نظام ٹھیک کرنے کے دو ماڈل

نظام ٹھیک کرنے کے دو ماڈل
یاسر پیر زادہ31 جولائی ، 2019

’’دنیا کی بہترین پروپیگنڈا تکنیک بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ایک بنیادی اصول مستقلاً ذہن میں نہ بٹھا لیا جائے اور وہ یہ ہے کہ پروپیگنڈا فقط چند نکات تک محدود ہونا چاہئے جو مسلسل دہرائے جائیں‘‘۔ ایڈولف ہٹلر۔

اگلے روز میں ایک ریستوران میں بیٹھا ڈبل اسکوپ آئس کریم کھا رہا تھا کہ ایک صاحب سے ملاقات ہو گئی، چھوٹتے ہی موصوف نے وہ سوال پوچھنا شروع کر دیے جو گزشتہ ستّر برس سے ہم ایک دوسرے سے پوچھتے چلے آ رہے ہیں۔ جناب ہمارے ملک کا کیا بنے گا، آخر ہم ترقی کب کریں گے، آپ یورپ کی مثال لے لیں، امریکہ کو دیکھ لیں، ان ملکوں نے ترقی کی، سسٹم بنایا ہم کیوں نہیں بنا سکتے، یہ سسٹم کون بنائے گا، آپ لوگ مسائل پر لکھتے ہیں حل نہیں بتاتے۔ اس دوران میں آئس کریم ختم کر کے کافی شروع کر چکا تھا۔ پھر کافی بھی ختم ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ میں کافی کی گرماہٹ مارنے کے لئے دوبارہ آئس کریم کا آرڈر دیتا وہ صاحب مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گئے۔ کالم نگاروں پر یہ اعتراضات نئے نہیں، ہم لوگ ہر معاملے میں بقراط بننے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی علمیت جھاڑتے ہیں اور بعض اوقات مسائل کا حل بھی پیش کرتے ہیں مگر بات نہیں بنتی، بہترین سے بہترین حل بھی ہمیں ناقابلِ عمل لگتا ہے حالانکہ نصف سے زائد ممالک نے اپنا نظام ٹھیک کر لیا ہے، بنے بنائے ماڈل دنیا میں موجود ہیں جن کی نقل کر کے ہم اپنا نظام درست کر سکتے ہیں مگر کر نہیں پاتے، آخر کیا وجہ ہے، کون سا ایسا مسئلہ ہم نے پال رکھا ہے جسے حل کیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں؟ یہ جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں آخر دنیا میں کیا ہوتا ہے، ملک کیسے ترقی کرتے ہیں، ترقی کے لئے کون سا بنیادی مسئلہ حل کرنا ضروری ہوتا ہے، کیا یہ مسئلہ کرپشن ہے یا کچھ اور، اگر کچھ اور ہے تو کیا؟

دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی دو اقسام ہیں، ایک ماڈل امریکہ، برطانیہ، یورپ کا ہے جہاں کئی سو برس کی جدوجہد کے بعد یہ طے ہو چکا ہے کہ ملک میں اختیار کس کے پاس ہوگا۔ اس ماڈل میں یہ طے ہو چکا ہے کہ عوام اور ریاست کے مابین ایک سوشل کنٹرکٹ ہوگا جسے آئین کہا جائے گا، اس میں شخصی آزادیوں کی ضمانت دی جائے گی، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے عدالتوں کو آزاد اور خود مختار بنایا جائے گا، اقلیتوں کے حقوق محفوظ کیے جائیں گے اور آزادی اظہار پر کسی قسم کی قدغن نہیں ہو گی۔ سوشل کنٹرکٹ کے ذریعے جب یہ باتیں طے ہو گئیں تو پھر ان اقوام نے اس کنٹرکٹ کا ویسے ہی احترام کیا جیسے کسی مقدس کتاب کا کیا جاتا ہے، یہ جرات نہیں ہوئی کہ کوئی کہتا کہ یہ چار صفحوں کی کتاب ہے جب چاہے پھاڑ دوں۔ گو کہ اِس قسم کا سوشل کنٹرکٹ کم و بیش ہر ملک نے اپنے عوام کے ساتھ کر رکھا ہے مگر اس کنٹرکٹ پر عمل ہر ملک میں نہیں ہوتا، یہ جو ہم پاکستانی دوڑ دوڑ کر امریکہ، برطانیہ کی شہریت لینے جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ سوشل کنٹرکٹ ہی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ بات صرف سوشل کنٹرکٹ کی نہیں ان ممالک کے نظام کی بھی ہے جو انہوں نے وضع کر رکھا ہے مگر یہ نظام اس سوشل کنٹرکٹ کو مقدس تسلیم کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے نہ کہ پہلے۔ دوسرا ماڈل ان ممالک کا ہے جہاں یہ سوشل کنٹرکٹ اپنی آئیڈیل شکل میں موجود نہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ ملک ترقی کر رہے ہیں جیسا کہ چین، دبئی، ملائشیا وغیرہ۔ ان ملکوں نے بھی مگر کچھ باتیں طے کر لی ہیں جن پر وہ من و عن عمل کرتے ہیں، کسی بادشاہ، کسی حکمران، کسی پارٹی کے چئیرمین کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے ان میں تبدیلی کر لے۔ مثلاً دبئی نے فیصلہ کیا کہ اسے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہئے، اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ اسپیشل اکنامک زون بنایا جائے مگر محض اس کا نام اسپیشل رکھنے سے بات نہیں بننا تھی اور نہ ہی اکنامک زون صرف سڑکوں اور بجلی کے کھمبوں کا نام ہوتا ہے، چنانچہ دبئی کے حکمران نے اس اکنامک زون میں نہ صرف کاروبار کے لئے آسانیاں پیدا کیں اور ون ونڈو کا نظام اپنایا بلکہ سرمایہ کار کمپنیوں کے لئے عدالتی نظام تبدیل کرکے وہاں اسپیشل جج تعینات کر دیے اور یوں پورے اکنامک زون کا عدالتی نظام باقی دبئی سے علیحدہ کر دیا، یہ وہ بات تھی جس نے سرمایہ کار کو یقین دلادیا کہ بادشاہی نظام میں بھی اس سے نا انصافی نہیں ہو گی۔

پاکستان واپس آتے ہیں، ہم تین میں نہ تیرہ میں۔ یہاں فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں، ہم نے ایک بہترین قسم سوشل کنٹرکٹ تو بنا رکھا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا اور اس پر عمل اِس لئے نہیں ہوتا کہ ہم گزشتہ ستّر برس سے ایک پروپیگنڈا کا شکار ہیں، اس پروپیگنڈا کے زیر اثر ہماری ذہنوں میں یہ باتیں نقش ہو چکی ہیں کہ جمہوریت، آئین، شخصی آزادیاں وغیرہ مغربی عیاشیاں ہیں، ہمارا اصل مسئلہ کرپشن ہے جس کی وجہ سے ہم ترقی نہیں کر سکے۔ ہٹلر کے بتائے ہوئے فارمولے کے تحت یہ پروپیگنڈا اس شد و مد کے ساتھ کیا گیا ہے کہ کم از کم آج کی نوجوان نسل اسے ایمان کی حد تک درست سمجھتی ہے۔ اب ہمارے پاس دوسرا ماڈل رہ جاتاہے، اس ماڈل کے تحت ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ ملک میں اکا دکا چیزیں درست کر دیں تاکہ اس کے ثمرات سمیٹ سکیں، اس ضمن میں کچھ لوگوں کو موٹر وے کی مثال بہت پسند ہے حالانکہ وہ ایک بالکل مختلف وجہ سے کامیاب ہے۔ اسپیشل اکنامک زون کی مثال بہتر ہے، ہم نے بھی کوشش کی کہ یہاں اسپیشل اکنامک زون بنائے جائیں اور ہم نے اپنی طرف سے کچھ سڑکیں بنا کر اور ٹیکس میں چھوٹ دے کر سمجھا کہ اسے اسپیشل کہتے ہیں جبکہ سرمایہ کار کو جو تحفظ، ضمانت اور سہولت درکار تھی وہ ہم نے نہیں دی اور وہ ہم اس لٗئے نہیں دے پائے کہ منتخب حکومت کے پاس اتنا اختیار ہی نہیں تھا اور یہ اختیار اس لئے نہیں تھا کہ مختلف مواقع پر یہ اختیار ایک مسلسل پروپیگنڈا کے ذریعے محدود کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو ہٹلر کا قول۔ سو ان حالات میں یہ ممکن نہیں کہ ملک میں تعلیم، صحت اور انصاف کا نظام تو فرسودہ ہو مگر سیاحت فروغ پائے۔ معاشرے جنگل کی طرز پر پھلتے پھولتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ پوری فصل کو سنڈی لگی ہو اور بیچ میں ایک ٹکڑا لہلہاتا رہے لیکن آخر کہیں سے تو شروعات کرنا ہیں، یہ شروعات کہاں سے ہوں؟ جن ممالک کو ایسے مسائل کا سامنا تھا وہ ممالک اس گرداب سے کیسے نکلے؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کے جواب میں ان گنجلک مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں، مصیبت مگر یہ ہے کہ جواب دینے کی اجازت نہیں کیونکہ میں اب کچھ کچھ صوفی ہو گیا ہوں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے