Do More……IMRAN

پاکستان کے پہلے حکمران شہید ملت لیاقت علی خان تھے جو امریکی دورے پہ گئے۔ پھر وہاں سے کینیڈا۔ تازہ ترین، عمران خان بطور وزیر اعظم امریکہ کا دورہ کر کے 24/25 جولائی کی درمیانی شب 1:55 پر وطن واپس پہنچے۔ اس دورے کو پری وزٹ، وزٹ اور پوسٹ وزٹ کے تناظر میں دیکھاجا سکتا ہے یعنی اس دورے سے پہلے اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی میں کیا ہوا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے دورے کے دوران اور دورے کے اختتام پر۔

آئیے سب سے پہلے چلتے ہیں وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے پری وزٹ scenario پر۔ سب سے پہلا شور اٹھا، عمران خان نے دورہ کرنے میں تاخیر کر دی۔ دوسرا یہ کہ امریکہ نے تو پاکستانی وزیر اعظم کو کسی دورے کی دعوت ہی نہیں دی۔ تیسرا یوں کہ عمران خان دورے پر جا کر کریں گے کیا۔ چوتھا، یہ کہ عمران خان کے پاس امریکی انتظامیہ سے کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ پانچواں، اس وقت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کم ترین سطح پر ہیں۔ چھٹا، بھیک مانگنے کے علاوہ امریکہ میں عمران خان کا کام ہی کیا ہے۔ ساتواں، امریکہ کو پتہ ہے عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں اس لئے ٹرمپ عمران خان سے بد سلوکی کر سکتے ہیں۔ آٹھواں، پاکستان میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔

نواں، میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ دسواں، اینکروں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ گیارہواں، عمران خان کو بین الاقوامی تعلقات کا کوئی تجربہ نہیں۔ بارہواں، عمران خان غیر سیاسی وزیر اعظم ہیں۔ تیرہواں، حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں۔ چودہواں، امریکہ میں عمران حکومت لابی پیدا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پندرہواں‘ پاکستان کمزور پوزیشن پر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے کیا مذاکرات کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ سارا کچھ بھی جس کے ذریعے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ پاکستانی ریاست لا وارث ہے، دنیا میں اکیلی، بدنام اور کمزور بھی۔ دور کی کوڑی لانے والے عالمی امور کے ایسے ماہر دو کیٹیگریز میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

پہلی کیٹیگری ان مفت بروں پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنے خرچے پر بیرون ملک کوئی دورہ نہیں کیا۔ کچھ ایسے کاریگر کہ ہر وزیر اعظم کی فرنٹ سیٹ ان کے لئے ایڈوانس بک ہو جاتی تھی ایسے ہر ایک ماہر پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے سے بھی زیادہ خرچ ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان ماہرین کے پاس ایک ہی بیان ہے۔ جسے وہ ہر دور ے میں وزیر اعظم صاحب کا نام اور دورے والے ملک کا سٹیشن بدل کر عشروں سے جاری کرتے آئے ہیں۔ ان بے چاروں کے لئے بھی تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ اس دفعہ وزیر اعظم کے دورے کی رپورٹنگ organic تھی۔ ماہرین کی بجائے عامر عباسی اور عبدالقادر جیسے فیلڈ رپورٹر امریکہ پہنچے ہوئے تھے۔

اس لئے سرکاری ٹی وی کی سو فیصد نا اہلی کے باوجود بھی قوم کو ذرا ہٹ کر رپورٹنگ دیکھنے کو ملی‘ جس کی تعریف وزیر اعظم عمران خان نے امریکی دورے سے واپسی کے سفر کے دوران ایک ٹویٹ کے ذریعے کر دی۔
ایسے میں کم از کم یہ کہنا تو بنتا ہے: Do More Imran Khan Please Do More۔ اور پھر عمران خان کے امریکی وزٹ کے بارے میں قصرِ سفید کے میزبان نے اپنے ترجمان سے پریس ریلیز جاری کروا دی‘ جس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ وزیر اعظم کو ہم نے دعوت دی ہے‘ اور وہ امریکہ کے دورے پر آ رہے ہیں۔

اب آئیے وزیر اعظم کے وزٹ کی طرف جو قطر ائیر ویز کی کمرشل ائیر لائنز کی فلائٹ نمبرQR-633 سے شروع ہوئی۔

دوحہ میں شارٹ بریک کے بعد وزیر اعظم واشنگٹن ڈی سی لینڈ کر گئے۔ عام مسافروں کے ساتھ لائونج میں بیٹھے اور پھر پاکستانی عملے کے استعمال کی عام گاڑی میں پاکستان ہائوس پہنچ گئے۔ اس پر پھر قیامت کا شور اٹھا۔ ماہرین کے کانوں سے دھواں نکلا۔ اُن غنچوں پر حسرت ناک دھواں، جو عمران خان کی پہلی امریکن ٹرپ میں PIA کے دو جہازوں میں بیٹھ کر جانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک پاکستان کی فلائٹ ون اور دوسرا PIA کا بیک اپ جہاز۔

کسی نے کہا: امریکہ نے پاکستانی وزیر اعظم کو لفٹ نہیں کروائی۔ اور کوئی بولی: ایک اکیلی عورت نے عمران خان کو جہاز کے دروازے پر ریسیو کر کے ہماری توہین کر دی۔ شکر ہے موصوفہ اس وقت سو رہی تھیں جب ایک پاکستانی وزیر اعظم کی اسی امریکہ بہادر کے سکیورٹی اہلکاروں نے کپڑے اتروا کر پوری تلاشی لی تھی اور پھر امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ ویسے بھی کپڑے آنی جانی چیز ہیں۔ امریکہ کا سرکاری دورہ ہر روز تھوڑا ہی ملتا ہے۔ ایک اور ماہرہ نے اپنے بیوٹی شو میں سوال اٹھا دیا کہ عمران خان کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کتنی دیر میں آ رہی ہے۔

وہ وہ کچھ خبر چلی کہ بے چاری سچائی کی ”لَیگ بریکنگ‘‘ شروع ہو گئی۔ ذاتی خواہشیں، کمرشل ایجنڈے اور paid content والا یہ دھول دھپا ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ ان ماہرین کو جلسہ ہو گیا۔ جلسے پر میں نے کیا کہنا ہے؟ بلکہ عرب نیوز، گلف نیوز اور ویسٹرن میڈیا کو بھی جانے دیں امریکہ کے وزیر خارجہ واشنگٹن ڈی سی کے پاکستان ہائوس میں آپ کے وزیر اعظم سے ملنے آئے جہاں جناب مائیک پومپیو نے کھلکھلا کر وزیر اعظم کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے:

"You were recieved like a rock star in Capital One Arena”

دوسرا تبصرہ میلانیا ٹرمپ کا ٹویٹ تھا۔ میلانیا ٹرمپ کو عمران خان سے مل کر بہت خوش ہوئی؛ چنانچہ انہوں نے آپ کے وزیر اعظم کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور انہیں اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر اپ لوڈ کر دیا۔ تیسرے میزبان ملک امریکہ کے صدر ٹرمپ خود تھے‘ جنہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے ہاتھ ملا کر میڈیا کے سامنے اعتراف کیا یہ پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم ہیں۔ ساتھ کہا: ان کے خلاف پاکستانی میڈیا جو کچھ کرتا ہے وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو امریکن میڈیا میرے ساتھ کرتا رہتا ہے۔

امریکہ میں پاکستانی وفد کے دوسرے اہم رکن جنرل قمر جاوید باجوہ کا پینٹاگون میں کھلا ڈُلا استقبال تھا۔ امریکن آرمی کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ نے جنرل باجوہ کا استقبال کیا۔ انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ گارڈ آف آنر کا معائنہ کروایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرح‘ جنہیں وہائٹ ہائوس کے تاریخی مقامات دکھائے گئے‘ انہیں پینٹاگون کا تفصیلی دورہ کروایا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم میں صرف حکومت نہیں بلکہ پوری امریکی لیڈرشپ نے دلچسپی لی۔

ان کے کھلے خیالات اور بے لاگ تبصرے، امریکہ میں مستحکم لہجے اور پاکستانیت سے بھرپور دلائل نے سب کو متاثر کیا۔ ڈیموکریٹس کی سربراہ شیلا جیکسن‘ سینیٹ سپیکر نینسی پلوسی سمیت اہم ترین سینیٹرز نے عمران خان سے نئے پاکستان کے بدلے ہوئے بیانیے کو توجہ سے سنا اور سمجھا۔ تازہ اطلاع یہ ہے اگلے سو دنوں میں عمران خان نیو یارک اور برطانیہ میں بھی عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ واشنگٹن کے جلسے میں پڑھے لکھے پاکستانیوں کو آپ سن چکے‘ جنہوں نے پاکستان میں خزانے کی لوٹ مار، منی لانڈرنگ اور کرپشن کرنے والوں کو برسر عام لٹکانے کی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اپنے ہاں ایک گورنر اور لیڈی میئر کو سرکاری مال لوٹنے والا کہہ ڈالا۔

Do More Imran Khan, Please Do More

واپسی پر عمران خان کا شاندار استقبال ہوا۔ امریکہ میں دورے پر عمل درآمد کے لئے کونسل بن رہی ہے۔ دورہ سر اُٹھا کر ہوا۔ اسی لئے پاکستانی امریکن کھرب پتی شاہد خان نے کہا ”پاکستان کے لئے سب سے اچھا عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ ہے۔ میں پھر سے پاکستانی ہونے پر فخر کرتا ہوں‘‘ نواز شریف کی یہ ویڈیو آج پھر سے وائرل ہے:

"I thank you once again and look forward to welcome you and Mr. Obama…….ayeeeeen (inaudible) Mrs. Obama in Pakistan & Qeema and Daal is waiting for you.”

فرق صاف ظاہر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے