ذرا وکھری ٹائپ کے عاشق!

ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا ’’یار تمہارا پالتو کتا تو شیر جیسا لگتا ہے اسے کیا کھلاتے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’یہ کمینہ شیر ہی ہے بس عشق کے چکر میں پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے شکل کتوں جیسی ہو گئی ہے!‘‘ مجھے یہ لطیفہ سنانے سے پہلے عاشقوں خصوصاً ان کے جد امجد ’’مجنوں‘‘ سے معذرت کرنا چاہئے تھی لیکن لطیفہ تو محض لطیفہ ہوتا ہے چنانچہ میں نے اس تکلف کی ضرورت نہ سمجھی۔ ویسے بھی میں عاشقوں کی شان میں وہ گستاخی تو نہیں کر سکتا جو متذکرہ لطیفے میں کی گئی ہے تاہم آہستہ آہستہ ان کی شکل کتے سے تونہیں، بجو سے بہرحال ملنے لگتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بجو نہیں دیکھا مگر اس لفظ کی ہیئت ترکیبی ایسی ہے کہ مجھے لگتا ہے اس کی شکل یقیناً عاشق حضرات سے ملتی جلتی ہو گی۔ ابھی حال ہی میں میری ملاقات ایک عاشق زار سے ہوئی، رنگ پیلا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، ٹانگیں ٹیڑھی، بات بات پہ کسی بے ہودہ سے شعر کے آخر میں ’’فراز‘‘ کا اضافہ کر کے اسے گنگنانے کی کوشش کرتا ہوا، مجھے لگا وہ میری طرف آرہا ہے۔ میں اس کے خیر مقدم کے لئے آگے بڑھا لیکن ’’الائنمنٹ‘‘ کی خرابی کی وجہ سے وہ دوسری طرف نکل گیا تاہم میں نے اسے راستے ہی میں پکڑ لیا۔

وہ سامنے والے مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھ رہا تھا اور آہیں بھرتا جاتا تھا، مجھے اس کی حالت زار پر رحم آیا، میں نے اسے اپنے گلے لگایا اور کہا ’’اے میرے پیارے عاشق، تم نے کس کے عشق میں اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے‘‘؟ جس پر وہ رندھی ہوئی آواز میں بولا ’’یہ تم سامنے والا مکان دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں دیکھ رہا ہوں‘‘ بولا ’’یہ کبھی میرا تھا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’اب یہ کس کا ہے؟‘‘ مجھے اس کی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا ’’اب یہ اس کا ہے جس کی وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’اگر تم برا نہ مناؤ تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ وہ کون تھی‘‘ اس پر وہ دکھ بری آواز میں بولا ’’وہ ’’تھی‘‘ نہیں بلکہ اس کا نام کمالا گجر تھا جس کے پاس میں جوئے میں یہ مکان ہار چکا ہوں!‘‘۔

اپنے مکان کے عشق میں مبتلا یہ عاشق زار تو خیر میرے لئے اجنبی تھا لیکن کچھ عاشق حضرات ایسے ہیں جن سے میری پرانی یاداللہ ہے۔ ان میں سے ایک ایل ڈی اے کے بڑے افسر ہیں مگر جب سے او ایس ڈی بنائے گئے ہیں تب سے انکی بینائی پر بھی اثر پڑا ہے چنانچہ ریس کورس میں جاگنگ کے دوران اکثر اس مخلوق سے جا ٹکراتے ہیں جس کے حمایتی چشم زدن میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ میں انہیں کئی مرتبہ چیف سیکرٹری کے دفتر کے باہر نائب قاصد کے ساتھ اسٹول پر بیٹھا دیکھتا ہوں مگر ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ ایک دن جب اپنی پرانی پوسٹنگ کے فراق میں روتے روتے ان کی حالت غیر ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، شیطان پر بھروسہ رکھیں‘‘۔

اس پر انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی، سپریم کورٹ سے لے کر میڈیا تک سب کرپشن کا رونا رو رہے ہیں، ان کو ملک میں غربت نظر نہیں آتی، انہیں میری غربت دکھائی نہیں دیتی‘‘ میں نے عرض کی ’’برادر، آپ کے اربوں روپے اندرون ملک اور بیرون ملک پڑے ہیں بطور او ایس ڈی بھی آپ کو ہر ماہ تنخواہ مل رہی ہے، مجھے آپ کی غربت والی بات کچھ سمجھ نہیں آئی!‘‘ بولے ’’اتنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو ہاتھ لگانا میں گناہ سمجھتا ہوں۔ ان دنوں میرا گزارہ صرف ماہوار تنخواہ پر ہے، تمہیں میری یہ پھٹی ہوئی پتلون نظر نہیں آتی‘‘؟ انہوں نے مجھے پتلون دکھانے کی کوشش کی لیکن یہ پتلون جہاں سے پھٹی ہوئی تھی میں نے اس طرف دیکھنا مناسب نہیں سمجھا!

یہ سب ’’عشاق‘‘ اپنی جگہ لیکن ایک بہت منفرد عاشق بھی میرے جاننے والوں میں ہے یہ نہ آہ و زاری کرتا ہے، نہ دشت نوردی کرتا ہے، نہ گریبان چاک کرتا نہ سر میں خاک ڈالتا ہے اور نہ دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر دکھی قسم کے گانے گاتا ہے۔ یہ اقتدار کا عاشق ہے۔ یہ اسپورٹس ماڈل کی کار میں گھومتا ہے۔ پروفیومز کی خریداری ’’مغورا‘‘ (پیرس) سے کرتا ہے۔ بالی کے جوتے اور ارمانی کے سوٹ پہنتا ہے! جو روایتی قسم کے عشاق ہیں، وہ آنکھیں بند کر کے عشق کرتے ہیں یہ وہ عاشق ہے جو دوران عشق اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھتا ہے چنانچہ اسے اقتدار سے ’’جدائی‘‘ کا ’’صدمہ‘‘ کبھی برداشت نہیں کرنا پڑا، اس کی قوت شامہ بہت تیز ہے چنانچہ اسے حکومت کے جانے کی بُو سب سے پہلے آتی ہے اور یوں وہ آنے والی حکومت کی خوشبو سے سب سے پہلے مستفید ہوتا ہے۔ اقتدار کے اس عاشق کو عرفِ عام میں لوٹا کہتے ہیں! ہمارے ہاں ان عشاق کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چنانچہ فوجی حکومت ہو یا سویلین، انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں ناقدرے لوگ انہیں ٹائلٹ سے باہر قدم نہیں رکھنے دیتے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے