلور کرنے اور معلومات حاصل کرنے میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں، اس نے ترکی جانے کے لیے دیکھنے کی جگہیں ، رہائش کی بکنگ اور سفر کے روٹ، ٹکٹوں وغیرہ کا بندوبست کیا- ہوائی سروس اور ترکی میں مختلف جگہوں پر رہائش کی بکنگ ایسے وقت میں کرائی جب یہ بہت سستی تھیں لیکن جب ہم نے سفر شروع کیا توقیمت دگنی ہوگئی تھی کیونکہ دنیا بھر میں چھٹیوں کی وجہ سے یہ سیر و سیاحت کا موسم ہوتا ہے ، جب سپلائی اور ڈیمانڈ کے اصولوں کے مطابق قیمتیں بڑھ جاتی ہیں-

ہم لوگ یعنی بیٹیاں فہمیدہ اور نویدہ ، ان کے بچے مہد ، اریشہ اور ابیہہ 15 جون 2019 کی شام اسلام آباد گئے، جہاں 16 جون کو پہلے سے میری ایک میٹنگ طے تھی ،وہ ہوئی اور 17 تاریخ صبح گیارہ بجے سعودی ائیر لائین سے ہم براستہ ریاض استنبول کے لیے روانہ ہوئے – ہم لوگ بین الاقوامی ہوا بازی کے قانون کے مطابق تین گھنٹے قبل راولپنڈی سے ایک گھنٹے کے مسافت پر نئے ائیر پورٹ پہنچے، جہاں دوستوں کی کرٹسی کی وجہ سے ائیر پورٹ کے پروٹوکول کے افراد نے بہت ہی جلدی ساری فارمیلٹیز مکمل ہونے کے بعد ہمیں لاونج میں بٹھایا –

پرانے ائیر پورٹ کے برعکس نئے ائیر پورٹ میں وی آئی پی لاونج دو حصول میں تقسیم کرکے اس میں کھانے پینے کی سہولتیں میریٹ ہوٹل اور ماسٹر مینیجمنٹ کے سپرد کردی گئی ہیں – بزنس ، فرسٹ کلاس اور کچھ بینکوں کے پلاٹینم کارڈ ہولڈرز کے لیے کھانے پینے کی سہولت تو مفت ہے البتہ ان لاؤنجز کو استعمال کرنے کا استحقاق رکھنے والوں کو کھانے پینے کی چیزوں کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے ، جو بین الاقوامی نرخ کے مطابق پندر ڈالر فی کس بوفے سسٹم میں ہے- ہم لوگوں نے کھانا تو نہیں کھانا تھا، کافی ، چائے ، پانی اور سنیکس وغیرہ کی ادائیگی کرنا چاہی تو ان لوگوں نے لینے سے انکار کردیا کہ آپ کی ادائیگی ہوگئی ہے –

میں ان دوستوں کا ممنون جنہوں نے مجھ سے کسی نفع و نقصان کی لالچ سے بالا تر ہوکر ہماراخیال رکھا ، وگرنہ طوطا چشموں سے دنیا بھری پڑی ہے – دنیا میں جتنے کام تعلقات اور راہ رسم سے ہوتے ہیں اتنے ہزاروں ہی نہیں لاکھوں روپے کی ادائیگی سے اور وہ بھی اتنی سرعت سے نہیں ہوتے – اسلام آباد ائیر پورٹ پر پی آئی اے ملتان میں ایک عزیز مبارک شاہ نے ایک نوجوان ، سمارٹ آفیسر شاہسوار کے ذریعہ بڑی آسانی پیدا کی-بدقسمتی سے جدہ سے آنے والی فلائیٹ لیٹ ہوگئی جو پونے گیارہ کی بجائے تین بجے شام ریاض کے لئے روانہ ہوئی- تاہم اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ریاض سے استنبول جانے کے لئے چار گھنٹے کے انتظار کی کوفت سے ہم بچ گئے ، یہ وقت اسلام آباد لاؤنج میں میریٹ والوں کی میزبانی سے خوشگوار اور ریاض کے خشک و گرد آلود ائیر پورٹ میں بے یار و مدد گار بیٹھے بغیر گزر گیا –

ریاض کے وقت کے مطابق ہم لوگ وہاں شام پانچ بجے پہنچے ، جو پاکستان میں سات بجے تھے – اللہ کی مہربانی سے ایک منٹ کے انتظار کی کوفت کے بغیر ہم لوگ استنبول جانے والی فلائیٹ میں سوار ہوگئے جو اسلام آباد سے آنے والے مسافروں کے انتظار میں تھی – اسلام آباد سے ریاض تک ہمیں دروازے کے پاس وسیع جگہ پر سیٹیں ملیں لیکن وہاں سے استنبول یہ سہولت میسر نہ ہو سکی تاہم ساڑھے تین گھنٹے کا سفر بہت خوشگوار گزرا-

سعودی ائیر لائین پر سعودی کریو کا عملہ سعودی پولیس کی طرح لیکن فلپائینی لوٹس مارکہ پھول جیسے خندہ جبیں تھے – استنبول ائیر پورٹ پر سرینگر سے آئی ہوئی میری بھانجی ڈاکٹر صائمہ ہمارے انتظار میں تھی جو وہاں ویٹنری سائنس کے کسی شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے – استنبول میں ہماری رہائش کی بکنگ پہلے ہی تقسم چوک کے قریب ایک فلیٹ میں کرائی گئی تھی جس کا فی یوم کرایہ 366 لیرا تھا جو پاکستانی9801 روپے کے برابر ہے – تین بیڈ روم، ڈرائنگ روم، کچن اور ایک باتھ روم کا بڑا واجبی کرایہ تھا، تاہم انٹرنیٹ پر اس میں جو سہولتیں دکھائی گئی تھیں وہ قابل کار حالت میں نہیں تھیں-

صائمہ نے ہمیں باسمتی چاول اور مصالحہ ساتھ لانے کا کہا تھا – رات کا کھانا، ناشتہ وغیرہ ہم لوگ خود پکا لیتے تھے، البتہ دن کا باہر ہی ترکی کھانا کھاتے تھے، جو ہمارے ملک کے مکمل پرہیزی، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے انتہائی مناسب ہوتا ہے ، البتہ اچار، جو بین الاقوامی چٹنی سمجھی جاتی ہے اور سرکہ میں بھگوئی میٹھی ہری مرچیں اس کمی کو پورا کرتی تھیں-

(جاری ہے . . . )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے