بس ذرا کراچی تک

کراچی بہت کم جانا ہوتا ہے۔ ان برسوں میں جتنا کراچی نے تشدد اور خون خرابہ دیکھا ہے اس کے بعد ویسے بھی کسی کا کم ہی دل چاہے گا کہ وہ اس شہر میں جائے۔
میں ویسے بھی سفر کرنے کے معاملے میں بہت سست ہوں۔ ویک اینڈ پر تو کہیں جانا عذاب لگتا ہے۔ پورا ہفتہ انتظار رہتا ہے کہ ویک اینڈ آئے تو کتابیں پڑھی‘ فلمیں دیکھی جائیں اور بچوں سے گپ شپ لگائی جائے۔ کراچی میں پہلی دفعہ دو ہزار دو میں گیا تھا‘ جب ایک ٹی وی چینل میں ٹریننگ چل رہی تھی۔ ایک ماہ وہاں رہا۔ بیچ لگژری ہوٹل میں قیام تھا۔ سمندر کے کنارے اس ہوٹل کی شامیں آج تک یاد ہیں۔ شام کو تھکے ہارے آنے کے بعد وہاں لان میں بیٹھتے اور تیز ہوا کے تھپیڑے چہرے سے ٹکراتے تو مزہ آتا۔ وہیں کئی دوست بنائے جو لاہور سے آئے ہوئے تھے جن میں احمد ولید‘ طاہر ملک‘ فصیح الرحمن‘ اسد ساہی‘ مجاہد جعفری شامل ہیں اور جنہوں نے بعد میں ٹی وی چینلز میں اپنا نام پیدا کیا؛ تاہم ہمارے دوست اسد ساہی کی اچانک موت ہم سب دوستوں کے لیے ایک جھٹکا تھی۔ ایک کھلا ڈلا انسان جلدی رخصت ہو گیا۔
کراچی مجھ پر کوئی اثر چھوڑنے میں ناکام رہا لہٰذا اس کے بعد دو تین دفعہ اگر کراچی گیا بھی تو بہت ضروری کام تھا۔ ایک دفعہ کراچی گیا تو شہر کو اتنا گندہ پایا کہ رہی سہی کسر پوری ہو گئی اور سوچا کہ اب کبھی ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ کراچی کے ساتھ جو ظلم ہو رہا تھا اس پر دکھ ہوا کہ جس شہر نے پورے پاکستان کو پالا‘ وہ اب اتنی گندگی کا شکار ہو چکا تھا۔ پچھلی دفعہ جب گیا اور سابق بیوروکریٹ اور ادیب اقبال دیوان نے کراچی میں پرانی کتابوں کی دکانوں پر چکر لگوائے تو مجھے مزا آیاور اس شہر میں پہلی دفعہ دلچسپی پیدا ہوئی۔
میں سوچتا رہا کہ اب جانے کب کراچی جانا ہو گا۔
اچانک ایک قابلِ احترام ریٹائرڈ پولیس افسر میر زبیر محمود کا فون آ گیا۔ زبیر محمود ان چند پولیس افسران میں سے ہیں‘ جن کی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔ جو دو تین رول ماڈل پولیس میں بچ گئے ہیں ان میں سے ایک میر زبیر ہیں۔ وہ بلوچستان کے آئی جی اور ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈی جی رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تین چار قسم کے افسران ملتے ہیں۔ ایک قسم بہت ایماندار ہوتی ہے لیکن مجال ہے کوئی کام کرنے کے قابل ہو۔ ایسے لوگ ساری عمر اپنی ایمانداری کا چونا بیچتے رہتے ہیں لیکن بھرپور نالائق ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو ایماندار ہوتے ہیں اور لائق بھی۔ تیسرے صرف لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور مال بناتے ہیں۔ ایسے افسران بہت کم ہوتے ہیں جو ایماندار بھی ہوں اور لائق بھی۔ میر زبیر محمود کا تعلق اس کلاس سے ہے جس میں دونوں خوبیاں ہوتی ہیں۔
ان کا فون تھا: بیٹی کی شادی ہے۔ اگر میر زبیر مجھے کہتے کہ بیٹے کی شادی ہے تو میں شاید بہانہ کر جاتا لیکن بیٹی کی شادی ہو تو انکار مشکل ہو جاتا ہے‘ اور وہ بھی ایسے پولیس افسر کی بیٹی کی‘ جس نے عمر بھر عزت کمائی تھی۔ اقبال دیوان کو فون کیا تو طے ہوا کہ ڈیرہ ان کے ہاں ہو گا۔ وہ اپنی ہی طرز کے انسان‘ بیوروکریٹ اور لکھاری ہیں۔ ہم دونوں کا پیر ڈاکٹر ظفر الطاف تھا لہٰذا ہم اس رشتے سے پیر بھائی ہیں۔ اس دفعہ یہ بھی ذہن میں تھا کہ سب رنگ کے شکیل عادل زادہ صاحب سے ملنا ہے۔ پچھلی دفعہ ان سے ملے بغیر آ گیا تھا‘ اور انہوں نے گلہ کیا تھا‘ جس پر کئی دن شرمندہ رہا۔ شکیل عادل زادہ‘ کراچی کے بزنس مین شکیل الرحمن کے گھر جو محفل جمی اس کے لیے پورا کالم چاہئے۔ وہیں شکیل عادل زادہ کے داماد زبیر مرزا کی جو شاندار گفتگو سنی اس کے بعد کراچی بار بار آنے کی طلب ہوئی۔ شکیل الرحمن‘ جو کراچی چیمبر کے سیلز ٹیکس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ کے گھر جو نہاری بنتی ہے‘ اس کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ شکیل الرحمن کی کراچی کے کاروبارا ور بزنس مینوں کے مسائل پر کی گئی گفتگو سے مجھے پہلی دفعہ کراچی کے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملی۔ شکیل الرحمن کو میزبانی کے ساتھ ساتھ گفتگو کا فن بھی آتا ہے۔ زبیر مرزا اور شکیل الرحمن کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ہم سب نے کافی دیر تک خاموش رہ کر سنا اور انجوائے کیا۔
کراچی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہاں آپ کو رات دس بجے شادی ہال بند نہیں کرنا پڑتے۔ اسلام آباد اور پنجاب میں آپ پر ایک دبائو ہوتا ہے لہٰذا آپ زیادہ انجوائے نہیں کر پاتے اور آپ کو جلدی جلدی کھانا کھا کر لوٹنا پڑتا ہے؛ تاہم کراچی میں آپ کے پاس بڑا وقت ہوتا ہے کہ لوگوں اور دوستوں سے ملیں‘ گپیں لگائیں اور ویک اینڈ انجوائے کریں۔ اقبال دیوان کو کہا کہ چلیں نو بج رہے ہیں۔ وہ ہنس پڑے اور کہا: دس بجے تک پہنچ جائیں گے اور وہی بہتر وقت ہو گا۔ شاید میر زبیر محمود میرے آنے کی توقع کم رکھتے تھے لہٰذا ان کے چہرے پر خوشی دیکھ کر اسلام آباد سے کراچی تک کے سفر کا سارا بوجھ ایک لمحے میں ختم ہو گیا۔ مجھے خوشی ہوئی۔ یہ اور بات کہ دل کچھ دیر تک دکھی رہا جب ایک کونے میں کھڑی میر زبیر محمود کی بیگم صاحبہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ پہلے وہ اپنی آنکھوں سے ایک ایک آنسو پونچھتی رہیں۔ پھر اپنے بیٹے کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگ گئیں۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ کتنا مشکل ہوتا ہے ماں باپ کے لیے ایک بیٹی کو جنم دے کر اس کو لاڈ پیار سے بڑا کرنا‘ پڑھانا‘ اس کے نخرے اٹھانا‘ اور ایک دن کسی اجنبی لڑکے کے ساتھ شادی کے بندھن میں رخصت کر دینا۔
زندگی کا ایک پورا باب ختم ہوا۔ اب زندگی وہ نہیں رہے گی۔
شاید یہ منظر مجھے مزید افسردہ کرتا لیکن وہاں سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کو دیکھا تو ان سے لمبی گپ شپ شروع ہو گئی۔ قادر بلوچ نواز شریف کے ان چند وزیروں میں سے ایک تھے جن کی اسلام آباد میں عزت کی جاتی تھی اور جو پانچ سال وزیر رہنے کے بعد بھی عزت کے ساتھ گھر گئے۔ اگر نواز شریف ان پر اعتماد کرتے اور ان کے چند مشورے مان لیے جاتے تو شاید ان کے فوج سے تعلقات خراب نہ ہوتے۔ وہیں ایف آئی اے کے ایک شاندار ریپوٹیشن والے افسر نجف مرزا سے بھی ملاقات ہوئی۔ نجف مرزا کا شمار بھی بہادر افسران میں ہوتا ہے۔ انہوں نے زرداری کے جعلی اکائونٹس کی تفتیش کی تھی اور دوران تفتیش زرداری سے ان کی تلخ کلامی تک ہو گئی تھی۔ زرداری کو ٹف ٹائم دینے والوں میں ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اور نجف مرزا جیسے افسران شامل تھے۔ ان سے پہلے سب زرداری سے ڈرتے تھے‘ اسی لیے تفتیش تین سال تک نہ ہو سکی تھی۔
اسی دوران کسی نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ مڑ کر دیکھا تو سابق وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کھڑے تھے۔ میں اٹھا اور گرمجوشی سے ملا۔ ان سے لندن میں دو ہزار سات میں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران روزانہ ڈیوک سٹریٹ میں ملاقات ہوتی تھی۔ میرے دل میں ان کے لیے عزت اور احترام تھا۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو شریف بھائیوں کے دربار میں خوشامد نہیں کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ہم چند صحافیوں سے کہا: دیکھ لیں نواز شریف نے چپکے سے سعودی عرب کی فلائٹ لے لی۔ وہ ساتھ والے سیل میں قید تھے لیکن انہیں ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ میں نے مذاقاً کہا: شاہ جی آپ ہمارے سامنے بات کرتے ہیں‘ کبھی نواز شریف کے منہ پر بھی کہا ہے؟
وہ چپ کر گئے۔ اگلے دن جب دربار لگا ہوا تھا تو ان کی مجھ پر نظر پڑی۔ غوث علی شاہ نے موقع دیکھ کر نواز شریف کو کہا: سائیں آپ نے تو ڈیل کر لی تھی‘ اتنے بڑے جہاز میں ہمارے لیے کوئی سیٹ نہیں تھی‘ میں بھی آپ کے ساتھ والے سیل میں قید تھا‘ ہمیں بھی لے جاتے‘ کیا فرق پڑ جانا تھا۔
دفتر میں ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ شاہ جی مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے دفتر سے باہر نکل گئے تھے اور اپنے پیچھے سب کو حیران و پریشان چھوڑ گئے تھے۔ نواز شریف نے بات دل میں رکھی اور وزیر اعظم بننے کے بعد غوث علی شاہ کو قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔ صدر بنایا تو ممنون حسین کو‘ گورنر بنایا تو کسی اور کو۔
میں نے کہا: سائیں کیا ہوا تھا۔ نواز شریف نے کیوں یہ سلوک کیا آپ کے ساتھ حالانکہ آپ نے تو ان کے لیے مشکل وقت گزارا تھا۔ پارٹی کی دیگر قیادت کی طرح جنرل مشرف کو جوائن نہیں کیا تھا۔
ہنس کر بولے: سائیں چھوڑیں بعض لوگوں کو عزت دار لوگ راس نہیں آتے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے