ترکی میں گزرے ایام کی حسیں یادیں(تیسری قسط )

21 جون کی صبح ہماری استنبول سے قونیہ کے لئے صبح سات بج کر 45 منٹ پر فلائیٹ تھی ، اس لیے بہت سویرے تیار ہوکر چھے بجے ائیر پورٹ پہنچ گئے- یہاں سے ریل اور بس کا آپشن بھی تھا ، جو سستا تو ضرور تھا لیکن بالترتییب پانچ اور نو گھنٹے کا سفر تھا – ہوائی جہاز کا ٹکٹ فی کس 209 لیرا تھا – فی لیرا پاکستانی 27 روپے کے برابر ہے- چیک ان کرنے والے نے بتایا کہ بکنگ کرنے والوں نے زائد ٹکٹ فروخت کئے ہیں اور ان کے پاس صرف پانچ نشستیں ہیں جبکہ ہم سات لوگ تھے- ہمیں کوفت اور ائیر لائین والوں کو شرمندگی ہوئی- لے دے کے چھ سیٹیں کنفرم ہوئیں اور اگلی فلائیٹ شام آٹھ بجے ہونی ہے –

چوائس یہ تھی کہ یا تو سب اگلی فلائیٹ میں جائیں یا کسی ایک کو یہاں چھوڑ کے باقی لوگ چلے جائیں-اب سوال پیدا ہوا کہ اگر چھ لوگ جائیں تو وہ کون ہوں؟ کسے چھوڑیں؟ قرعہ اندازی کے بجائے ہم نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ صائمہ چونکہ ترُکی بولتی، سمجھتی اور اس کے جغرافیہ سے واقف ہے ، اسی کو یہاں چھوڑا جائے – ائیر لائین والوں نے اس کے لئے ہوٹل، گاڑی اور کھانے پینے کا بندوبست کیا اور ہم پاکستانی مسافر صبح کی فلائیٹ سے ہی کونیہ روانہ ہوئے- ایک گھنٹے کی فلائٹ تھی –

ہم لوگ قونیہ 9 بجے پہنچ گئے- ہماری رہائش کے لئے سفاء رائیل ہوٹل پہلے سے بک تھا جو حضرت مولانا جلال الدین رومی اور شاہ شمس تبریزی کے مزارات کے بالکل قریب تھا – اس کا دو یوم کا کرایہ ایک 118 یورو تھا – اس ملک میں لیرا کے بعد سب سے زیادہ کاروبار یورو میں ہوتا ہے – ہم لوگ 35 لیرا کرایہ دیکر ٹیکسی کے ذریعہ ہوٹل پہنچے لیکن چیک ان ٹائم 12 بجے دن تھا جبکہ ابھی بمشکل ساڑھے نو بجے تھے-

ہماری پارٹی لیڈر بیٹی نویدہ گیلانی تھی ، جس نے سوائے میرے سب کے ویزے سمیت سفر کے سارے لوازمات بھی مکمل کئے تھے ، نے اپنی لیڈر شپ کوالٹی کو بروئے کار لاتے ہوئے کمرے بھی لے لئے اور ناشتے کا بندوبست بھی کرالیا- سامان وغیرہ کمرے میں رکھ اور نہا دھو کے مزار مولانا جلال الدین روم کی طرف چل پڑے جو ہماری قیام گاہ سے 22/20 منٹ کی پیدل رفتار پر واقعہ تھا – مولانا کو ترکی زبان میں “ میولانا “ پڑھتے اور لکھتے ہی-

مزار سےملحق جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی پھر مزار کی زیارت کا شرف حاصل کیا- مزار حکومت کی تحویل میں ہے، صاف ، ستھرا ، سلیقے اور قرینے سے رکھا گیا ہے- زائرین کی آمد ورفت کے داخلہ اور خارجہ کے راستے الگ الگ ہیں- مولانا کے مزار کے ساتھ ان کےعزیز واقارب، ہمنشینوں، طالب علموں اور انتہائی قریبی لوگوں کی قبریں ہیں- کچھ قبروں کے کتبوں کے اوپر پگڑی رکھی گئی ہے اور کچھ پر نہیں ، لگتا ہے یہ مرد زن کی تقسیم ہے – مولانا کا کلام البموں کی صورت میں آویزاں ہے- اس کی علاوہ ان کی تصانیف ، قرآن پاک کے نادر قلمی نسخے،تبرکات او رسول اللہ صلعم کا موئے مبارک بھی دیدار کے لئے ڈبے میں محفوظ ہے۔ ڈبے سے اس کی خوشبو بھی آتی ہے، نہ معلوم یہ موئے مبارک کی اپنی خوشبو ہے جیسا کہا جاتا ہے یا اس میں ڈالی جاتی ہے-

مزار کی بلڈنگ سے ملحق بھی ان کے مریدین کا قبرستان ہے جہاں مرید ہندی کے طور علامہ اقبال کی علامتی قبر اور کتبہ بھی ہے- ان کے مزار سے ملحق میوزیم بھی ہے جس میں مولانا اور عثمانی بادشاہوں کے نوادرات محفوظ ہیں – ایک علامتی نشست گاہ بھی ہے جہاں مولانا اور ان کے مصاحبین کی فرضی شبیہہ ، لنگر خانہ، جس میں استعمال کے برتن ، ٹیبل اور گاؤ تکیے سجے ہوئے ہیں ، ایسا گمان ہوتا ہے کہ مولانا مجلس نشیں ہیںاور مصاحبین ان سے محو گفتگو ہیں.

مولانا اپنے والد کے ساتھ خراساں سے ہجرت کرکے یہیں آباد ہوگئے، جہاں ان کے پیر و مرشد شمس الدین تبریز بھی رہتے تھے – ان کی ملا قات کی جگہ پر ایک یادگار بھی بنائی گئی ہے -ان کے مزار کے تھوڑے فاصلے پر ان کے پیر ومرشد شمس الدین تبریز کا مزار مقدس ہے لیکن مرمت کی وجہ سے بند ہونے کے باعث ہم اس کی زیارت سے محروم رہے – البتہ وہ جگہ دیکھی جہاں مولانا کی ان کے ساتھ پہلی بار ملا قات ہوئی تھی، اس جگہ کو یاد گار کے طور محفوظ رکھا گیا ہے اور ساتھ کتبے پر ترکی اور انگریزی میں اس ملاقات کو دو سمندروں کی ملاقات( مجمع البحرین) کے طور تحریر کیا گیا ہے –

مولانا نے شمس تبریز کے بارے میں خود لکھا ہے:

شمس تبریزی کہ نور مطلق است —آفتاب ست و انوار حق است

( شمس تبریزی جو مکمل نور ہے ، سورج ہے اور حق کے نوروں میں سے ہے)

— مولوی ہرگز نہ شد مولا ہے روم — تا غلام شمس تبریزی نہ شد-

ملتان میں بھی شمس تبریزی کے نام سے ایک مزار ہے لیکن وہ مولانا روم کے پیر و مرشد والے شمس تبریزی کا نہیں ہیں –

زیارات کے بعد ہم لوگ ”اللہ دین ٹیپسے” نام کی پارک میں گئے ، جو شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر واقعہ قابل دید مقام ہے جہاں سے قونیہ شہر کا نظارہ ہوتا ہے- جمعہ کی نماز پڑھ کے نکلے تو مزار کے ملحق گراونڈ میں اُزبک عقیدت مندوں نے حمد و ثناء، نعت ومنقبت کا بینڈ باجے پر سماں باندھ دیا تھا جس کو سننے دیکھنے کے لیے ہم بھی کھڑے ہو گئے –

میں نے شلوار ، قمیض ، واسکٹ اور جناح کیپ پہنی تھی، اس لیے توجہ کا مرکز بنا رہا – لوگ میرے قریب آکر پوچھتے” پاکستانی” جواب ہاں میں سن کر خوش ہوتے اور گلے لگتے، تصویریں اور سلفیاں بناتے – بھلے سے نام والا ایک شخص اپنی بیوی کو ساتھ لیے ہمارے پیچھے ہی پڑ گیا کہ آپ نے میرے گھر جانا ہے ، ٹیکسی منگوائی ، ہم سب لوگوں کو اپنی بیوی کے ہمراہ بٹھا کر خود دوسری ٹیکسی میں آیا- اس کی خوشی دیدنی تھی ، جیسے کوئی بہت بڑا اور پیارا مہمان اس کے گھر آیا ہو – اللہ ہمیں ویسا بنائے جیسا یہ لوگ ہمیں سمجھتے ہیں – رات 10 بجے کے قریب صائمہ بھی قونیہ پہنچ آئی-

22 جون کو قونیہ ہی میں ایک پکنک سپاٹ “ میرم “ کی سیر کو گئے ، جو شہر سے بلندی پر پانی کی تقریبآ 20 فٹ چوڑی ایک ندی بنائی گئی ہے جس کو آٹھ/ دس فٹ گہری جھیل کا روپ دے کر اس کی تہہ کو آسمانی رنگ سے رنگا گیا ہے جس وجہ سے مصنوعی جھیل کا رنگ گہرا آسمانی نظر آتا ہے- اس میں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے چھوٹی کسشتیاں رکھی گئی ہیں جو کرایہ پر لے کر لوگ خود چلاتے ہیں-

میرام

ترکی میں ہفتہ اتوار کو چھٹی ہوتی ہے ، اس لئے سکولوں کالجوں کے بچے بچیوں کا رش لگا ہوا تھا – بچوں نے کشتیاں لے کر خوب انجوائے کیا- پارک میں ریسٹورنٹ، کیفے ٹیریا، جھیل کے آس پاس بیٹھنے کے لیے آرام دہ صوفے، کرسیاں اور بنچ رکھے گئے ہیں ، ایک طلسماتی جگہ لگتی تھی جہاں سے اٹھنے کا دل نہیں کرتا- پہاڑ کی چوٹی پر انتہائی خوب صورت مسجد ہے جو اس ملک سے اسلام سے محبت اور لگاؤ کا مظہر ہے-

مولانا روم کے مزار پر ہر ہفتے کی شام محفل سماع اور صوفیانہ رقص ، مولانا کلچرل اکیڈمی کے زیر اہتمام ہوتا ہے ، ہم لوگوں نے اپنا پروگرام اسی کے مطابق مرتب کیا تھا – مظفر آباد سے تعلق رکھنے میاں بیوی وحید احمد قریشی اور ان کی اہلیہ جو میرے محلے کے مرحوم صوفی بزرگ کیپٹن منان صاحب کی پوتی اور جاوید منان کی بیٹی ہے، دونوں ترکی کی عسکی شہیر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں ، نے مجھے فون کر کے ان کے محفل سماع میں شرکت کے بارے میں اطلاع دی – ہم لوگوں کی ملاقات آڈیٹوریم میں ہی ہوئی- انہوں نے پورے پروگرام کی وڈیو بھی بنائی جو ان کی وساطت سے میں نے اپنی فیس بک ٹائم لائین پر بھی شیئر کی ہے – اس محفل سماع میں ہمیں بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی – سوائے قرآن پاک کی تلاوت اور فارسی کے چند اشعار کے باقی سارا پرو گرام ترکی میں تھا – سمجھ تو نہیں آیا لیکن بانسری اور ہار مونیم کی تان کے زیر وبم پر رقص کا سرور نا قابل بیاں تھا ، جس میں soothing اور Healing کے اثرات نے جسم و روح کو پر کیف بنا دیا-

خوشا رندی کہ پامالش کنم صد پارسائی را
تقویٰ کہ من با جبّہ و دستار می رقصم

ہال کھچا کچھ بھرا ہوا تھا- رقص اور سماع کے دوران قبرستان جیسی خاموشی تھی- مولانا کی” نے نوائی” یعنی بانسری سے ان کی محبت ، کی سنت اسی عقیدت اور جذبے سے نبھائی جا رہی تھی-

بشنو از نۓ چوں حکایت می کند —وز جُدائیہا شکایت کی کند-

مرد و زن روحانی کیفیت میں گم تھے ، کیا مجال ہمارے ملک کی طرح کسی کی زبان سے واہ واہ یا مکرر یا کوئی اور آواز نکلی ہو – ہر رنگ و نسل کے لوگ تھے، جن کا ترکی یا فارسی و عربی سے دور دور کا تعلق نہیں تھا، وہ بھی ویسے ہی سرور میں تھے- ایک انگلش جوڑے کو میں نے پوچھا آپ کو سمجھ آتی ہے ، اس نے کہا موسیقی کی ایک عالمی زبان ہے اور ہر کوئی موسیقی کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق سمجھتا ہے-یہ رقص اور گانا روح کو بھاتا ہے –

کے بود آواز چنگ از زیر وبم —ازبرائے گوش بے حس اصم
( سارنگی کی سریلی آواز کسی بہرے کے لئے نہیں ، بلکہ متاثر ہونے والے کے لئے ہے )

اس طرح کی محفل ورقص بلا شبہ روح کی غذا اور امن و محبت و یگانگت کے پیغام ہیں نہ کہ پاپ میوزک کی طرح خیالات کی پراگندگی اور بے راہ روی کا باعث –

ہمارے ہاں بھی مزاروں پر رقص قوالیوں کی محفلیں ہوتی ہیں لیکن جو دھما چوکڑی اس کے ارد گرد ہوتی ہے ، اس سے اللہ کی پناہ- ساری اسلامی دنیا میں مزارات ہیں، عقیدت مند چڑھاوے چڑھاتے ہیں ، آمدن حکومت کے خزانے میں جاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں مزار دکانیں ہیں جن کی آمدن متولیوں، مجاوروں اور مخدوموں کو جاتی ہے جو اس پر عیاشی اور سیاست کرتے ہیں- پاکستان میں جاگیر داری کے علاوہ استحصال کی یہ دوسری بڑی علامت ہے ، جب تک ان دونوں سے نجات نہیں پائیں گے پاکستان میں غریبوں کا استحصال اور جہالت ختم نہیں ہو سکتی-

قونیہ بہت پر سکون اور روح پرور شہر ہے – یہاں پر صوفیا کی وجہ سے صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے -صاف ستھری گلیاں، سڑکیں، باغات ،پھل بوٹے، لگتا تھا کہ ہم لوگ زندگی بھر یہیں کے رہنے والے ہیں – کہتے ہیں کسی زمانے میں انا طولیہ کا دارالخلافہ قونیہ ہی تھا

(جاری ہے…)

 

دوسری یہاں قسط پڑھیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے