(ترکی میں‌گزرے یادگارایام کی حسیں‌یادیں (آخری قسط)

بچوں کے ہمراہ میرے استنبول کی سیر و تفریح کی روزانہ ڈائری کی یہ آخری قسط نذر احباب ہے – تاثرات اور تجربات دوستوں تک پہنچانے کا مطلب ترکی سے متعلق ابتدائی آگاہی پہنچا کر ترکی کی تاریخ کے مطالعہ اور حسب توفیق دیکھنے کا اشتیاق پیدا کرنا ہے، تاکہ ان کے تجربے سے سیکھ کر اپنے ملک کو بھی ایسا بنانے کی کوشش کریں-

استنبول بلکہ پورے ترکی کے لوگ ہماری زبان بولتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ، نہ ہم جیسا لباس ، طرز زندگی نہ خوراک کھاتے ہیں ، پھر بھی اپنے جیسے لگتے ہیں- میں نے لگ بھگ پانچ سال پہلے بھی سری لنکا یا ٹوکیو سے واپسی پر استنبول دیکھا تھا لیکن اب کی بار پہلے سے زیادہ بارونق اور مصروف پایا – اب کی بار صفائی اور نظم و نسق بہت بہتر نظر آیا- ہم لوگ جہاں جہاں گئے لوگوں میں قانون کا خوف دیکھا مثلآ ٹیکسی والا 4 سواریوں سے زیادہ نہیں بٹھاتا، ٹیکسی میٹر پر چلاتا ہے، گوکہ اس میں ہیرا پھیری بھی حسب مقدور کوئی نہ کوئی کر لیتا ہے –

سودابازی ہمارے پٹھانوں کی طرح ہے ، بتائی ہوئی قیمت کے 50/60 فیصد ڈسکاونٹ پر دے دیتے ہیں ، حتی کہ ڈالر اور یورو کے ایکس چینج ریٹ میں بھی بازار ٹو بازار فرق ہے – جہاں جہاں ہم گئے، راستے راستے زمینیں آباد دیکھیں ، بھلے وہ اناج یا فصل ہو،پا پھر میوے اور سبزیاں – اسی طرح بود و باش ، لباس اور مرد وزن کا باہمی اختلاط – جو ملک میں نے دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ سگریٹ نوش لوگ میں نے اس ملک میں دیکھے ، جن میں مرد وزن دونوں شامل ہیں – البتہ پبلک ٹرانسپورٹ اور دفاتر میں نہیں –

کئی پارکوں میں کانوں پر ٹیگ لگے آوارہ کتے دم دبائے گردن نیچے کئے پھرتے گھومتے دیکھے لیکن ان میں کتوں والی کوئی بات نظر نہ آئی- ہم مختلف اندازے لگاتے تھے – فہمیدہ کا اندازہ تھا کہ یہ جاسوس کتے ہیں – میں نے ایک سیکیورٹی آفیسر سے پوچھا ، اس کا جواب تھا یہ آوارہ کتے تھے جن کو میونسپلٹی والوں نے آختہ یعنی خصی کرکے اور کتیوں کو آپریشن کرکے بانجھ کردیا ہے ، اس طرح ان کی نسل کشی نہیں ہوتی ، ان کو خوراک لوگ اور میونسپلٹی والے دیتے ہیں – یہ طریقہ مجھے بہت پسند آیا – ہمارے ہاں کتا مار مہم چلا کر سفاکی، گندگی اور تعفن پھیلایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان میں ان کتوں کو باڑوں میں بند کردیا جاتا ہے جہاں ان کی نسل بڑھتی جاتی ہے-

کانوں پر ٹیگ لگے آوارہ کتے دم دبائے گردن نیچے کئے پھرتے گھومتے دیکھے

لوگوں میں ترک نیشنلز م کوٹ کوٹ کر بھرا ہے – جن کُردوں سے واسطہ پڑا وہ اپنے آپ کو کُرد کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں – لوگ بھرپور خود اعتمادی سے بات کرتے ہیں – سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کالج یونیورسٹیز کا جال بچھا ہے- لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بالخصوص لیتے ہیں، جن میں زراعت اور لائیو سٹاک بھی سر فہرست ہے – پلان ٹیشن، پارکیں جنگلات اس کا حسن ہیں –

ترکی ایشیا اور یورپ کی گزر گاہ پر واقع ہے – ایشیا والا حصہ ایران، شام اور دیگر مسلمان ملکوں سے جڑا ہے – ایک ہی طرز کی مسجدوں کا جال بچھا ہے اور آباد ہیں ، حکومتی کنٹرول میں ہیں اور ایک ہی وقت میں اذان اور نماز ہوتی ہے – نمازیوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے – اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ یورپ کی طرز پر سرعت سے ترقی کرتا ہوا ملک بنتا جارہا ہےاور بزعم خود استنبول کے یورپ میں ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو یورپ کا حصہ بھی گردانتا ہے ، ساتھ ہی اسلامی دنیا کی قیادت بھی لینے کو کوشاں ہے جس کی اس کو صلاحیت حاصل ہے، لیکن لاطینی رسم الخط اس کو یورپ کا حصہ اور مسلمان دنیا کی قیادت میں مانع ہوگا- اس وجہ سے اس کا علمی اور تہذیبی ورثہ بھی معدوم ہورہا ہے – تقریبآ ساری اسلامی دنیا میں معمولی رد بدل کے ساتھ عربی رسم الخط مستعمل ہے اور انگریزی مسلمہ طور پر یورپ کی غالب زبان ہے – اس کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے- نہ معلوم کمال اتا ترک نے یہ فیصلہ کیوں کیا-

ترکی کے کلاسیکل فن تعمیر کی بجائے اب اس کا رجحان یورپی تعمیر کی طرف مائل ہے – مکانوں کے بجائے فلیٹس میں رہائش کا رواج عام ہوتا جارہا ہے – شہروں کی پرانی گلیاں جو ہماری سڑکوں سے چوڑی ہیں ، میں پتھروں کی ٹائیلوں کی pitching ہوئی ہےاور تقریبآ ہر جگہ ایک قسم کی ہے- سروس روڈس اور قومی شاہراہیں باقی دنیا کی طرح بنائی جارہی ہیں-استنبول تو پہاڑ پر ہے جس کو سیڑھیوں کا شہر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا – 45 سے 60 ڈگری کی چڑھائی وہ بھی سیڑیوں سے چڑھنے اترنے میں اونٹ والی بات ہے “ ہر دو لعنت است “-

استنبول میں “ششلک “ کے جس ایریا میں ہمارا فلیٹ تھا، اس میں پہنچنے تک 95 سیڑھیاں تھیں – مقامی لوگ بھیک نہیں مانگتے ، ہاں اب گلف کی لڑائی کی وجہ سے آنے والے مہاجر ایسا کرتے ہیں – مقامی لوگ شُغلی ہیں – ہر جگہ بینڈ باجا اور طبلہ لے کے گانا بجانا شروع کر کے مجمع لگا لیتے ہیں اس طرح لوگوں کے لئے تفریح اور اپنے لئے روزگار حاصل کر لیتے ہیں- ساز ، لو و تان کشمیری میوزک “ چھکری اور صوفیانہ کلام “ کی طرح لگتا ہے –

کشمیری اور فارسی کے اکثر الفاظ ان کی زبان میں شامل ہیں یا کشمیری اور فارسی میں ان کے الفاظ شامل ہیں – یہ سب پرانی تہذیبیں ہیں، ان کے الفاظ کے ماخذ ایک سے لگتے ہیں – ہر مال، ریلوے ، بس سٹیشن بلکہ عوامی مفاد کی ہر جگہ صاف ستھرے واش روم موجود ہیں جنہیں ایک لیرا دے کر استعمال کیا جا سکتا ہے- ترکی میں زبان بڑا مسئلہ ہے، سوائے استنبول کے باقی علاقوں میں صرف ترکی زبان بولی جاتی ہے – استنبول چونکہ دنیا بھر کی سیاحت کا مرکز ہے ، اس لیے مقامی لوگ بھی یہاں ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتے ہیں ، ہوٹل، ٹیکسی اور بڑے بڑے سٹوروں پر بھی کام چل جاتا ہے – اس لیے اشاروں کی زبان سے سمجھانا پڑتا ہے-دنیا کے ہر ملک کے کھانے یہاں مل سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ یورپین طرز کے حلال کھانے ملتے ہیں – ترکی اور ایران میں حرام کھانے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ قوانین بھی سخت ہیں ، ان کا نفاذ بھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ لوگ ایمان کامل رکھتے ہیں –

پاکستانی ، ہندوستانی ہوٹل کم ہی ہیں – دہلی دربار کے نام سے ایک پاکستانی ہوٹل میں کھانا کھانے کا موقعہ ملا – بڑا مزہ آیا- وہاں ہندوستانی سیاحون کی بھر مار دیکھی ، جن میں زیادہ پنجابی مزے سے دال ، چپاتی ، قیمہ، پالک پنیر اور مصالحے دار ہانڈی کے مزے لوٹ رہے تھے- میں نے ہوٹل چلانے والوں کو پوچھا آپ نے اس کا نام دہلی دربار کیوں رکھا ہے، اس کا جواب تھا کیونکہ ہندوستانی ٹورسٹ زیادہ ہوتے ہیں جو ان کی اٹریکشن کا باعث بنتے ہیں –

برمنگھم میں “ گاندھی ہوٹل “ کے نام سے ایک ہوٹل میرپور کے ایک دوست کا ہے – میں نے اس سے پوچھا تم نے اس کا گاندھی نام کیوں رکھا ہے، اس نے بھی یہی جواب دیا کہ اس ایریا میں ہندوؤں کی بھی کثیر آبادی ہے اور گاندھی تاریخ کا ایک معروف نام ہے کاروباری نکتہ نظر سے یہی نام چلتا ہے – میں نے اسے کہا اگر ہوٹل اچھا چلا تو فائدہ پاکستان کو ہوگا، کامیاب نہ رہا تو بدنام گاندھی ہوگا ، یہ بھی اچھا طریقہ ہے، ایسا ہی استنبول میں ہورہا ہے – پیسہ کمانا یقینآ ایک فن ہے، جس کے لئے کاروباری حربوں کا ادراک ہونا ضروری ہے، یہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں –

پاکستانیوں کو ترکی ضرور دیکھنا چاہیے اور ان کی اسلام پر سمجھوتہ کئے بغیر برق رفتار ترقی اور یورپ سے مقابلہ قابل رشک ہے – ترکی کے ساتھ ساتھ سنٹرل ایشین ریاستوں کو بھی اپنی سیاحت کا مرکز بنانا چاہیے- ان سب کے ذہن، سوچ اور اپروچ بہت مثبت ہے -غور کیا جائے تو پاکستان سنٹرل ایشیا کے لیے گزر گاہ ہی نہیں خود سنٹرل ایشیا ہے، اسی وجہ سے سنٹرل ایشیا کے حملہ آوروں کی اس حصے پر نہ صرف نظر بلکہ چھاپ اب تک موجود ہے – ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں- ہمارے پاس ان کے ساتھ تجارت کے آسان راستے اور بڑی منڈی ہے-

سب سے بڑی بات یہ کہ یہ سب مسلم اکثریت کے ملک ہیں – ہمیں ان سے تعلقات بڑھانے چاہییں لیکن اپنے ملک جیسے مسلکی تنازعے وہاں نہیں لے جانے چاہییں – مڈل کلاس کے لوگ اپنی پونجی میں سے تھوڑی بہت بچت کر کے دو تین سال کے بعد وہاں جاسکتے ہیں -ہم سات لوگ تھے ، ہمارا ہوائی جہاز کے آنے جانے کے ٹکٹ سمیت ، لیکن شاپنگ کے علاوہ ، جو سب کا ذاتی معاملہ تھا، فی کس لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار روپیہ خرچہ آیا -یہ سب کچھ نویدہ کی اچھی مینجمنٹ کی وجہ سے ممکن ہوا، وگرنہ کئی لوگوں نے ہمیں کہا کہ ہوائی ٹکٹ کو چھوڑ کر ان کے فی کس دو سے تین لاکھ خرچ ہوئے حالانکہ اس میں بھی وہ سارے مقامات شامل نہیں تھے جو ہم نے دیکھے –

ہمارے اس سفر میں بڑوں نے اپنا اپنا خرچہ خود برداشت کیا لیکن چھوٹے بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا خرچہ میرے اصرار پر ہم نے ان کے والدین کی مرضی کے خلاف ہی سہی ، آپس میں شئیر کرلیا – بچے نیکیاں بدیاں بھول جاتے ہیں اس لیے کسی کے ممنون احسان رہنے کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہیں اور مزہ بھی چوکھا ہوتا ہے – جس وجہ سے ان کا مفتا لگ گیا ، لیکن اس عمر میں انہوں نے جو کچھ سیکھا وہ ہم قریب المرگ ہوکے سیکھ رہے ہیں ، جو دنیا میں تو ہمیں کام نہیں آئے گا لیکن آخرت میں اللہ کو کہہ سکتے ہیں کہ ہیں ہم نے تیرے حکم کے مطابق دنیا کی سیر کی ہے، یہ عمل بھی ممکن ہے بخشش کا باعث بن جائے، کیونکہ اللہ بے نیاز ہے، ممکن ہے اس کو یہی ادا پسند آجائے-

بڑوں کا خرچہ اس لئے اپنے اپنے ذمہ لگایا کیونکہ وہ الگ فیملی کے حامل تھے ، گوکہ وہ بھی میرے ہی بچے تھے، لیکن بڑوں کو صرف اپنی کمائی ہوئی جائیداد کا احساس اور دیکھی ہوئی دنیا کا درس یاد رہتا ہے، مفت یا ورثے میں ملنے والی جائیداد یا سفر کا نہیں – اسی لئے اللہ نے انسان کو دنیا میں اپنے کسب کو اپنانے اور دنیا دیکھنے کی تلقین انفرادی طور کی ہے ، والدین یا ریاستی خرچہ پر حج سمیت ، کسی سفر یا سیر و سیاحت کی ذمہ داری والدین یا ریاست پر نہیں ڈالی-

اللہ کو منظور ہوا تو آئندہ انڈونیشیا، ملا ئشیا، برو نائی دارالسلام ، اور سنگا پور میں سے جو ایک روٹ میں ہو سکتے ہوں، دیکھنے کا ارادہ ہے ، جس کا احوال ان شاء اللہ ، دوستوں تک پہنچاؤں گا –

یار زندہ صحبت باقی – تا آں دم اللہ حافظ –

اس دلچسپ سفرنامے کی آٹھویں قسط یہاں پڑھیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے