ترکی میں گزرے یادگارایام کی حسیں یادیں(چھٹی قسط)

27 تاریخ کی رات کی صبح گیارہ بجے ہوئی اور ناشتہ ایک بجے کیا – – میں نے تو مکمل بیڈ ریسٹ کا فیصلہ کیا لیکن بچہ لوگوں نے طے شدہ اصول کی پاسداری کرتے ہوئے گرینڈ بازار جانے کا فیصلہ کیا ، وہ لوگ دو بجے فلیٹ سے نکلے اور نو بجے رات ، صرف ونڈو شاپنگ کر کے واپس آئے، میرے پوچھنے پر بتایا کہ آج سودا بازی کی پریکٹس کر آئے ہیں، بالکل پٹھانوں والی عادتوں کے لوگ ہیں ، ہزار سے شروع کر کے سو پر سودا ہو جاتا ہے ، آئندہ آپ کو ساتھ لےکر سودا مکمل کریں گے-

28 جون کی صبح ہم لوگ تین گھنٹے کے بس کے سفر کے ذریعہ بُرسہ Bursa روانہ ہوئے- راستے میں آبنائے باس فورس بھی بذریعہ فیری کراس کی اور بس بھی اسی فیری میں رکھی گئی تھی جو آدھ گھنٹے کا سفر تھا -یہ ٹور ہم نے ٹورسٹ گروپ سے ایک 150 لیرا فی کس کے حساب سے لیا تھا جس میں چائے، کھانا، پانی وغیرہ شامل تھا -ٹورسٹ گروپ کےذریعہ سیر کے فائدے بہت ہیں البتہ اپنی کوئی چوائس نہیں رہتی وہ لوگ ہانکتے رہتے ہیں ، ہندوستان اور پاکستان کے ڈرائیورز کی طرح ان جگہوں پر بسیں کھڑی کرتے ہیں جہاں ان کو کمیشن ملتا ہے ، کھانا چائے تو بہر حال مفت میں ہی ملتا ہے –

راستے میں دو ایسی جگہوں پر کھڑا کیا جہاں کھڑا ہونے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی ۔ ایک جگہ چنار کا بازو پھلائے ہوئے بڑا درخت تھا جس کی عمر 670 سال لکھی تھی جس کی لمبائی، چوڑائی بھی کچھ لکھی تھی- لوگوں کا رش لگا تھا -وہاں ہوٹل کھچا کچھ بھرے تھے-سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے دلچسپی کے اسباب اور سہولتیں مہیا کی گئی تھیں اور کوئی مقصد نظر نہیں آیا –

میں نے شوگراں کے جنگل کے اندر محکمہ جنگلات والوں کے مار ک کردہ دیودار کے درختوں کے ساتھ ان کی عمر، لمبائی ، چوڑائی والی پھٹیاں پڑھ رکھی تھیں جن میں سے ایک کی عمر 3500 سال بھی لکھی تھی لیکن ان کو کوئی پروموٹ نہیں کرتا – میرے آبائی علاقہ کرناہ مقبوضہ کشمیر میں میرے مکان کے قریب ہی ایک چنار کا درخت آج بھی موجود ہے جس کو مقامی لوگ نسل در نسل ، سینہ بہ سینہ ” پھاہی بونڑ ” کہتے ہیں ، جس کی حقیقت سینہ بہ سینہ یہ چلی آئی ہے کہ اس علاقے کا راجہ حکومت کے باغیوں کو اس کے ساتھ لٹکا کے پھانسی دیتا تھا، جس بناء پر اس کو ” پھائی بونڑ ” کہتے چلے آئے ہیں ، لیکن اس پر آج تک تحقیق ہوئی نہ توجہ مبذول ہوئی-

ہمارا ایک اور جگہ “صاف آرگینک شہد “ والی دکان پر آدھا گھنٹہ ضائع کیا جہاں 200 گرام شہد کی قیمت 200 لیرا تھی ، مطلب ہے کہ پاکستان ساڑھے پانچ ہزار روپے- یہ ٹریڈ پروموشن کا حربہ ہوتا ہے – اس طرح ملکی اقتصادیات کو پرو موٹ کیا جاتا ہے-

بسیں بڑی آرام دہ سیٹوں والی ، ہموار اور صاف ستھری سڑکوں پر ایسے چلتی تھیں جیسے ہوائی جہاز کا سفر ہو- محسوس نہیں ہوتا کہ ہمارا جسم حرکت بھی کررہا ہے – راستے میں کئی چھوٹے موٹے قصبے اور شہر آئے جن میں سب سے اہم عثمانیہ خلافت کے بانی عثمان غازی کے مزار کا قصبہ بُرسہ ہی سب سے اہم قصبہ تھا – یہ عثمانی حکومت کا پہلا دارالخلافہ بھی تھا ، یہیں اس کا مزار ، جس کے ساتھ ہی اس وقت کی تعمیر شدہ عالیشان مسجد اور آس پاس خاندان اور سلسلہ سلطنت کے دوسرے لوگ بھی دفن ہیں –

عثمان غازی نے سلاطین سلجوق سے بغاوت کرکے 1290 میں اپنی سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی جو پھیلتے ہوئے قسطنطنیہ (اب استنبول )تک پہنچ گئی جہاں بازنطینیوں کی حکومت تھی اور یہ سلسلہ 1922 تک عثمانیہ کے آخری سلطان محمد وحید الدین تک چلتا رہا جس کو کمال اتاترک نے معزول کرکے اٹلی بھیج دیا ، وہیں اس نے وفات بھی پائی – اس کی خلافت کو ختم کرکے مغربی جمہوریت کے طرز پر نظام کی بنیاد ڈالی –

بُرسہ چھوٹا سا لیکن بڑا با رعب و باجبروت قصبہ دکھتا ہے – لگتا ہے کسی زمانہ میں کسی کا تخت رہا ہے- استنبول سے بُرسا تک پہاڑوں کے درمیاں چھوٹی چھوٹی سر سبز اور آباد وادیاں ہیں ، جن میں انگور، انجیر، زیتون، خوبانیوں ، چیری ، آلو بخارا، سبزیاں اور طرح طرح کے پھل دار درخت ہیں – فروٹ وافر اور سستا میسر تھا ، جیسے سوات یا کاغان جاتے ہوئے ہرجگہ لوگ بیچتے ہیں – پہاڑوں کے درمیان میں سے اتنی کشادگی سے سڑکیں نکالی ہیں کہ دونوں طرف سلائیڈنگ سے بچانے کے لیے ترچھی کٹائی کرکے کیاریاں سی بنائی گئی ہیں جن میں درخت اور ان کے آخر میں چھوٹی چھوٹی نالیاں بنائی گئی ہیں، جن کا پانی ایک جگہ جمع ہوکر بڑی ڈھلوان کے ذریعہ نیچے بہا دیا جاتا ہے جس وجہ سے سلائیڈنگ کہیں نظر نہیں آئی-

اس سارے سفر کی انتہا کوہ” اُلوداگ( Uludağ ) ہے جو 8342 فٹ کی بلندی پر واقع ہے جس کے لیے دو الگ لگ چئیر لفٹ الگ الگ روٹس سے لگی ہیں -یہ بالکل ویسی ہیں جیسی گلمرگ میں لگی ہے ، پتریاٹا والی بھی ملتی جلتی ہے-ہم سب لوگ اس میں بیٹھے، بہت مزہ آیا- تقریبآ سو فٹ کی بلندی پر چار کلو میٹر لمبی ہے اور بہت محفوظ ہے- ، اس کا معاوضہ ہے پاکستانی ساڑھے پانچ ہزار روپے- یہ ٹورازم پروموشن کا حربہ تھا. رات نو بجے کے قریب واپس رہائش گاہ پہنچے- سفر بہر حال یادگار تھا- 22 مسافروں میں سے ہماری فیملی پاکستانی تھی، ایک ہندوستانی ، لبنانی، انگلش جوڑا اور باقی ترک ہی تھے-

29 تاریخ کو ہم لوگ استنبول میں ہی ایوب سلطان گئے، جہاں جلیل القادر صحابی ، عاشق رسول اور ہجرت کرنے پر رسول خدا (ص) کی اونٹنی جن کے دروازے کے سامنے بیٹھ گئی اور رسول خدا (ص) نے ان کے گھر قیام کیا ، جناب حضرت ایوب انصاری (رض) کا مزار ہے، وہاں حاضری دی ، سلام کیا اور مسجد میں تحیۃ المسجد نوافل ادا کیے – دربار، گلیاں، صحن اور گزر گاہیں زائرین سے بھری تھیں، اللہ ان سب سمیت ہماری حاضری، صلوات وسلام اور دعائیں قبول فرمائے – آمین –

سلطان ایوب چوک میں ہی وہ یاد گار کار بھی محفوظ کی گئی ہے جس کو 15 جولائی 2016 کی فوجی بغاوت کے دوران فوجی ٹینک نے کچلا ، اور جمہوریت کے حق میں فوج کے خلاف سڑکوں پر لیٹنے والے سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا گیا تھا – ان سب لوگوں کے نام بھی وہاں لکھے گئے ہیں جنہوں نے جان دے کر ملک کی سیاسی تاریخ رقم کردی-

میرے خیال میں ترکی کی تاریخ میں یہ تیسری بڑی سیاسی انگڑائی تھی- پہلی سلطان عثمان غازی کی ، جب اس نے سلجوقیوں سے بغاوت کر کے عثمانیہ خاندان کی حکومت کی بنیاد ڈالی تھی، دوسری اتاترک کی کمان میں عثمانی خلافت کو ختم کرکے فوجی حکومت کی بنیاد ڈالی گئی اور تیسری فوج کی بغاوت کے خلاف جمہوریت کے حق میں جانیں نثار کرنا – اس کے لیے بھی غیر معمولی صلاحیت کے عوامی مفادات کا ادراک رکھنے اور مہیا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے قائدانہ صلاحیت والے شخص کی ضرورت ہوتی ہے، جو قائد اعظم کے بعد آج تک پاکستان میں کوئی پیدا نہیں ہوا-

وہ یاد گار کار بھی محفوظ کی گئی ہے جس کو 15 جولائی 2016 کی فوجی بغاوت کے دوران فوجی ٹینک نے کچل

وہاں سے فارغ ہوکر میں اور صائمہ ایک بار پھر Miniturkia گئے ، جہاں کے شو روم سے کچھ سونئیر خریدے- رات کا کھانا ہوٹل سے پیک کراکر تقسم چوک کے پارک میں اسی طرح کی ہزاروں فیملیز کے ساتھ کھایا ، جہاں چھوٹے ، بڑے ، زن و مرد میں کوئی فرق نہ تھا-شدید ٹھنڈی ہوا میں تو میں شارٹ سلیوز قمیض پہن کے ٹھٹھر گیا تھا کہ فہمیدہ کی اوڑھنی نے قلفی بننے سے بچا لیا – بڑی مشکل سے رہائش کا راستہ لیا -اس وجہ سے میرا گلا خراب، کھانسی ، فُلو اور جسم ٹوٹنے لگا –

(جاری ہے . . .)

اس دلچسپ سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے