آذاد کشمیر اور بلدیاتی الیکشن

آذاد جموں و کشمیر 10 اضلاع 19 ٹاؤن اور 182 یونین کونسلز پر مشتمل لگ بھگ 45 لاکھ کے قریب آبادی والا دنیا کا انتہائی حسین خطہ جسے اللّہ تعالیٰ نے قدرتی چشمے،دریا،بلند و بالا پہاڑ،سرسبز وادیاں،قدرتی جھیلیں،معدنیات،گھنے جنگلات،بہترین موسم،پھلوں کی کئی اقسام نعمت کے طور پر عطا کیں ہیں۔

5134 سکوائر میل میں موجود اس ریاست کے قیام کو تقریباً 72 سال گزر چکے ہیں۔ریاست آزاد جموں و کشمیر اپنا صدر،وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے رکھتی ہے۔

قارئین کرام۔ ریاست آذاد جموں و کشمیر جس کے قیام کے دوران ہزاروں جانیں قربان ہوئیں،عصمت دریاں ہوئیں،خاندان بچھڑے اور تقسیم کا وہ عمل ہوا جس کا خمیازہ دونوں اطراف کی کشمیری عوام آج تک بھگت رہی ہے۔

انڈین مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کی داستانیں اقوام عالم میں گونج رہی ہیں اور وہاں کے ہر بچے کی زبان سے ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے لیکر رہیں آزادی۔ ہے حق ہمارا آزادی۔

لیکن اس کے برعکس انڈین مقبوضہ کشمیر کی جہدوجہد آزادی کے بیس کیمپ آزاد جموں و کشمیر میں صورتحال انتہائی مختلف اور تشویشناک ہے۔سوشل میڈیا کے جدید دور میں ریاست آذاد کشمیر سے انڈین مقبوضہ کشمیر کے حق میں جو صدائیں بلند ہونی چاہئیں انکی گونج کے بجائے میں ریاست آذاد جموں وکشمیر کے کونے کونے سے آذاد ریاست کے شہری اپنے علاقوں میں موجود ترقیاتی مصائب وآلام کی داستانیں سوشل میڈیا کی زینت بنا کر ریاست آذاد جموں و کشمیر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔

اسوقت آذاد کشمیر کے تمام اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی رفتار انتہائی سست ہے جس کی وجہ سے عوام میں انتہائی بے چینی پائی جاتی ہے۔کہنے کو آزاد جموں وکشمیر میں تمام تر حکومتی سطح پر محکمہ جات بھی موجود ہیں،وزرا کی فوج ظفر موج بھی موجود ہے،کشمیر کونسل کے ممبران کا اضافی پروٹوکول اور مدد بھی ریاست آزاد جموں وکشمیر کی حکومت کو میسر ہے لیکن اس سب کے باوجود مسائل ایسے گھمبیر ہیں کہ حل کی جانب کچھوے کی رفتار سے بھی آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔

میں نے انتہائی باریک بینی سے آذاد کشمیر میں موجود وسائل اور مسائل پر اپنی تحقیق کی تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 1991 میں منعقد ہونے والے آخری بلدیاتی الیکشن کے بعد ریاست آذاد جموں وکشمیر میں بلدیاتی الیکشنز کا نہ ہونا آذاد خطے کے ترقیاتی منصوبوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ریاست آذاد جموں وکشمیر کا اکثریتی رقبہ انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں حکومتی رسائی موجودہ سیٹ اپ کی صورت میں کافی مشکل ہوتی ہے۔

نچلی سطح پر جو مسائل وارڈ کونسلر یا یونین کونسل کے نمائندے سمجھ سکتے ہیں وہ حلقے کے اسمبلی نمائندے اور ضلعی انتظامیہ نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نا ہی انکے حل میں اس طرح کی پیش رفت کر سکتے ہیں جس طرح سے وہاں کے رہنے والوں کی خواہش اور تکلیف کا ازالہ ممکن ہوتا ہو۔

آج ریاست آذاد جموں وکشمیر کے ہر قریہ میں سکولوں،سڑکوں،بنیادی صحت مراکز کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ترقی کی وہ رفتار جو آج سے بیس برس قبل تھی اب مسلسل تنزلی کی جانب رخ موڑے ہوئے ہے۔

آذاد کشمیر کے باسی اب آذاد کشمیر میں موجود مسائل کی وجہ سے مسلسل پاکستان کے شہروں مستقل ہجرت کر رہے ہیں۔

صحت،تعلیم اور زرائع آمد و رفت کسی بھی خطے کی ترقی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں اور یہ تین شعبے بلدیاتی الیکشنز کے نہ ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں۔لیکن آزاد کشمیر کی پچھلی حکومتوں کی روش پر چلتے ہوئے موجودہ حکومت بھی سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کا تعین کرنے میں ناکام ثابت ہو چکی ہے۔

سیاسی جماعتیں آذاد کشمیر میں بھرپور سیاست کرتی ہیں لیکن بنیادی سیاسی سرگرمی جس سے ہر علاقے کے بنیادی مسائل کو اجاگر کرنےاور حل کرنے میں مدد ملتی ہو اس نظام لوکل باڈی الیکشن کے انعقاد کی ذرا بھر کوشش نہیں کرتیں۔ریاست آذاد جموں وکشمیر کے عوام اپنے نمائندوں سے اس حد تک بیزار ہو رہے ہیں کہ امید کی جاتی ہے کہ اگلے اسمبلی الیکشن میں ٹرن اوور انتہائی کم اور لوکل باڈی الیکشن کا مطالبہ عوام کی جانب سے زور پکڑتا جائے گا۔

آزادی کے بیس کیمپ میں وسائل کی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی نیت اور لگن بھی نہیں ہے۔دنیا کی ترقی میں انسانیت کی قدر کرنے والے ممالک ہی سب سے ترقی یافتہ ہیں لیکن آزاد کشمیر میں منتخب اسمبلی نمائندوں میں انسانیت کی ترقی کے بجائے اپنی ذات کی ترقی کے بارے میں سوچنا اور کوشش کرنا ہی اولین مقصد ہے۔ لوکل باڈی الیکشن آذاد کشمیر میں موجود مسائل کو حل کرنے میں مددگار ذریعے ثابت ہو گا اسلئے حکومت وقت کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے جلد سے جلد لوکل باڈی الیکشن کا انعقاد منعقد کرانا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے